قرآن کا پیغام والدین کے نام – اولاد کو فتنوں سے بچائیے قسط (11)

وَ لَمَّا تَوَجَّہَ تِلْقَآءَ مَدْیَنَ قَالَ عَسیٰ اَنْ یَّھْدِیَنِیْ سَوَآءَ السَّبِیْلِ. وَلَمَّا وَرَدَ مَآءَ مَدْیَنَ وَجَدَ عَلَیْہِ اُمَّۃً مِّنَ النَّاسِ یَسْقُوْنَ وَ وَجَدَ مِنْ دُوْنِھِمُ امْرَاَتَیْنِ تَذُوْدٰنِ قَالَ مَا خَطْبُکُمَا قَالَتَا لَا نَسْقِیْ حَتّٰی یُصْدِرَ الرِّعَآءُ وَ اَبُوْنَا شَیْخٌ کَبِیْرُ. فَسَقٰی لَھُمَا ثُمَّ تَوَلّٰی اِلَی الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ اِنِّیْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ. فَجَآءَ تْہٗ اِحْدٰھُمَا تَمْشِیْ عَلَی اسْتِحْیَآءٍ قَالَتْ اِنَّ اَبِیْ یَدْعُوْکَ لَیَجْزِیَکَ اَجْرَمَا سَقَیْتَ لَنَا فَلَمَّا جَآءَ ہٗ وَ قَصَّ عَلَیْہِ الْقَصَصَ قَالَ لَا تَخَفْ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ. قَالَتْ اِحْدٰھُمَا یٰٓاَ بَتِ اسْتَاْجِرْہُ اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ. قَالَ اِنِّیْٓ اُرِیْدُ اَنْ اُنْکِحَکَ اِحْدَی ابْنَتَیَّ ھٰتَیْنِ عَلٓیٰ اَنْ تَاْجُرَنِیْ ثَمٰنِیَ حِجَجٍ فَاِنْ اَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِکَ وَ مَآ اُرِیْدُ اَنْ اَشُقَّ عَلَیْکَ سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآءَ اﷲُ مِنَ الصَّلِحِیْنَ (القصص۲۲ – ۲۸)
’’(مصر سے نکل کر) جب موسی علیہ السلام نے مدین کا رخ کیا تو اُس نے کہا ’اُمید ہے کہ میرا رب مجھے ٹھیک راستے پر ڈال دے گا‘ اور جب وہ مدین کے کنوئیں پر پہنچا تو اُس نے دیکھا کہ بہت سے لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے ہیں اور ان سے الگ ایک طرف دو عورتیں اپنے جانوروں کو روک رہی ہیں موسیٰ علیہ السلام نے ان عورتوں سے پوچھا ’تمہیں کیا پریشانی ہے ‘؟ انہوں نے کہا ’ ہم اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلا سکتیں جب تک یہ چرواہے اپنے جانور نہ نکال لے جائیں اور ہمارے والد ایک بہت بوڑھے آدمی ہیں‘ یہ سن کر موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے جانوروں کو پانی پلادیا ، پھر ایک سائے کی جگہ جابیٹھا اور بولا ’پروردگار جو خیر بھی تو مجھ پر نازل کردے میں اس کا محتاج ہوں ‘ (کچھ دیر نہ گزری تھی کہ ) ان دونوں عورتوں میں سے ایک شرم و حیاکے ساتھ چلتی ہوئی اس کے پاس آئی اور کہنے لگی ’میرے والد آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہمارے لئے جانوروں کو جوپانی پلایا ہے اس کا اجر آپ کو دیں ‘موسی ٰ( علیہ السلام) جب اس کے پاس پہنچا اور اپنا سارا قصہ اسے سنایا تو اس نے کہا ’’کچھ خوف نہ کرو، اب تم ظالم لوگوں سے بچ نکلے ہو‘ ان دونوں عورتوں میں سے ایک نے اپنے باپ سے کہا ’ابا جان ، اس شخص کو نوکر رکھ لیجئے ، بہترین آدمی جسے آپ ملازم رکھیں وہی ہوسکتا ہے جو مضبوط اور امانت دار ہو ‘ اس کے باپ نے (موسیٰ علیہ السلام سے ) کہا ’میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح تمہارے ساتھ کردوں بشرطیکہ تم آٹھ سال تک میرے ہاں ملازمت کرو، اور اگر دس سالپورے کردو تو یہ تمہاری مرضی ہے ۔ میں تم پر سختی نہیں کرنا چاہتا۔ تم انشاء اللہ مجھے نیک آدمی پاؤ گے‘‘۔
ان آیات میں موسیٰ علیہ السلام کے مدین کے سفر کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ اس واقعہ سے موسیٰ علیہ السلام کی شخصیت کے بہت سے پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے۔ آپ علیہ السلام کا توکل علی اللہ اور رجوع الی اللہ، آپؑ کا ضعیفوں کی امداد کرنا، آپؑ کا طاقت ور و امانت دار ہونا اور آپؑ کا ہر طرح کے حالات کا صبرو استقامت کے ساتھ مقابلہ کرنا۔وغیرہ
