شیخ احمد سر ہندیؒ کے تجدیدی کارنامے 

علماءِ عصرِ جدید کی نظر میں

شیخ احمد بن عبد الاحد زین العابدین فاروقی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ (971۔ 1034ھ مطابق 1564۔1634ء) مجدد الف ثانی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ یہ در اصل ان کا خطاب ہے جو اتنا مشہور ہوگیا کہ اصل نام تاریخ و تذکرہ کی کتابوں میں بہت ڈھونڈنے کے بعد ملتا ہے ۔
حضرت شیخ سرہندیؒ کو یہ خطاب عہدِاکبری وعالم گیری میں ان کے انقلابی و تجدیدی کارناموں کی وجہ سے حاصل ہوا ۔ اس خطاب کے پسِ منظر میں سنن ابی داؤد کی ایک مشہور روایت ہے جس میں رسول اکرم ﷺ نے یہ پیشین گوئی فرمائی ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ اس امت کے لیے ہر سوسال کے سرے پر ایسے بندے پیدا کرے گا جو اس کے لیے اس دین کو نیا اور تازہ کرتے رہیں گے ‘‘ 1؂ سنتِ الٰہی کے مطابق ہر زمانہ اور صدی میں مصلحین و مجددین پیدا ہوتے رہے اور دین کو نیا اور تازہ کرتے رہے ہیں، مگر اسلام کی تقریباً چودہ سوسال کی تاریخ میں یہ خطاب صرف حضرت شیخ احمد سرہندیؒ کو حاصل ہوا اور خطاب کے لاحقہ الف ثانی کا یہ مطلب سمجھا جاتا ہے کہ یہ پورے دوسرے ہزاریہ کے لیے مجدد بنائے گئے ۔
شیخ سرہندیؒ کی ذات اور کارنامے اتنے عظیم ہیں کہ ہر دور کے علماء و محققین انہیں موضوعِ بحث بناتے رہے ہیں۔ عصرِ جدید کے متعدد جلیل القدر علماء کرام نے بھی ان کے افکار و خیالات اور تجدیدی کارناموں کا گہرا مطالعہ کیا اور انھیں زبردست خراجِعقیدت پیش کیا ہے ۔ ان میں مولانا ابوالکلام آزادؒ ، مولاناسید ابو الاعلیٰ مودودیؒ ، علامہ اقبالؒ ، مولانا منظور نعمانیؒ ، مولانا محمد عبد الشکورفاروقیؒ ، مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ اور ڈاکٹر محمد عبد الحق انصاری خصوصاً قابلِ ذکر ہیں۔ پیشِ نظر مقالہ میں انہی علماء و محققین کی تحقیقات و نگارشات کے حوالہ سے حضرت شیخ سرہندیؒ کے مقام و مرتبہ کا تعین اور اس مقامِ بلند تک پہنچنے کے اسباب معلوم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
معاصر محقق ڈاکٹر محمد عبد الحق انصاری نے حضرت شیخ کے ایک مکتوب کے حوالہ سے اس حقیقت کو آشکارکیا ہے کہ ’’ حضرت خود کو ایک ولی سے بڑھ کر ایک مجدد سمجھتے تھے جو الف ثانی میں کار تجدید کے لیے اٹھائے گئے ہیں‘‘ ۔2؂
مولانا محمد عبد الشکور فاروقیؒ کو اس دعویٰ پر مکمل شرحِ صدر ہے ، چناں چہ وہ لکھتے ہیں: ’’ حضرت کا مجدد الف ہونا بھی ایک بڑی چیز ہے ، آپ سے پہلے صدی کے مجدد ہوا کرتے تھے ، الف کا مجدد کوئی نہیں ہوا۔ الف ثانی کا آغاز ہی نہ ہوا تھا اور الف اول میں خود ذات اقدس و اطہر سید البشر ﷺ کی موجود تھی۔ آپ سے پہلے جس قدر مجددصدیوں کے گزرے ہیں گوئی مجدد دین کے تمام شعبوں کا مجددنہیں ہوا، بلکہ خاص شعبوں کے مجدد ہوتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ایک وقت میں متعدد مجدد نظر آتے ہیں۔ کوئی علمِ حدیث کا، کوئی فقہ کا ، پھر اس میں بھی کوئی فقہ حنفی کا مجدد ہے ، کوئی فقہ شافعی کا ، کوئی علم کلام کا مجدد ہے اور کوئی سلوک و احسان کا ، لیکن یہ چیز اللہ تعالیٰ نے آپ ہی کے لیے مخصوص رکھی کہ آپ دین کے تمام شعبوں کے مجدد ہیں، جس کا ماحصل یہ ہے کہ آپ سے پہلے کے مجدّدین کو سید الانبیاء ﷺ کی نیابت خاص خاص چیزوں میں حاصل تھی اور آپ کو تمام چیزوں میں نیابت تامہ حاصل ہے ۔ آپ سے پہلے کے مجددوں کی خدمات کا ا ثر صرف ایک صدی کے لیے ہوتا تھا اور آپ کی مجددیت ایک ہزار سال کے لیے ہے ‘‘۔ 3؂
مولانا ابو الکلام آزادؒ بھی شیخ سے بے حد متاثر ہیں۔ وہ ان کے تجدیدی کارناموں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ شہنشاہِ اکبر کے عہد کے اختتام اور عہدِ جہاں گیری کے اوائل میں کیا ہندوستان علماء و مشائخِ حق سے بالکل خالی ہوگیا تھا! کیسے کیسے اکابر موجود تھے ، لیکن مفاسد وقت کی اصلاح و تجدید کا معاملہ کسی سے بھی بن نہ آیا، صرف مجددِ الف ثانی شیخ سرہندیؒ کا وجودِ گرامی ہی تنِ تنہا اس کا روبار کا کفیل ہوا‘‘۔ 4؂
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے اس سے بھی زیادہ بلند آہنگ میں ان کے تجدیدی کارناموں کو سراہا ہے ۔ تحریر فرماتے ہیں:’’ ہندوستان کے مختلف گوشوں میں اس وقت بھی بہت سے حق پرست علماء اور سچے صوفیاء موجود تھے ، مگر ان کے درمیان وہ ایک اکیلا شخص تھا جو وقت کے ان فتنوں کی اصلاح اور شریعتِ محمدی کی حمایت کے لیے اٹھا اور جس نے شاہی قوت کے مقابلہ میں یکہ و تنہا احیاء دین کی جدو جہد کی ‘‘ ۔ 5؂
مولانا محمد منظور نعمانیؒ نے نسبتاً محتاط الفاظ میں یہی باتیں اس طرح کہی ہیں: ’’امام ربانی شیخ احمد سرہندیؒ سے دین کی تجدید و حفاظت اور احیاء شریعت کا جوعظیم کام ہمارے اس ملک میں لیا وہ بھی اسلام کی پوری تاریخ میں ایک خاص امتیازی شان رکھتا ہے اور اسی وجہ سے ان کا لقب مجدد الف ثانی ایسا مشہور ہوگیا ہے کہ بہت سے لوگ ان کا نام بھی نہیں جانتے ، صرف مجدد الف ثانی کے معروف لقب ہی سے ان کو پہچانتے ہیں‘‘۔ 6؂

کارِ تجدید کیا ہے ؟
حضرت شیخ سرہندیؒ کے تجدیدی کارناموں کی تفصیلات بے شمار مقامات پر ملتی ہیں۔ مگر خود کارِ تجدید کیا ہے اور تجدیدی کارناموں کے پرکھنے کامعیار کیا ہے ؟ اس موضوع پر ماخذ بالعموم خاموش ہیں۔ مولانامنظور نعمانیؒ نے اس سلسلے میں مختصراً اور مولانا ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے بہت شرح و بسط کے ساتھ اظہارِ خیال کیاہے۔ مولانا نے اپنی کتاب ’’ تجدیدو احیاء دین ‘‘ میں خاص طور سے اسی عقدہ کو حل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ کارِ تجدید کی تعریف وہ اس طرح بیان کرتے ہیں:’’ در اصل تجدید کا کام یہ ہے کہ اسلامکو جاہلیت کے تمام اجزاء سے چھانٹ کر الگ کیا جائے ، کسی نہ کسی حد تک اس کو اپنی خالص صورت میں پھر سے فروغ دینے کی کوشش کی جائے ‘‘ ۔ 7؂
