ہماری سب سے اہم ضرورت- (قسط 2)

سچائی، اخلاق عالیہ اور اخلاقی جرأت

تحریر: مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی ؒ ۔۔۔ ترتیب:عبدالعزیز

امانت اوروفا: ہمیں یہاں امانت ،استقامت ، صدق ، معاملہ یاوفاکی فضیلت بیان کرنے کی ضرورت نہیں ۔ کیونکہ یہ صدق کے سادہ ترین مظاہرہیں اورعام طورسے معلوم وشائع ہیں۔البتہ ایک نہایت اہم غلطی کی طرف ناظرین کی توجہ دلاناضروری ہے ، جس کی اصلاح کی نہایت سخت ضرورت ہے ۔اوراس سے میری مراد’’وعدہ خلافی ‘‘ہے ۔یہ مرض ہم میں بری طرح رائج ہے ۔ گویاہماری فطرت کاایک جزء بن گیاہے ۔ یورپ کی قومیں تووعدہ خلافی کومشرقیوں کامخصوص شعارسمجھنے لگی ہیں ۔مدنی اورتجارتی حقوق کی ادائیگی میں ہم جوٹال مٹول کرتے ہیں اس کاتذکرہ توچھوڑدوکہ قانون زبردستی ہمیں ان کی ادائیگی پرمجبورکرتاہے قابل ماتم وہ وعدہ خلافیاں ہیں جواخلاقی حقوق کے سلسلے میں ظاہرہوتی ہیں مثلاًآنے کاوعدہ کرنااورپھرنہ آنا۔ اس قسم کی وعدہ خلافیوں کے مرتکب ہم روزہوتے ہیں اورہمیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی ، حالانکہ یہی معمولی وعدہ خلافیاں علامت ہیں کہ بڑے بڑے معاملات میں وعدہ خلافیاں کرسکتے ہیں۔ ایک شخص جوآنے کاوعدہ کرے لیکن نیت اس کی آنے کی نہ ہووہ ہرقسم کے وعدے توڑسکتاہے ۔ ایسے آدمیوں سے معاملہ کرنے میں بہت زیادہ احتیاط ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے ۔ یہ کس قدراخلاق سے گری ہوئی بات ہے کہ تمہاراکوئی دوست کسی خاص وقت میں کوئی کام کردینے کاحتمی وعدہ کرے اورپھراس علم کے باوجودکہ اس کے انتظارمیں تمہاراہرلمحہ بے چینی سے گزررہاہے ، اسے پورانہ کرے ۔ اگرکسی مجبوری کی بناپروہ ایساکرے توخیرمعاف رکھاجاسکتاہے ۔ اگرچہ اس صورت میں بھی اس پرواجب ہے کہ جس قدرجلدہوسکے اپنی مجبوری سے تمہیں مطلع کردے ۔ لیکن ہم نہ یہ کرتے ہیں اورنہ وہ ۔ وعدے آسانی سے کرلیتے ہیں لیکن ایفاء کی نیت بہت کم رکھتے ہیں اورکسی کے نقصان یاانتظارکی مشقت کی مطلق پراہ نہیں کرتے ۔ ضرورت ہے کہ اس نقص کودورکرنے کے لیے ہم اپنے بچوں کوگھروں میں اورپھرمدرسوں میں اچھی طرح تربیت کریں۔ اگرچہ اس وقت ازخودرفتہ رفتہ ہم سے یہ نقص دورہورہاہے کہ کیوں کہ ہماراواسطہ ان اجانب سے پڑرہاہے جواپنے وعدوں کابہت پاس کرتے ہیں اورجن کے یہاں ایفائے عہدکاخاص اہتمام ہوتاہے ۔ ان کی دیکھادیکھی ہم بھی ایک حدتک اس کے عادہ ہوتے جارہے ہیں۔ حکومت کے محکموں کانظام وقت اورعہدکی پابندی پرمبنی ہے جس کی وجہ سے لوگ کسی قدروقت کی پابندی اوروعدوں کے ایفاء کے عادی ہوگئے ہیں کیونکہ اگروہ ایسانہ کریں تواس کانقصان خودبھگتیں۔
علاوہ بریں متمدن ملکوں کی سیروسیاحت اورمدارس کے ذریعے بھی ہمیں یہ صفت مستقل ہوتی جارہی ہے لیکن ابھی ہم اس کے بہت زیادہ محتاج ہیں۔ ہمیں پابندی عہدکااس طرح عادی ہوجاناچاہئے کہ ہماری فطرت ثانیہ بن جائے۔
