شکست خواب کی روداد کیا کہیں تم سے

عبید الکبیر

شکست خواب کی روداد کیا کہیں تم سے

ہوئے ہیں کس طرح برباد کیا کہیں تم سے

متاع کوچہ وبازار بن چکے ہیں میاں

ادیب وشاعر ونقاد کیا کہیں تم سے

ہے سنگ اٹھانے کا انجام گوشئہ زنداں

سگان شہر ہیں آزاد کیا کہیں تم سے

گلوں نے اپنے تبسم کی کیا سزاپائی

صبا کے لب پہ ہے فریاد کیا کہیں تم سے

قفس حلال ہوا اور آشیانہ حرام

عبث ہے شکوئہ صیاد کیا کہیں تم سے

وہ لوح وحرف کہ جن سے لہو ٹپکتا ہے

ہیں کس کے ظلم کی ایجاد کیا کہیں تم سے

ہم اپنی شمع سخن کو جلائے رکھے ّہیں

عبیدؔ طبع کی افتاد کیا کہیں تم سے

تبصرے بند ہیں۔