تجدیدی کارناموں اور مجدّد کے معیار کو پرکھنے کے لیے انھوں نے کچھ اصول او رمیدانِ کار متعین کیے ہیں اور انھیں بہت تفصیل سے بیان کیا ہے ۔ وہ یہ ہیں:
1۔ اپنے ماحول کی تشخیص: یعنی حالات کا پورا جائزہ لے کر یہ سمجھنا کہ جاہلیت کہاں کہاں کس حد تک سرایت کر گئی ہے ؟ کن کن راستوں سے آئی ہے ؟ اس کی جڑیں کہاں کہاں اور کتنی پھیلی ہوئی ہیں؟اور اسلام اس وقت ٹھیک کس حالت میں ہے ؟
2۔ اصلاح کی تجویزیں: یعنی یہ تعین کرنا کہ اس وقت کہاں ضرب لگائی جائے کہ جاہلیت کی گرفت ٹوٹے اور اسلام کو پھر اجتماعی زندگی پر گرفت کا موقع ملے؟
3۔ خود اپنے حدود کاتعین: یعنی اپنے کو تول کر صحیح اندازہ لگانا کہ میں کتنی قوت رکھتا ہوں اور کس راستے سے اصلاح کرنے پر قادر ہوں؟
4۔ ذہنی انقلاب کی کوشش: یعنی لوگوں کے خیالات کو بدلنا، عقائد و افکار اور اخلاقی نقطۂ نظر کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنا ، نظامِ تعلیم و تربیت کی اصلاح اور علومِ اسلامی کااحیاء کرنا اور فی الجملہ اسلامی ذہنیت کواز سرِ نو تازہ کردینا۔
5۔ علمی اصلا ح کی کوشش: یعنی جاہلی رسوم کو مٹانا، اخلاق کاتزکیہ کرنا ، اتباعِ شریعت کے جوش سے پھر لوگوں کو سرشار کردینا اور ایسے افراد تیار کرنا جو اسلامی طرز کے لیڈر بن سکیں۔
6۔ اجتہاد فی الدین: یعنی دین کے اصولِ کلّیہ کو سمجھنا، اپنے وقت کے تمدّنی حالات اور ارتقاء تمدن کی سمت کا اسلامی نقطۂ نظر سے صحیح اندازہ لگانا اور یہ تعیّن کرنا کہ اصولِ شرع کے ماتحت تمدن کے پرانے متوارث نقشے میں کس طرح ردّوبدل کیاجائے جس سے شریعت کی روح برقرار ہے ۔ اس کے مقاصد پورے ہوں اور تمدن کے صحیح ارتقاء میں اسلام دنیا کی امامت کرسکے؟
7۔ دفاعی جدّو جہد: یعنی اسلام کو مٹانے اور دبانے والی سیاسی طاقت کا مقابلہ کرنا اور اس کے زور کو توڑ کر اسلام کے ابھر نے کا راستہ پیدا کرنا۔
8۔ احیاء نظام اسلامی: یعنی جاہلیت کے ہاتھ سے اقتدار کی کنجی چھین لینا اور از سرِ نو حکومت کو عملاً اس نظام پر قائم کردینا جسے صاحبِ شریعت علیہ السلام نے خلافت علی منہاج النبوۃ کے نام سے موسوم کیا ہے ۔
9۔ عالم گیر انقلاب کی کوشش : یعنی صرف ایک ملک یا ان ممالک میں جہاں مسلمان پہلے سے موجود ہوں ، اسلامی نظام کے قیام پر اکتفا نہ کرنا، بلکہ ایک ایسی طاقت اور عالمی تحریک برپاکرنا جس سے اسلام کی اصلاحی و انقلابی دعوت عام انسانوں میں پھیل جائے، وہی تمام دنیا کی غالب تہذیب بنے، ساری دنیا کے نظامِ تمدن میں اسلامی طرز کا انقلاب برپاہو اور عالمِ انسانی کی اخلاقی ، فکری اور سیاسی امامت و ریاست اسلام کے ہاتھ میں آجائے ۔
