شکست خواب کی روداد کیا کہیں تم سے
عبید الکبیر
شکست خواب کی روداد کیا کہیں تم سے
ہوئے ہیں کس طرح برباد کیا کہیں تم سے
…
متاع کوچہ وبازار بن چکے ہیں میاں
ادیب وشاعر ونقاد کیا کہیں تم سے
…
ہے سنگ اٹھانے کا انجام گوشئہ زنداں
سگان شہر ہیں آزاد کیا کہیں تم سے
…
گلوں نے اپنے تبسم کی کیا سزاپائی
صبا کے لب پہ ہے فریاد کیا کہیں تم سے
…
قفس حلال ہوا اور آشیانہ حرام
عبث ہے شکوئہ صیاد کیا کہیں تم سے
…
وہ لوح وحرف کہ جن سے لہو ٹپکتا ہے
ہیں کس کے ظلم کی ایجاد کیا کہیں تم سے
…
ہم اپنی شمع سخن کو جلائے رکھے ّہیں
عبیدؔ طبع کی افتاد کیا کہیں تم سے
تبصرے بند ہیں۔