صادقہ نواب سحر کی افسانوی سحرکاری

ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی

ہمعصر اردو ادب میں صادقہ نواب سحر ایک مانوس قلمکار کا نام ہے جنہوں نے بیک وقت اظہارکی کئی شمعیں روشن کر رکھی ہیں۔شاعری،ڈرامہ ،ناول اور افسانہ کو یکساں طور پر ایک معیار کے ساتھ برتنا آسان نہیں۔لیکن صادقہ نواب سحر نے نہ صرف اظہار کی ان تمام شمعوں سے جہان ادب کو روشن کیا ہے بلکہ اپنی مختلف الجہات شخصیت اور تخلیقی ہنر مندی سے اردو دنیا کو اپنا معترف بھی بنایاہے۔انگاروں کے پھول ،پھول سے پیارے جگنو کی شاعری یا مکھوٹو کے درمیاں کے ڈراموں کا آپ اعتراف کریں یا نہ کریں ’’کہانی کوئی سنائو متاشا ‘‘ ’’منت ‘‘ اور’’خلش بے نام سی ‘‘ کی کہانیوں سے آپ ہر گز صرف نظر نہیں کر سکتے ،جن کے حوالے سے صادقہ نے فکشن کی ایک نئی کائنات تخلیق کی ہے ،ایسی کائنات جس کی ہر دیوارپر ان کی شناخت قائم ہے۔
’’کہانی کوئی سنائو متاشا ‘‘ کو ہی لیجیے ،جس نے صادقہ نواب سحر کو بر صغیر ہند وپاک میں بے انتہا شہرت و مقبولیت عطا کی۔تانیثیت کے موضوع پر جب بھی اردو ناول کی بات ہوگی وہ اس ناول کے بغیر ادھوری سمجھی جائے گی کیونکہ یہ صرف ایک عورت متاشا کی کہانی نہیں ،ترقی یافتہ اکیسویں صدی میں بھی ظلم اور استحصال کی شکار ان تمام عورتوں کی کہانی ہے ،جنہوں نے مرد اساس معاشرہ میں صنفی عدم مساوات ،ظلم و تشدد اور جنسی استحصال کو اپنا مقدر سمجھ لیاہے۔فنی طور پر بھی یہ ناول اپنے بیانیہ کی وجہ سے منفرد ہے کہ واحد متکلم کی تکنیک میں پوری کہانی فنکارانہ چابکدستی سے پیش کی گئی ہے۔چھوٹی چھوٹی کہانیوں سے بُنا گیا پلاٹ،کرداروں کی خوبصورت عکاسی،متوسط طبقے کی معاشرت کے ساتھ مختلف علاقوں کی زبان ،محاوروں اور تہذیبی عناصر کو جس تفصیل اور حقیقت کے رنگ میں پیش کیا گیاہے وہ ناول نگار کی فنی مہارت اور دسترس کا ثبوت تو ہے ہی ناول کی مطالعیت (Readablity) کو بھی مہمیز کرتاہے۔
ناول کی بے انتہا کامیابی کے بعد عام طور پر ناول نگار افسانے کی طرف کم توجہ دیتے ہیں اور دھڑا دھڑ ناولو ں کی قطار لگا دیتے ہیں ۔مگر صادقہ بہت تحمل اور برد باری کا مظاہرہ کرتی ہیں ۔نہ صرف یہ کہ انہوں نے ناول کی کامیابی سے بہت زیادہ خود کو غلط فہمی کا شکار ہونے سے بچایابلکہ اپنی دوسری تمام پسندیدہ اصناف ادب سے حسب سابق رشتہ استواررکھا ۔چنانچہ شاعری،افسانہ ،ترجمہ نگار ی اور تنقید سے ان کارشتہ اب بھی ویسا ہی ہے جیسا پہلے تھا۔ کہانی کوئی سنائو متاشا کے بعد دو افسانوی مجموعے ’’منت‘‘ اور ’’خلش بے نام سی‘‘ کی اشاعت سے آپ اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
صادقہ نواب سحر کے افسانوں کا موضوعاتی تعلق عورتوں کی زندگی،رشتوں کی پامالی،قدروں کی شکست وریخت اور بہت تیزی سے غائب ہوتی ہوئی محبت سے ہے ،جس پر ہماری خوبصورت زندگی کا دارومدار تھا۔وہ نت نئے انداز اور نت نئے واقعات اور صورت حال کی مدد سے ان مسائل کو نمایاں کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔فکشن کی شعریا ت میں اس کے فنی لوازم ، زبان وبیان،تکنیک اور کردارنگاری کے مباحث کو نئے سیاق و سباق میں استعمال کی طرف جو توجہ دی جارہی ہے ،صادقہ نواب سحر ان مسائل سے بخوبی واقف ہیں۔وہ اپنے افسانوں کو تہ دار اور کرداروں کو ہمہ جہت بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں۔موضوع کی نوعیت کے اعتبار سے اپنے اسلوب کا انتخاب کرتی ہیں اور کرداروں کی نفسیات میں بھی گہرائی تک اتر کرہمیں نئے حقائق سے آشنا کراتی ہیں۔شریاں والی،منت،میٹر گرتاہے،ٹی شرٹ،خلش بے نام سی،سلگتی راکھ اور ابارشن جیسی کہانیوں کو پڑھ کر آپ بہ آسانی یہ پتہ لگا سکتے ہیںکہ صادقہ سحر کو موضوعاتی اور احساسات پر مبنی افسانے لکھنے میں خاص مہارت حاصل ہے۔