ان شعبوں پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی تین مدات تو ایسی ہیں جو ہر اس شخص کے لیے ناگزیر ہیں جو تجدید کی خدمت انجام دے ۔ لیکن باقی چھ مدیں ایسی ہیں جن کا جامع ہونا مجدد کے لیے شرط نہیں ہے ۔ بلکہ جس نے ایک، دو ، تین یا چار شعبوں میں کوئی نمایاں کارنامہ انجام دیا وہ بھی مجدد قرار دیا جاسکتا ہے ۔ البتہ اس قسم کا مجدد جزوی ہوگا، کامل مجدد نہ ہوگا۔ کامل مجدد صرف وہ شخص ہوسکتا ہے جو ان تمام شعبوں میں پورا کام انجام دے کر وراثت کا حق اداکرے۔ 8؂

شیخ سرہندی کے تجدیدی کارنامے
ان علماء و محققین نے شیخ کی خدمات جلیلہ کو صرف خراج عقیدت ہی نہیں پیش کیا ہے، بلکہ ان کا گہرائی سے تجزیہ بھی کیا ہے ۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے شیخ کی تجدیدی خدمات کو تین خانوں میں تقیم کیا ہے :
’’1۔ انھوں نے ہندوستان میں حکومت کو بالکل ہی کفر کی گود میں جانے سے روکا اور اس فتنۂ عظیم کے سیلاب کا منہ پھیرا جو اب سے تین چار سو برس پہلے ہی اسلام کانام و نشان مٹادیتا۔
2۔ تصوف کے چشمۂ صافی کو ان آلائشوں سے،جو فلسفیانہ اور راہبانہ گم راہیوں کے سبب اس میں سرایت کر گئی تھی، پاک کرکے اسلام کا اصلی اور صحیح تصوف پیش کیا ۔
3۔ ان تمام رسومِ جاہلیت کی شدید مخالفت کی جو اس وقت عوام میں پھیلی ہوئی تھیں اور سلسلۂ بیعت و ارشاد کے ذریعہ سے اتباعِ شریعت کی ایک ایسی تحریک پھیلائی جس کے ہزار ہا تربیت یافتہ کارکنوں نے نہ صرف ہندوستان کے مختلف گوشوں میں، بلکہ وسط ایشیا تک پہنچ کر عوام کے اخلاق و عقائد کی اصلاح کی کوشش کی ‘‘۔ 9؂
مولانا محمد منظور نعمانیؒ نے بھی شیخ سرہندی کے تجدیدی جہاد کے تین میدان متعین کیے ہیں۔ لکھتے ہیں:’’ حضرت مجدد علیہ الرحمہ نے سب سے پہلے ان فتنوں کے سرچشموں کو دریافت کیا تو دیکھا کہ اصولی طور پر صرف تین راستے ہیں جن سے گم راہیوں اور تباہیوں کے یہ سیلاب آرہے ہیں۔ ایک اربابِ حکومت، جن کوحالات و اتفاقات کی ایک خالص رفتار اور سیاسی مفاد کے ایک غلط تصور اور غلط توقعات نے ’’اسلامیات‘‘ سے بے گانہ اور لامذہبیت بلکہ ہندویت سے آشنا بنادیا۔ دوسرے وہ علماء سوء جن کا مطمحِ نظر صرف اچھی طرح دنیا کمانا، اربابِ اقتدار اور امراء وقت کی خوش نودی اور رضا جوئی میں ساعی رہنا اور ان کی خاطر ہر منکر کو معروف بنادینااور اپنی خواہشاتِ نفس کی تکمیل کے لیے اسلام میں گنجائش پیدا کرنا ہے ۔ تیسرے وہ گم راہ اور برخود غلط صوفی، جو شریعت کو ظاہر پرستوں کا کھلونا سمجھتے ہیں اور طریقت و حقیقت کے مقدس ناموں سے انھوں نے اپنی الگ دینا بنارکھی ہے ۔ یہ تھے فتنوں کے تین چشمے ۔ حضرت مجددؒ نے بس انہی کو قابو میں لانے اور ان کا رخ صحیح کرنے کے لیے اپنی پوری حکمت و قوت صرف فرمادی‘‘۔ 10؂
مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے اس بحث کو ایک نئی جہت دی ہے ۔ انھوں نے اپنے پیش رو علماء و محققین کی تحقیقات کا گہرائی سے تجزیہ کیا ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ حضرت کے تجدید کارناموں کا تجزیہ کرنے والوں نے ان کے اصل تجدیدی کارنامے کی تعیین میں مختلف رائیں پیش کی ہیں۔ مختصراً انھیں تین خانوں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ ایک گروہ کہتا ہے کہ وہ اس لیے مجدد الف ثانی کہلانے کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ہندوستان کو اسلام کے لیے دوبارہ بازیاب کیا اور اس کو بر ہمنیت یا وحدتِ ادیان کی گود میں جانے سے بچاکر دوبارہ محمد عربی ﷺ اور دینِ حجازی کی تولیت و نگرانی میں دیا ۔
دوسرے گروہ کے نزدیک ان کا اصلی تجدیدی کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے طریقت پر شریعت کی فوقیت و بالادستی کو ایسے پُر اعتماد، مبصرانہ و تجربہ کارانہ اور اس قوت و وضاحت کے ساتھ بیان کیا جو اس سے پہلے کسی نے نہیں کیاتھا اور اس سے طریقت کا شریعت کے تابع بلکہ خادم ہونا روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگیا۔
تیسرا گروہ وہ ہے جوان کااصل تجدیدی کارنامہ یہ سمجھتا ہے کہ انھوں نے وحدۃالوجود کے عقیدہ و نظریہ پر وہ کاری ضرب لگائی جو اس سے پہلے کسی نے نہیں لگائی تھی اور پھر اس کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روک دیا‘‘۔ 11؂
ان گروہوں کا تجزیہ کرنے کے بعد مولانا ندویؒ نے ان کے تمام تجدیدی کارناموں کا ایک مرکزی نکتہ تلاش کیا ہے اور اسی کے اندر تمام کارناموں کو سمودیا ہے ۔ لکھتے ہیں:
’’ حقیقت میں ان کا اصل کارنامہ جس کے جلو میں ان کے سارے تجدیدی کارنامے چلتے پھر تے نظر آتے ہیں اور ان کی تجدید کا اصل سر چشمہ جس سے ان کے تمام انقلابی و اصلاحی کاموں کے چشمے پھوٹتے ہیں اور دریابن کر سارے عالم اسلام میں رواں دواں ہوجاتے ہیں،وہ نبوتِ محمدی اور اس کی ابدیت و ضرورت پر امت کا اعتماد بحال کرنے اور مستحکم کرنے کا وہ تجدیدی و انقلابی کارنامہ ہے جو ان سے پہلے اس تفصیل و وضاحت و قوت کے ساتھ ہمارے علم میں کسی مجدد نے انجام نہیں دیا۔
اس تجدیدی اقدام سے ان تمام فتنوں کا سدِّ باب ہوتا ہے جو اس وقت عالمِاسلام میں منہ پھیلائے ہوئے اسلام کے شجرۂ طیبہ اور اس کے پورے اعتقادی، فکری اور روحانی نظام کو نگل لینے کے لیے تیار تھے۔ ان میں ایران کی وہ نقطوی تحریک اور اس کے پیرو بھی شامل ہیں جنھوں نے نبوتِ محمدی اور اس کے بقا و دوام کے خلاف کھلے طریقہ پر عَلَمِ بغاوت بلند کیا تھا۔ ان فتنوں میں اکبر کا دینِ الٰہی اور آئینِ جدید بھی شامل ہے جو ہندوستان میں نبوت و شریعتِ محمدی کی جگہ لینے اور اس کا بدل بننے کا مدّعی تھا۔ اس سلسلے میں وحدۃ الوجود کا فلسفہ بھی آتا ہے جو اپنے داعیوں اور علم برداروں کے بقول کشفی حقائق پر مبنی تھا۔ اسی ضمن میں فرقۂ امامیہ کا گروہ بھی آتا ہے جس کے اساسی عقائد میں امامت کا عقیدہ بھی ہے۔
