شہادت حسینؓ کا مقصد

تحریر: مولانا ابوالکلام آزادؒ۔ ترتیب: عبدالعزیز

 شہادت حسین رضی اللہ عنہ فی الحقیقت ، حق و صداقت ، آزادی و حریت، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ایک عظیم الشان انسانی قربانی تھی جو صرف اس لئے ہوئی کہ تاکہ پیروان اسلام کیلئے ایک اسوۂ حسنہ پیش کرے اور اس طرح جہاد حق و صداقت اور اس کے ثبات و استقامت ہمیشہ کیلئے ایک کامل ترین مثال قائم کرے، پس جو بے خبر ان کو رونا چاہئے اور جو روتے ہیں ان کو صرف رونے ہی پر اکتفا نہ کرنا چاہئے۔ ان کے سامنے سید الشہداء نے اپنی قربانی کا ایک اسوۂ حسنہ پیش کر دیا ہے اور کسی روح کیلئے ہر گز جائز نہیں کہ محبت حسینؓ کی مدعی ہو اور جب تک اسوۂ حسین کی متابعت کا اپنے اعمال کے اندر سے ثبوت نہ دے۔

 دنیا میں ہر چیز مرجاتی ہے کہ فانی ہے مگر خون شہادت کے ان قطروں کیلئے جو اپنے اندر حیات الٰہیہ کی روح رکھتے ہیں فنا نہیں  ؎

ہر گز نمی میرد آنکہ پش شدید عشق 

ثبت ست بر جزیرۂ عالم دوامِ ما

 (1 سب سے پہلا نمونہ جو یہ حادثہ عظیم ہمارے سامنے پیش کرتا ہے دعوت الی الحق اور حق و حریت کی راہ میں اپنے تئیں قربان کرنا ۔ بنی امیہ کی حکومت ایک غیر شرعی حکومت تھی۔ کوئی حکومت جس کی بنیاد جبر و شخصیت پر ہو کبھی بھی اسلامی حکومت نہیں ہوسکتی۔ ایسی حالت میں ضروری تھا کہ ظلم و جبر کے مقابلہ کی ایک مثال قائم کی جاتی اور حق و حریت کی راہ میں جہاد کیا جاتا۔ حضرت سید الشہداء نے اپنی قربانی مثال قائم کرکے مظالم بنی امیہ کے خلاف جہادِ حق کی بنیاد رکھی اور جس حکومت کی بنیاد ظلم و جبر پر تھی اس کی اطاعت و وفاداری نہیں کی جاسکتی۔ پس یہ نمونہ تعلیم کرتا ہے کہ ہر ظالمانہ و جابرانہ حکومت کا اعلانیہ مقابلہ کرو اور کسی ایسی حکومت سے اطاعت و فرماں برداری کی بیعت نہ کرو جو خدا کی بخشی ہوئی انسانی حریت و حقوق کی غارت گر ہو اور جس کے احکام مستبدہ و جابرہ کی بنیاد صداقت و عدالت کی جگہ جبر و ظلم پر ہو۔

(2 مقابلہ کیلئے یہ ضروری نہیں کہ تمہارے پاس وقت و شوکت مادی کا وہ پورا ساز و سامان بھی موجود ہو جو تمہاری ظالموں کے پاس ہے کیونکہ حسین بن علیؓ کے ساتھ چند ضعفاء و مساکین کی جمعیۃ قلیلہ کے سوا اور کچھ نہ تھا، حق و صداقت کی راہ نتائج فکر سے بے پروا ہے۔ نتائج کا مرتب کرنا تمہارا کام نہیں ، یہ اس قوت قادرہ ، عادلہ و الٰہیہ کا کام ہے جو حق کو باوجود ضعف و فقدان انصار کے کامیاب و فتح مند کرتی اور ظلم و ستم کو باوجود حمیت و عظمت دنیوی کے نامراد کرتی ہے۔ ایسے موقع پر ہمیشہ مصلحت اندیشیوں کا خیال دامن گیر ہوتا ہے جو فی نفسہٖ اگر چہ عقل و دانائی کا ایک فرشتہ ہے لیکن کبھی کبھی شیطان رجیم بھی اس کے بھیس میں آکر کام کرنے لگتا ہے۔ نفس خادِع حیلہ تراشیاں کرتا ہے کہ صرف اپنے تئیں کٹوا دینے اور چند انسانوں کا خون بہا دینے سے کیا حاصل ؟ توپ و تفنگ اور تخت و سلطنت کا مقابلہ کس نے کیا ہے کہ ہم کریں ؟ آخری سوال کا جواب میں دے سکتا ہوں ، تاریخ عالم کی صدہا مثال مقدسہ و محترمہ جہاد قطع نظر تمہارے سامنے خود مظلوم کربلا کی مثال بھی موجود ہے، تم کہتے ہو کہ چند انسانوں نے حکومت کی قوتوں اور ساز و سامان کا مقابلہ کب کیا ہے؟ کہ کبھی بھی کیا جائے۔ میں کہتا ہوں کہ حسین ابن علیؓ نے صرف 62 یا 74 بھوکے پیاسے انسانوں کے ساتھ اس عظیم الشان حکومت قاہر و جابر کا مقابلہ کیا جس کے حدودِ سلطنت ملتان اور سرحد فرانس تک پھیلنے والے تھے۔ اور گو یہ سچ ہے کہ اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے دل کے ٹکڑوں کو بھوک اور پیاس کی شدت سے تڑپتے دیکھا اور پھر ایک ایک کرکے ان میں سے ہر وجود مقدس خاک و خون میں تڑپا اور جاں بحق تسلیم ہوا۔