اُن کے افسانوں میں تجربے ،مشاہدے ،حادثات اور واقعات کا بیان پورے کہانی پن کے ساتھ قائم رہتاہے اور کہانی اپنے کردار وں کی زندگی کے اطراف گھومتی رہتی ہے۔ان کے کردار تخیل کی بھول بھلیوں سے جلوہ گر نہیں ہوتے بلکہ ہمارے آس پاس ہی زندگی کے دکھ بھوگتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ماحول اور مناظر مہاراشٹر بالخصوص ممبئی اور کھپولی کے آس پاس کے ہوتے ہیں مگر ان میں زندگی اور اس سے وابستہ احساسات ایسے ہیں جنہیں کسی جگہ اورمقام میں قید نہیں کیا جاسکتا۔ان کا تعلق انسان اور انسانیت سے ہے۔انسان جوافسانہ نگار کی نگاہ میں روز بروز ارزاں او ر ارزل ہو تا جارہاہے۔اور انسانوں کامعاشرہ جہاں قدروں کی شکست وریخت ،رشتوں کا بکھرائو،جنریشن گیپ کے نام پر بزرگوں اور ان کی اولاد کے درمیان بڑھتا ہو ا فاصلہ،خودغرضی اور کاروباری ذہنیت کا فروغ،نیز سماجی سطح پر لڑکیوں کی ناقدری او ر ان کے جذبات کے تیئں عزیزوں کی بے حسی جیسے مسائل افسانہ نگار کو بار بار اظہار کے لیے اُکساتے ہیں۔صادقہ نواب سحر نے ایسے مسائل اور واقعات کا نہ صرف گہرائی اور باریک بینی سے مطالعہ کیاہے بلکہ خود ان کی تہ میں اتر کر اس کی تہ داریوں کا سر اغ بھی لگایا ہے۔
مثال کے طور پر’’خلش بے نام سی ‘‘مجموعہ کو سامنے رکھئے جس میں صادقہ کے کل ۱۶ افسانے ہیں۔ صادقہ نواب کے نظریات کی وسعت ،مشاہدہ کی گہرائی ،تجربوں کی ہم آہنگی ،اسلوب کا انفراد اور کہانیوں کی رنگارنگی دیکھنی ہو تو اِن افسانوں سے ایک بار ضرور گزریے۔’’شریاں والی‘‘رشتوں کی بے وقعتی،قدروں کا زوال اورنسوانی جذبات کی عکاسی کرتاہے تو ’’میٹر گرتا ہے‘‘ متوسط طبقہ کی ضرورت اور اس کی معاشی صورت حال کی طرف اشارہ کرتاہے۔’چاہے ان چاہے ‘‘شکست اعتماد کے ساتھ زندگی کی نیرنگیوں اور تہ داریوں کا اشاریہ ہے تو ’’ نوٹس‘‘’’ابارشن‘‘ اور’’ باڈی‘ ‘جیسے افسانے عہد حاضر کی بے چہرگی ،سکون کی تلاش اور معاشرتی زوال کا علامیہ ہیں۔’’ٹی شرٹ ‘‘جنریشن گیپ اور بزرگوں و نوجوانوں کے بابین فاصلے کی عکاسی کرتا ہے تو ’’ہزاروں خواہشیں ایسی‘‘ ’’سلگتی راکھ ‘‘ اور ’’منت ‘‘کی روح میں عورتوں کے ابدی کرب اور بے چارگی کا بھرپور بیان ملتا ہے ۔ آج کل محبت پر کہانیاں کم لکھی جارہی ہیں۔ محبت تو ہمارے فکشن کا بہت پرانا اور روایتی موضوع ہے مگرتجریدیت کے رجحان نے محبت کی معصومیت اور اس کی کیفیت کو دبیز تہوں میں گم کردیا تھا صادقہ نے اپنے افسانوں ’’خلش بے نام سی‘‘’’شرارہ‘ ‘اور’’ادھڑی ہوئی فراک ‘‘ میں اِسی پرانے اور روایتی موضوع کو اس خوب صورتی، ندرت اور تازگی کے ساتھ برتا ہے کہ محبت جیسے جذبے کی بازیافت محسوس ہوتی ہے۔
صادقہ نواب سحر کے افسانوں کا مزاج ایک دوسرے سے مختلف ہے اور تنوع کی وجہ سے ہی بعض سیدھے سادے ہیں،بعض داستانو ں کے رنگ کے حامل ہیں اور بعض حیران کن حدتک ایمائی اور اشاراتی بھی۔مگر یہ تنوع ہی اِن افسانوں کا حسن ہے۔یہ افسانے اضطراب کے ساتھ ساتھ احساس کے افسانے ہیں۔یہ افسانے قوس قزح کے ایسے دائرے ہیں جن کی کجی اور رمزیت میں ہی فنکاری پوشیدہ ہے۔ دراصل صادقہ اس بات کی قائل ہیںکہ برہنہ حرف نہ گفتن کمال گویائیست۔اس لیے وہ کیا کہنا ہے سے زیادہ اس پر توجہ دیتی ہیں کہ کیا نہیں کہناہے۔اس آگہی نے ان کے افسانوں کو نہ صرف حد درجہ گٹھائو اور compactness عطا کیا ہے بلکہ ان کی مطالعیت یعنی Readability میں بھی اضافہ کیاہے۔
صادقہ نواب کے افسانوں میں مقامی کلچراور زبان وبیان پر مقامیت کی گہری چھاپ نہایت واضح ہے۔اکثر کردار،مقامات کے نام اور ان کے طرز معا شرت سے ان کے علاقے اور تہذیب کا اندازہ ہو جاتاہے۔
’’دسترخوان پر بگھارا کھانا،مرغی کا قورمہ،امباڑے کی کھٹی بھاجی اور تلی ہوئی کھاری مچھلی کا مزہ لیتے ہوئے
نصیبن نے سوچا رقیہ کی شادی بھی اسی طرح گیارہ بارہ سال کی عمر میں وجے واڑہ میں ہوئی تھی‘‘(شریاں والی)

