شیعہ سنی نفرت کا فائدہ کون اٹھا رہا ہے!

عرب اور اسرائیل کے بیچ اکتوبر 1973 میں ایک خوفناک جنگ ہوئی تھی۔ عرب کی قیادت شام اور مصر کررہے تھے جبکہ عراق، اردن، سعودی عرب، الجزائر، کیوبا، مراکش اور لیبیا عرب اتحاد کی جانب سے جنگ میں شریک تھے۔ جنگ دراصل مصر کے سینائی علاقے اور شام کی گولان کی پہاڑیوں پر لڑی گئی تھی۔ دراصل ان دونوں علاقوں پر 1967 کی چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے قبضہ کرلیا تھا۔ مصر اس وجہ سے بھی جنگ کی قیادت کررہا تھا کہ اسے کسی بھی صورت میں سوئز کینال کو اسرائیل سے آزاد کروانا تھا جوکہ ایشیا سے یوروپ کا ایک اہم سمندری تجارتی راستہ ہے۔

جنگ اس وجہ سے کافی شدید ہوگئی تھی کہ عرب اتحاد کو سویت یونین کی پشت پناہی حاصل ہوگئی تھی اور اسرائیل کی پشت پر امریکہ موجود تھا۔ جنگ تقریباً بیس دنوں تک چلی اور کافی جانی و مالی تباہی کے بعد اقوام متحدہ کی مداخلت سے اختتام تک پہنچی۔ اس جنگ میں بھی اسرائیل کو فتح حاصل ہوئی اور عرب اتحاد کے لیے یہ ایک شرمناک ہار تو تھی لیکن یہ عرب اتحاد کا ایک زبردست مظاہرہ تھا۔

پٹرول پیدا کرنے والےعرب ممالک نے انتقام کے جذبے میں پہلے تو تیل کی پیداوار کم کر دی تاکہ قیمتوں میں اضافہ ہوجائے اور پھر اسرائیل کی جنگی مدد کے جرم میں امریکہ پر پابندی عائد کردی۔ نتیجے کے طور پر 1973 کا انرجی کرائسس پیش آیا۔ تیل کی قیمتی آسمان چھونے لگیں اور دوسری بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں بھی زبردست اضافہ ہوا اور نتیجے میں امریکہ کی معیشت بدحال ہونے لگی اور قرضوں تلے دبنے لگی۔
ایسے میں امریکہ کے وزیر خزانہ ولیم سائمن نے جولائی 1973 میں سعودی عرب کا دورہ کیا۔ اس کے سامنے دو مسئلے تھے؛ ایک تو قرضوں میں ڈوبتا ہوا اپنا ملک اور دوسرا اسرائیل-عرب جنگ کے نتیجے میں سویت یونین کا عرب میں بڑھتا اثر۔
سائمن نے سعودی عرب کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ تم ہمیں پٹرول دو، ہم تمہیں اسلحے اور دوسرےجنگی سامان دیں گے جس سے کہ تم اپنے پڑوسی دشمنوں سے محفوظ رہ سکو گے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ سعودی عرب اپنی دولت کو امریکہ کے سرکاری خرچوں کے لیے قرض کے طور پر دے گا۔

ایک مہینے تک تفصیلی ملاقاتوں اور میٹنگوں کے بعد سعودی حکومت اس شرط کے ساتھ یہ معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہوگئی کہ سعودی عرب جو رقم امریکی حکومت کو قرض کے طور پر دے گی اسے راز رکھا جائے گا۔
امریکہ نے اسے آج تک راز ہی رکھا اور تقریباً چالیس سالوں کے بعد یہ راز اس وقت فاش ہوا جب بلوم برگ نے فریڈم آف انفارمیشن اکٹ کا استعمال کرتے ہوئے نیشنل ارکاوئز کے ڈاٹا سے ڈپلومیٹک کیبل حاصل کرلی۔ ڈاٹا کے مطابق سعودی عرب کے فی الحال 117 بلین امریکی ڈالر امریکہ کے پاس قرض ہیں جس کے مطابق سعودی عرب امریکہ کو سب سے زیادہ قرض دینے والا ملک ہوجاتا ہے۔ جبکہ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ڈاٹا ناقص ہے اور سعودی عرب نے دراصل اس سے کئی گنا زیادہ قرض مختلف کمپنیوں اور دوسرے ممالک کے ذریعہ امریکی حکومت کو دیا ہے۔
خود سعودی عرب نےامریکہ کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر حملے سے متعلق ایک بل پاس کرنے کے خلاف اپریل 2016 میں اپنے 750 بلین امریکی ڈالر کا اثاثہ بیچنے کی دھمکی دی تھی۔ امریکی پارلیمنٹ نے اس دھمکی کے باوجود 17 مئی 2016 میں بل پاس کردیا۔

فی الحال سعودی عرب کی اپنی معیشت کا اتنا برا حال ہے کہ حکومت نے ملک کا تاج سمجھی جانے والی کمپنی سعودی آرامکو کا ایک حصہ بیچ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے اور پچھلے ایک سال میں حکومتی اخراجات مکمل کرنے کے لیے پرانی بچت میں سے 111 بلین امریکی ڈالر خرچ ہوچکے ہیں؛ ایک طرف تیل کی قیمتیں گرنے کی وجہ سے ملک کی اصل آمدنی تقریبا ختم ہوگئی ہے اور دوسری طرف یمن، عراق اور شام میں ایران اور داعش سے مستقل پراسکی جنگ چل رہی ہے۔

اس سے قبل کہ سعودی عرب امریکہ سے اپنے اثاثے واپس لیتا، امریکہ نے ایران سے نیوکلئیر معاہدہ کرکے اور عراق میں ایران کے ساتھ مل کر شیعہ حکومت کے قیام کی جدوجہد کرکے اور شام میں بشار کے خلاف نرم رویہ اپنا کر سعودی عرب کو بہت بڑی آزمائش میں ڈال دیا ہے۔

اب سعودی عرب بالکل بھی اس حالت میں نہیں ہے کہ امریکہ سے اپنا اثاثہ واپس لائے کیونکہ ایسی صورت میں امریکہ سے تعلقات مزید خراب ہوجائیں گے اور ایسا ہونے کی صورت میں امریکہ اور ایران مزید قریب آسکتے ہیں اور یہ سعودی حکومت کے لیے سب سے بری خبر ہوگی۔
سعودی عرب کی ان مجبوریوں کو امریکہ خوب سمجھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دھمکیوں کے باوجود امریکہ نے ورلڈ ٹرید سینٹر پر حملے سے متعلق سعودی مخالف بل پاس کردیا۔
امریکہ اگر سعودی عرب سے خفیہ معاہدے کرسکتا ہے تو کیا گارنٹی ہے کہ ایران سے نہیں کرے گا؟ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایران اور سعودی عرب شیعہ سنی نفرت کا کب تک فائدہ اٹھاتے ہیں اور ایران اور سعودی عرب کی آپسی دشمنی کا فائدہ اٹھا کرامریکہ کب تک عیش کرتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