 اور یہ بھی سچ ہے کہ وہ دشمنوں سے نہ تو پینے کیلئے پانی چھین سکا اور نہ زندہ رہنے کیلئے اپنی غذا حاصل کرسکا۔ اور اس میں بھی شک نہیں کہ بالآخر سر سے لے کر پیر تک وہ زخموں سے چور ہوا اور اس خلعت شہادت لالہ گوں سے آراستہ ہوکر تیار ہوا تاکہ اس کرشمہ ساز عجائب کے حریم وصال میں پہنچے جو دوستوں کو خاک و خون میں تڑپاتا اور دشمنوں کو مہلت دیتا ہے، تاہم فتح اس کی تھی اور فیروز مند ی و کامرانی کا تاج صرف اسی کے زخم خوردہ سروں پر رکھا جا چکا تھا، وہ تڑپا اور خاک و خون میں لوٹا، پر اپنے اس خون کے ایک ایک قطرہ سے جو عالم اضطراب میں اس کے زخموں سے ریگ و سنگ پر بہتا تھا، انقلاب و تغیرات کے وہ سیلاب ہائے آتشیں پیدا کر دیئے جن نہ تو مسلم بن عتبہ کی خون آشامی روک سکی نہ حجاج کی بے اماں و خونخواری اور نہ عبدالملک کی تدبیر و سیاست، وہ بڑھتے اور بھڑکتے ہی رہے۔ ظلم و جبر کا پانی تیل بن کر ان کے شعلوں کی پرورش کرتا رہا اور حکومت و تسلط کا غرور، ہوا منکر ان کی ایک ایک چنگاری کو آتش کدہ سوزاں بناتا رہا، یہاں تک کہ آخری وقت آگیا اور جو 61ہجری میں کربلا کے اندر ہوا تھا وہ سب کچھ 132ہجری میں نہ صرف دمشق بلکہ تمام عالم اسلام کے اندر ہوا۔ صاحبان تاج و تخت خاک و خون ان کی لاشوں کے بموں سے پامال کی گئیں ۔ فتح مندوں کی قبریں تک اکھاڑ ڈالیں اور مردوں کی ہڈیوں تک کو ذلت و حقارت سے محفوظ نہ چھوڑا ، پھر کیا یہ سب کچھ جو ہوا وہ محض ابراہیم عباسی کی دعوت اور ابو مسلم خراسانی کی خفیہ ریشہ دوانیوں ہی کا نتیجہ تھا؟ کیا اس خون کا اعجاز نہ تھا جو فرات کے کنارے بہایا گیا تھا پھر یہ فتح مندی، بجسب ظاہر جس کے نتائج کیلئے ایک صدی کا انتظار کرنا پڑا، اورفی الحقیقت مظلومیت کا خون جس وقت بہتا ہے اسی وقت اپنی معنوی فتح مندی حاصل کرلیتا ہے۔