’’ممبئی سے پنڈھر پور جانے والی ٹولیاں لیزم بجاتی نرم سخت دھوپ میں ہمیشہ کی طرح آج بھی سر پر پھینٹا
باندھے ،لکڑی کی دنڈی میں وٹھل کی مورتی کے لیے پندرہ دنوں کی جترا میں شامل ہونے کے لیے بڑھتی چلی
جا رہی تھیں۔‘‘(منت)

’’کاجو واڑی کے اس حصے میں بے حد غریبی دکھائی دی۔جھونپڑے ایک دوسرے سے لگے ہوئے تھے۔
ان کے درمیان تنگ گلیاں تھیں۔پہاڑی کے اس چھور پر جھونپڑے کے سامنے کچھ بچے اور تین عورتیں
بیٹھی ہوئی تھیں۔پیشانی پر بندی نہ ہونے کی وجہ سے وہ اسے مسلمان لگیں ورنہ وہ ساجھے کلچر کا نمونہ ہی
تھیں۔‘‘(پہلی بیوی)
صادقہ نواب کے کردار اور علاقے اسی ساجھا کلچر کی نمائندگی کرتے ہیں۔کردار اور علاقے ہی نہیں صادقہ کی زبان و بیان بھی اس مشترکہ کلچر کی عکاسی کرتی ہے۔بقول وسیم بیگم
’’ ان کی زبان وبیان میں ہندستان کے مختلف علاقوں کی معاشرت کو بخوبی دیکھا جا سکتاہے‘‘(پشت کی تحریر)
مختصر یہ کہ صادقہ نواب سحر کے پاس کہنے کے لیے بہت کچھ ہے ۔موضوعات اور مسائل کی کمی نہیں ،ایک حساس فنکارکی طرح ان کی باریک بیں نگاہیں ان مسائل کی تہ تک جاکر کہانیاں خلق کرتی ہیں۔لہذا ان کے افسانے صرف تفریح طبع کا سامان نہیں بلکہ ہماری بصیرت کا موجب بھی ہیں۔ان کے افسانے تجسس،دلچسپی اور چونکانے کا عمل تو رکھتے ہی ہیں اپنے اختتام پر فکرکی ایک دنیا آباد کر دیتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ مواد ہر لکھنے والے کے پاس ہوتا ہے ،مگر برتنے کا ہنر سب کے پاس نہیں ہوتا۔صادقہ نواب سحر اس لحاظ سے خوش نصیب ہیں کہ ان کا ملتہب اور حساس دل افسانے کی Delicacy کو پا گیاہے۔اس لیے ان کی کہانیوں میں کم از کم شریاں والی اورمنت ایسی ہنر مندی رکھتی ہیں کہ خواتین کے لکھے گئے ہم عصر افسانوں کے سخت سے سخت (مگر غیر جانبدارانہ) انتخاب میں بھی انہیں نظر انداز کرنا مشکل ہوگا۔

تبصرے بند ہیں۔