اسی طرح انھوں نے نبوتِ محمدی پر ایمان و اعتماد کی تجدید کی شاہ کلید سے وہ سارے بھاری پیچیدہ قفل کھول دیے جویونانی اور ایرانی فلسفہ اور مصری و ہندوستانی اشراقیت نے ایجاد کیے تھے۔ ایک تیر سے ان سب فتنوں کا شکار کیا جن کا مسلمانوں کا ذہین طبقہ نشانہ بنا ہوا تھا‘‘۔ 12؂

طریقۂ تجدید
ہر مجدد نے اپنے عہد کے حالات اور ضروریات کے لحاظ سے اپنا الگ طریقۂ کار متعین کیا اور کارہائے تجدید و انقلاب انجام دیے ۔ حضرت شیخ سرہندیؒ نے بادشاہِ وقت، امراء پُر جلال ، بڑے بڑے علماء و صوفیا کے ذہن و فکر کا رخ موڑ دیا اور اس کے لیے نہ کوئی تنظیم بنائی، نہ جہاد کا اعلان کیا ، نہ ہی کوئی عوامی مہم چلائی ، بلکہ نہایت خاموشی کے ساتھ ایمان و اخلاص کے بل بوتے پر مومنانہ حکمت و فراست سے مختلف محاذوں پر انقلابی تدابیر کر تے رہے اور مختصر عرصہ میں کایا پلٹ دی ۔
حضرت مجددؒ کی جدّو جہد تین مختلف محاذوں پر تین مختلف طریقوں سے جاری تھی۔
1۔ خطوط نویسی 2۔ تصنیف و تالیف 3۔ حلقۂ ارشادو تربیت
1۔ خطوط نویسی
اس عظیم انقلابی مہم کو سرکرنے کے لیے حضرت مجددؒ نے جو سب سے اہم وسیلہ اختیار کیا وہ خطوط نویسی ہے ۔ انھوں نے امراء و اراکینِ سلطنت ، علما و صوفیا اور اپنے ارادت مندان کو انفرادی خطوط کے ذریعہ توجہ دلائی اور بقول مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ ’’ صفحۂ قرطاس پر اپنے دل کے ٹکڑے اتار کر رکھ دیے ‘‘ یہ خطوط اپنے درد و اخلاص،جوش و تاثیر ، زورِ قلم اور قوتِ انشاء کے لحاظ سے ان خطوط و مکاتب کے ذخیرے میں جو دنیا کی کسی زبان میں اور کسی دینی و اصلاحی تحریک کی تاریخ میں سپرد قلم کیے گئے ہیں، خاص امتیاز رکھتے ہیں اور سیکڑوں برس گزرجانے کے بعد آج بھی ان میں اثرو دل آویزی پائی جاتی ہے ۔ حقیقت میں یہی خطوط مجدّد صاحب کی دعوت و تبلیغ کے قاصد، ان کے زخمی دل کے صحیح ترجمان، ان کے قطراتِ اشک اور لخت ہائے جگرہیں اور دسویں صدی میں ہندوستان کی عظیم سلطنتِ مغلیہ میں جو عظیم انقلاب رونما ہوا، اس میں ان کا بنیادی حصہ اور سب سے بڑا دخل ہے ‘‘۔ 13؂
ان بابرکت خطوط نے بہت کم عرصہ میں بڑے بڑے امراء اور صوفیا کے قلوب کو مسخر کرلیا جو شاید ہزاروں تلواریں ٹوٹنے کے بعد بھی رام نہ ہوتے ۔
2۔ علمی و تحقیقی رسائل 
حضرت شیخ سرہندیؒ نے مختلف اہم موضوعات پر کتابیں اور رسالے بھی تصنیف فرمائے جو ان کی اس تجدیدی مہم میں نسخۂ کیمیا ثابت ہوئے ۔ ان کی یہ تحریریں بے حد مقبول ہوئیں اور ان کی سیکڑوں نقلیں تیار کی گئیں۔ پریس آجانے کے بعد ان کتابوں کے متعدد زبانوں میں ترجمے ہوئے اورشروح و حواشی لکھے گئے ۔