اسی طرح ان آیات سے یہ رہنمائی بھی ملتی ہے کہ اگر ضرورت ہو تو عورتیں گھر سے باہر نکل سکتی ہیں جیسا کہ باپ کے انتہائی بوڑھا ہونے کی وجہ سے دو نوجوان بہنوں کو جانوروں کو پانی پلانے کے لئے نکلنا پڑا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ حیا کا دامن تھامے رہیں جیسا کہ دونوں بہنیں حیا کا پیکر بن کر نکلتی تھیں اور اختلاط مردوزن سے بچنے کی کوشش کرتی تھی چنانچہ اسی لئے وہ سب سے اخیر میں اپنے جانوروں کو پانی پلاتی تھیں۔ ان کی اس خوبی کا اظہار ’عَلَیٰ اِسْتَحَیَاءٍ‘ کے ذریعہ کیا گیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے اس فقرے کی تشریح یوں کی ہے ’’ وہ شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی اپنا منھ گھونگھٹ سے چھپائے ہوئے آئیں ان بے باک عورتوں کی طرح نہیں چلی آئیں جو ہر طرف نکل جاتی اور ہر جگہ جا گھستی ہیں‘‘۔
ان آیات میں والدین کیلئے بھی کچھ خصوصی رہنمائیاں ہیں جن کی وضاحت ضروری ہے کیونکہ آج کل عموماً ان کا پاس و لحاظ نہیں رکھا جاتا۔
(۱) بیٹیوں نے باپ سے موسی ؑ کو بحیثیت خادم و ملازم رکھنے کی درخواست کی تھی لیکن باپ نے انہیں داماد بنانے کا فیصلہ کیا۔ سوال یہ ہے کہ باپ نے ایسا فیصلہ کیوں کیا؟ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں صرف اور صرف ’’فتنہ‘‘ سے بچانے کیلئے ۔ کیونکہ بیٹیاں جوان تھیں، جسے ملازم و خادم کی حیثیت سے رکھنے کی درخواست کی گئی تھی وہ بھی جوان تھا۔ خادم و ملازم چونکہ گھر کا ایک فرد بن جاتا ہے جس سے ہمہ آن میل جول رہتا ہے۔ اس لئے فتنہ کا اندیشہ دامن گیر تھا۔ چنانچہ اس سے بچانے کے لئے سب سے محفوظ شکل یہ تھی کہ انہیں جائزراہ پر ڈال دیا جائے۔ اس لئے انہوں نے نکاح کی پیشکش کی اور دونوں کو رشتہ ازدواج میں منسلک کرکے فتنہ سے بچالیا۔ عملی زندگی میں آج کل بھی اس طرح کے مواقع (مخلوط تعلیم اور مخلوط ملازمت کی شکل میں ) آتے رہتے ہیں۔ کیا ہمارے والدین اتنے حساس ہیں اور اس طرح سے سوچتے ہیں کہ ان کی اولاد فتنہ میں مبتلا نہ ہو اور جہاں تک ممکن ہو سکے فتنہ سے انہیں بچا لیں یا تو انہیں یکجا ہی نہ ہونے دیں یا مجبوراً ہونا پڑے تو تحفظ کی شکلوں کو ملحوظ رکھیں۔
(۲) ان آیات میں والدین کے لئے دوسرا پیغام یہ ہے کہ اولاد کیلئے شادی کے سلسلے میں ’’صالحیت‘‘ دیکھنی چاہئے اگر ’مرد صالح‘ نظر آجائے تو پھر شادی کردینی چاہئے ۔ نسب اور خاندان کے چکر میں پڑنا اور اس کی وجہ سے تاخیر کرنا غلط ہے۔ موسی ؑ بالکل اجنبی تھے ان کے نسب و خاندان کی تلاش نہیں کی گئی بلکہ ’’صالحیت‘‘ نظر آئی اور باپ نے شادی کردی۔ ہماری صورت حال یہ ہے کہ دوسرے معیارات کی تلاش میں تاخیر کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ لڑکے اور لڑکیاں مختلف فتنوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور مختلف سماجی و معاشرتی برائیاں پنپنے لگتی ہیں۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’ جب ایسا رشتہ سامنے آجائے جس کے دین و اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس سے نکاح کردو ورنہ زمین میں بڑا فساد اور فتنہ برپا ہوگا‘‘۔ (ترمذی) اسی طرح دوسرے موقع سے آپﷺ نے فرمایا’’اگر لڑکا بالغ ہو اور اس کا باپ اس کا نکاح نہ کرے اور پھر وہ لڑکا برائی میں مبتلا ہو جائے تو اس کا گناہ باپ پر ہوگا‘‘(بیہقی)
ضمناً یہ رہنمائی بھی ہے کہ والدین کو کوئی ’’صالح‘‘ نظر آئے تو اس کا انتظار نہیں کرنا چاہئے کہ اس کی طرف سے نکاح کی تحریک ہو بلکہ خود اپنی طرف سے پیشکش کردینی چاہئے جیسا کہ دونوں لڑکیوں کے باپ نے خود پیشکش کی۔ عمر بن خطابؓ نے بھی اپنی صاحب زادی حفصہؓ کے بیوہ ہوجانے کے بعد از خود ہی ابو بکرؓ اور عثمانؓ سے ان کے نکاح کی پیشکش کی تھی۔
(۳) والدین کے لئے ان آیات میں تیسرا پیغام یہ ہے کہ معاملات زندگی میں اولاد اگر کچھ مشورہ دے اور وہ معقول ہو تو اسے بخوشی قبول کرلینا چاہئے۔ اسے شان کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے۔ اولاد کو چھوٹا یا ناتجربہ کار سمجھ کر ان کے مشوروں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے جیسا کہ دونوں لڑکیوں نے باپ کو موسیؑ کو بطور خادم و ملازم رکھنے کا مشورہ دیا اور انہوں نے بخوشی اسے قبول فرمایا۔

تبصرے بند ہیں۔