(3 بہر حال یہ تو حق و صداقت کی قربانیوں کے نتائج ہیں جو کبھی ظاہر ہوئے بغیر نہیں رہتے، لیکن حضرت سید الشہداءؓ کا یہ اسوۂ حسنہ بتلاتا ہے کہ تم ان نتائج کی ذرا بھی پروا نہ کرو اگر ظلم اور جابرانہ حکومت کا وجود ہے تو اس کیلئے حق کی قربانی ناگزیر ہے اور اسے ہونا ہی چاہئے، تعداد کی قلت و کثرت یا سامان و وسائل کا فقدان اس پر موثر نہیں ہوسکتا۔ اور ظلم کا صاحب شوکت و عظمت ہونا اس کیلئے کوئی الٰہی سند نہیں ہے کہ اس کی اطاعت کرہی لی جائے۔ ظالم خواہ ضعیف ہو، خواہ قوی ہر حال میں اس کا مقابلہ کرنا چاہئے کیونکہ وہ ظلم ہے اور حق و صداقت ہر حال میں یکساں اور غیر متزلزل ہے۔

 (4 حق و صداقت کی رفاقت کی آزمائش زہرہ گداز اور شکیب ریا ہیں ۔ قدم قدم پر حفظ جان و ناموس اور محبت فرزند و عیال کے کنٹے دامن کھینچتے ہیں لیکن یہ اسوۂ حسنہ مومنین و مخلصین کو درس دیتا ہے کہ اس راہ میں قدم رکھنے سے پہلے اپنی طلب و ہمت کو اچھی طرح آزمالیں ۔ ایسا نہ ہو کہ چند قدموں کے بعد ہی ٹھوکر لگے۔ خوف و ہراس، بھوک اور پیاس، نقصان اموال و متاع، قتل نفس و اولاد یہی چیزیں انسان کیلئے اس دنیا میں انتہائی مصیبتیں ہوسکتی ہیں ، اس لئے انہی چیزوں کو راہ الٰہی کیلئے آزمائش قرار دیا گیا لیکن مظلوم کربلا کے سامنے یہ تمام مرحلے ایک ایک کرکے موجود تھے، وہ ان تمام مصائب سے ایک لمحہ کے اندر نجات پاکر آرام و راحت اور شوکت و عظمت حاصل کرسکتا تھا۔ اگر حکومت ظالم کی وفاداری و اطاعت کا عہد کرلیتا اور حق و صداقت سے رو گردانی کیلئے مصلحت وقت کی تاویل پر عمل کرتا، پس اس نے خدا کی مرضی کو اپنے نفس کی مرضی پر ترجیح دی اور حق کا عشق زندگی کی محبتوں پر غالب آگیا۔ اس نے اپنا سر دے دیا کہ انسان کے پاس حق کیلئے یہی ایک آخری متاع ہے۔ پر اطاعت و اقرار وفاداری کا ہاتھ نہ دیا کہ جو صرف حق و صداقت ہی کیلئے آگے بڑھ سکتا تھا۔

(5 سب سے بڑا اسوۂ حسنہ کہ اس حادثہ عظیم کی زبان حال اس کی ترجمانی کرتی ہے۔ راہ مصائب و جہاد حق میں صبر و استقامت اور عزم و ثبات ہے۔ فی الحقیقت اس شہادتِ عظیم کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اپنے تمام عزیز و اقارب، اہل و عیال اور فرزند و احباب کے ساتھ دشت غربت و مصائب میں محصور اعدا ہونا، اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے جگر گوشوں کو شدتِ عطش و جوع سے۔ آہ و فغاں کرتے ہوئے دیکھا، پھر ان میں سے ایک ایک کی خون آلود لاش کو اپنے ہاتھ سے اٹھانا، حتیٰ کہ اپنے طفل شیر خوار کو بھی تیر ظلم و بربریت سے نخچیر پاتا، مگر بایں ہمہ راہِ عشق و صداقت میں جو پیمان صبر و استقامت رکھا تھا اس کا ایک لمحہ، ایک عشر دقیقہ کیلئے متزلزل نہ ہونا اور حق کی راہ میں جس قدر مصائب و اندوہ پیش آئیں سب کو صبر و تحمل کے ساتھ برداشت کرنا۔ دوست کے ہاتھ سے جام زہر بھی ملتا ہے تو تشنہ لبی پر ترجیح دیتے ہیں ۔ آج اگر گوش حقیقت نیوز باز ہو تو خاک کربلا کا ایک ایک ذرہ توصیہ فرمائے صبر و استقامت ہے۔

تبصرے بند ہیں۔