ان کتابوں اور رسائل نے بھی ان کی انقلابی کاوشوں میں چار چاند لگائے ، خاص طور سے رسالہ اثبات النبوۃ 14؂، رسالہ در ردِّ روافض 15؂ اور المبداء والمعاد 16؂ نے شیخ کی آراء کو مدلّل کرنے اور مخاطب کو قائل کرنے میں بہت اہم کردارادا کیا ہے ۔ 17؂
3۔ شاگردان و عقیدت مند ان اور خلفاء کبار
انفرادی خطوط و رسائل ایک طرف بڑے بڑے سلاطین ، امراء اور علماء کیقلوب فتح کرتے رہے تو دوسری طرف شاگردان و ارادت مندان بھی جوق در جوق آپ کے حلقہ میں شامل ہوکر اس کارِ خیر کو آگے بڑھانا چاہتے تھے۔ چناں چہ ان کی اس خاموش جدّو جہد میں دنیا کے مختلف علاقوں کے ہزاروں افراد نے آپ سے تربیت لی اور ان کے ذریعے اس مشن کو آگے بڑھایا۔ ان کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کے بقول ’’ ان کے ناموں اور کارناموں کا استقصاء دشوار ہی نہیں ، تقریباً ناممکن ہے۔ ان کی تعداد کئی ہزار بتائی جاتی ہے اور وہ تمام دنیا میں منتشر اور سرگرمِ عمل رہے ‘‘۔ 18؂ تاہم اس بات پر تمام مورخین و محققین متفق ہیں کہ حضرت شیخ سرہندیؒ کے کارنامے ان ہی خلفاء و اصحاب کی کاوشوں کی وجہ سے ساری دنیا میں پھیلے اور دیر پا ثابت ہوسکے ۔
کارِ تجدید کی تعریف اور حضرت شیخ سرہندی کے تجدیدی کارناموں کا تذکرہ اوپر تفصیل سے آیا ہے ۔ اگر مولانا مودودیؒ کے مقرر کردہ معیار کو کسوٹی مان لیا جائے اور اس پر حضرت شیخ احمد سرہندی کے ان تجدیدی و انقلابی کارناموں کو پرکھا جائے تو ان کی خدمات کی تمام تر عظمتوں کے اعتراف کے باوجود ان کے سلسلے میں علماء کا یہ خیال مبالغہ آمیز معلوم ہوتا ہے کہ وہ مجددِ کامل تھے، انھیں آنحضور ﷺ کی نیابتِ تامہ حاصل تھی، وہ پورے دوسرے ہزاریہ کے لیے مجدد بنائے گئے تھے ۔ الحمد للہ اسلام کی روشن تاریخ کے ہر دور میں ایسی متعدد جلیل القدر ہستیاں وجود میں آتی رہی ہیں جنھوں نے اپنے دور کے حالات و ضروریات کے لحاظ سے اس سے بھی زیادہ عظیم کارنامے انجام دیے ہیں۔ امام ابن تیمیہؒ ، امام غزالیؒ اور شاہ ولی اللہ دہلویؒ وغیرہ نے بھی بے شمار انقلابی و تجدیدی کارنامے انجام دیے ، مگر انھیں مجدّدِ کامل تو دور کی بات ، مجدّد کا بھی خطاب حاصل نہ ہوسکا۔ اس طرح کے مبالغہ آمیز خیالات سے یہ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ دعوت و تبلیغ اور کارِ تجدید کے لیے جو کاوشیں حضرت شیخ سرہندیؒ کے ذریعہ ہوئیں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئیں اور ان کے اثرات ایک ہزار برس تک رہیں گے، اس لیے مزید کدو کاوش کی ضرورت نہیں۔ حضرت شیخ سرہندیؒ کی خدمات ہی عالمِ اسلام پر بیسویں صدی ہجری تک اثر پذیر ہوں گی۔