احساس وفرائض : یہ صفت بھی ازقبیل وفاہے ۔لیکن چونکہ اس کوہماری زندگی میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے اس لیے خصوصیت کے ساتھ ہم اس کی طرف توجہ کرتے ہیں۔
احساس فرائض سے ہماری مرادیہ ہے کہ انسان بغیرکسی کی تنبیہ اوریاددہانی کے ازخوداپنے فرائض وواجبات کااحساس کرے اورانھیں اداکرے۔ یہ صفت حمیدہ متمدن قوموں میں بالکل عام ہے ۔ بچے جوان اوربوڑھے ہرایک صفت سے آراستہ ہیں۔ افسوس ہے کہ ابھی ہم میں اپنے فرائض کااحساس نہایت کمزورہے حالانکہ یہ نہایت عمدہ اوراعلیٰ خصلت ہے جس کاہمیں ضرورعادی ہوناچاہئے ۔
حقائق پرستی : یہ صفت بھی ازقبیل صدق ہے ۔ ہم لوگوں میں یہ مرض عام ہے کہ ہم ہرکام میں حقائق کونظراندازکردیتے ہیں اورصرف ظواہرکی پرستش کرتے ہیں۔ بناوٹی باتوں سے ہم خوش ہوتے ہیں۔مجاہدملت کوہم پسندکرتے ہیں، اگرچہ باطن ظاہرکے بالکل برعکس ہو۔اگرہم بھی حقائق پراعتمادکرناشروع کردیں۔ ظواہرپرستی ترک کردیں اوراپنے اعمال میں صرف جوہراورحقیقی فوائدکوپیش نظررکھیں توہماری حالت تھوڑے ہی عرصے میں یکسرمنقلب ہوجائے ۔ لیکن ہماراحال تویہ ہے کہ ہم ظاہرسے جلدمتاثرہوجاتے ہیں اورمعمولی باتیں ہمیں جوش وہیجان میں مبتلاکردیتی ہیں۔ حالانکہ اگرہم غوروفکرسے کام لیں توان میں جوش وہیجان پیداکرنے والی کوئی شے نظرنہ آئے۔ ہم اس کااندازہ اپنے سیاسی واجتماعی حالات بلکہ روزمرہ کے کاموں سے کرسکتے ہیں۔ حقیقت میں یہ نہایت بری بات ہے ، جس سے کامل احترازکی ضرورت ہے۔
کام میں جلدی کرنا: وعدہ کے ایفاء میں دیرکرناایک عادت ہے ، جوعام طورسے مشرقیوں میں پائی جاتی ہے اوران کی پیشانی کانہایت بدنماداغ ہے ۔ بہت سے فرنگیوں نے اپنی کتابوں میں ہماری اس عادت کامضحکہ اڑایاہے اوراس کے متعلق نظمیں لکھی ہیں۔ان کاقول ہے کہ :
’’ ایک مشرقی کے لیے اس سے زیادہ سہل کوئی چیزنہیں کہ وہ وعدہ کوکل پرٹال دے ۔ قول وعمل کوپوراکرنے میں تاخیرکرنابھی اسی عادت بدمیں داخل ہے ۔ عقل مندوہ ہے جوہرکام میں جلدی کرے اورآج جوکچھ کرسکتاہے اسے کل پرنہ ٹالے۔‘‘
ثبات : ثبات نفس اس قوت کوکہتے ہیں جس کی مددسے پیش آنے والی مشکلات کامقابلہ کیاجاتاہے ۔اس کے تحت چنداوراخلاقی خوبیاں جن میں سے بعض کاہم تذکرہ کرتے ہیں۔
الف۔ متانت خلق: یہ صفت انسان کوآمادہ کرتی ہے کہ وہ اپنے عقائدپراستواررہے خواہ یہ اس کی ہزاروں مصلحتوں کے خلاف ہویااس کی بناپراسے طرح طرح کی مشکلات کاسامناکرناپڑے ۔ ہرزمانہ میں ایک جماعت ایسے سرفروشوں کی رہی ہے جنھوں نے حق وآزادی کے لیے جان دے دیناگواراکرلیالیکن اس بات کوگوارہ نہ کیاکہ ایک لمحہ کے لیے بھی وہ اپنے کسی عقیدہ میں تبدیلی کرلیںیااس کے اظہارسے بازآجائیں۔ سقراط اورگیلیلیواسی قسم کے انسان تھے جنھوں نے حمایت علم میں بڑی سے بڑی مصیبت کوبرداشت کیا۔ دین ومذہب کی حمایت میں جاں فروشی کرنے والے نصرانیوں کے یہاں بہت ہیں۔مسلمانوں کے یہاں شہدائے دین کی جماعت میں حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ اورامام احمدبن حنبل رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ داخل ہیں۔ اپنے عقائد پرہرحال میں جمے رہنااوراس سلسلہ میں کسی بات کی پروانہ کرناانسان کی نہایت اعلیٰ صفت ہے ۔ ہمیں اپنے اندراسے پیداکرنے کی نہایت اہم ضرورت ہے کیونکہ ہمارے یہاں قول وقرارپرثابت قدم رہناعنقاہے ۔ خش وخاشاک کی طرح جسے ہواکامعمولی جھونکاادھرسے ادھرکرتارہتاہے ہم بھی ہمیشہ پلٹاکھاتے رہتے ہیں۔ عموماًایساہوتاہے کہ تم کسی مسئلہ میں کسی کی رائے طلب کرتے ہواوروہ اپنی صحیح رائے پیش کردیتاہے ۔ لیکن جہاں تم نے اس سے اختلاف کیاوہ بھی اپنی کمزوری کی وجہ سے بغیرکسی دلیل کے تمہاراہم نوابن جاتاہے ۔
متانت خلق میں یہ بات بھی داخل ہے کہ انسان جس کام کوشروع کرے اسے انجام تک پہنچائے بغیرنہ چھوڑے ۔انسان کی کامیابی زیادہ تراسی خصلت پرموقوف ہے ۔ ذہانت ، نشاط اورولولۂ کارکے اعتبارسے اس کادرجہ کتناہی بلندہوجب تک صبروثبات کامادہ نہ ہوکامیابی ناممکن ہے۔
اعتمادعلی النفس: یہ صفت بھی متانت خلق کے قبیل سے ہے ۔ کیونکہ قوت عزیمت کے بغیراعتمادعلی النفس پایانہیں جاسکتا۔ ہمیں اپنے جوانوں میں اس صفت کی پوری طرح تخم ریزی کرنی چاہئے ۔ کیونکہ صدیوں کی ذہنی غلامی اوردوسروں پراعتمادکرنے کی عادت نے ہمیں بالکل اپاہج اورناکارہ بنادیاہے ۔ آج ہمارایہ حال ہے کہ ہم اپنی تعلیم وتربیت اوردوسرے اجتماعی احوال ومعاملات میں اپنے اوپراعتمادکرنے کے بجائے حکومت کے دست نگربن کے رہ گئے اورہمارے تمام کام دوسروں کے ہاتھ میں پہنچ گئے ہیں۔ اعتمادعلی النفس انسان کوہرکام خودکرنے کاعادی بنادیتاہے ۔ اس لیے اس میں مستقل زندگی پیداہوجاتی ہے۔
وسعت قلب: وسعت قلب انسان کی نہایت اعلیٰ فضیلت ہے ۔اس کوبھی ثبات یامتانت خلق میں داخل سمجھناچاہئے ۔ کیونکہ اس کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنی عقل وفہم کی مددسے عوارض سے کم متاثرہو۔ مثل مشہورہے کہ سب سے بڑاعقل مندوہ ہے جولوگوں کوزیادہ معذورسمجھے ۔ایک وسیع القلب انسان چھوٹی چھوٹی باتوں کی پرواہ نہیں کرتا۔اس کی توجہ صرف بڑے کاموں کی طرف ہوتی ہے۔وہ ہرکام خوب سوچ سمجھ کرکرتاہے ۔ اس لیے اس سے غلطیاں کم سرزدہوتی ہیں اورلوگ اس کی عزت واحترام کرتے ہیں بہ خلاف ان لوگوں کے جوطیش وغضب میں آکرہرکام کرتے ہیں ان سے اکثرغلطیاں ہوتی ہیں۔اوروہ عموماًایسے کام کرجاتے ہیں جن سے دوسروں کوتکلیف پہنچے ۔ اہل مشرق کے اخلاق میں وسعت اخلاق کوبہت نمایاں جگہ حاصل ہے کیونکہ یہ من جملہ ان خصائل کے ہے جواسلامی تمدن کے زمانہ سے ان میں وراثتاًمنتقل ہوتی چلی آرہی ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