اسی طرح مولانا فاروقی ؒ ، مولانا آزادؒ ،علامہ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ وغیرہ کے یہ بیانات بھی تحقیق طلب ہیں کہ ’’ان کے تمام معاصر علماء و صوفیاء ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے 19؂ اور حضرت شیخ سرہندیؒ نے یکہ و تنہا الحاد اکبری کا قلع قمع کیا ، وہ ہند میں سرمایہ ملت کے اکیلے نگہبان تھے‘‘ ۔ ان کے معاصرین میں متعدد جلیل القدر علماء و محدثین موجود تھے جو انہی کی طرح اصلاح و تجدید کے مشن میں لگے ہوئے تھے اوران کے بعد بھی متعدد جلیل القدر ہستیاں وجود میں آئیں۔ اس طرح کے بیانات سے ممدوح کی اہمیت تو کچھ ضرور بڑھ جاتی ہے، مگر ساتھ ہی معاصرین کے کارناموں کی تنقیص لازم آتی ہے۔ اسی لیے شیخ محمد اکرام نے ایسے عقیدت مندوں کو سخت تنبیہ کی ہے اور معاصرین کے کارناموں کو اجاگر کیا ہے اور ان کی قدر پہچاننے کی تلقین کی ہے۔ 20؂

حواشی و مراجع 
1؂ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: ان اللہ یبعث لہذہ الأ مۃ علی رأس کل ماءۃ
سنۃ من یجدّد لہا دینہا۔ سنن أبی داؤد ، کتاب الملاحم ، باب مایذکر فی قرن الماءۃ
2؂ محمد عبد الحق انصاری، تصوف اور شریعت ، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی ، 2001ء ص 39
3؂ محمد منظور نعمانی، تذکرہ مجدد الف ثانی ، مقالہ مولانا محمد عبد الشکور فاروقی بعنوان
’’امام ربانی ‘‘ ناشر الفرقان بک ڈپو لکھنؤ ، طبع ہشتم ، 1998ء ص 282
4؂ مولانا ابو الکلام آزاد، تذکرہ (مرتبہ فضل الدین احمد مرزا) انارکلی کتابیات، لاہور ،
بدون تاریخ، ص 264
5؂ سید ابو الاعلیٰ مودودی، تجدید و احیاء دین ، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی 2002ء ، ص 81
6؂ تذکرہ مجدد الف ثانی ، ص 23
7؂ تجدید واحیاء دین، ص 43
8؂ حوالہ مذکور ، ص 45۔46
9؂ حوالہ مذکور، ص 81۔82
10؂ تذکرہ مجدد الف ثانی ، ص 143
11؂ سید ابو الحسن علی ندوی، تاریخ دعوت و عزیمت ، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکھنؤ ،
بار اول 1980ء ، 4/187۔188
12؂ حوالہ مذکور ،4/190۔192( ملخّصاً)
13؂ حوالہ مذکور، 4/ 303
14؂ شیخ احمد سرہندی، اثباۃ النبوۃ ، اردو ترجمہ غلام مصطفی خاں، ادارۂ مجددیہ کراچی ، 1963ء
15؂ شیخ احمد سرہندی ، رسالہ در ردِّ روافض ، ادارۂ سیدیہ مجددیہ ، لاہور ،1964ء
16؂ شیخ احمد سرہندی ، المبدأ والمعاد، مطبع انصاری، دہلی ، 1889ء
17؂ شیخ سرہندی کی تصانیف ، خطوط اور ان کے بارے میں مختلف زبانوں میں جو کچھ
لکھا گیا ہے اس کی تفصیلات جاننے کے لیے رجوع کیجیے :
A selected Bibliography on Shaikh Ahmad Sirhindi, Kabir Ahamad Khan, Muslim world book Review, U.K. Vol. 12, No, 2. winter 1992,pp65-70
18؂ تاریخ دعوت و عزیمت ، 4/ 355
19؂ تجدید و احیاء دین ، ص 46
20؂ رود کوثر ، ص 238

تبصرے بند ہیں۔