کہاں لے جائے گی یہ بے حسی

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں ایسے واقعات کا سلسلہ سا شروع ہوگیا ہے جو سماجی نظام اور اس کی بناوٹ کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ انسان کے بیمار ہونے پر اس کے علاج کے تمام ذرائع موجود ہیں، مگر سماج ہی بیمار ہوجائے تو اس کا علاج کیسے ہو؟ کیا تاریخ، نظریات کی طرح ہم سماج کے خاتمے کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ سماجی روابت، آپس میں بات چیت، میل ملاپ اور ہمدردی انسان کو دوسرے جانداروں سے الگ کرتی ہے،جو واقعات سامنے آرہے ہیں ان میں سماجی قدروں کا تنزل صاف نظرآرہا ہے۔ اڑیسہ کے کالا ہانڈی سے انسانیت کو شرمسار کرنے والا واقعہ سامنے آیا،کسی کا سہارا نہ ملنے کی وجہ سے بیٹیوں کو ماں کی ارتھی اٹھانی پڑی۔ اتنا ہی نہیں انہیں ماں کی چتا کو جلانے کیلئے گھر کی چھت اجاڑ کر لکڑیاں جمع کرنی پڑیں۔

یہیں سے چند دن قبل ایک آدی واسی دانا مانجھی کے اپنی اہلیہ کی لاش کو دس کلو میٹر کندھے پر ڈھونے کی خبر آئی تھی۔ اس کے پاس پیسے نہیں تھے اوراسپتال نے کوئی انتظام کرنے سے منع کردیاتھاجبکہ اڑیسہ حکومت کی جانب سے غریب مریضوں کیلئے مفت ایمبولینس فراہم کرنے کی اسکیم موجود ہے۔ اس واقعے نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیاتھا۔ اس سے پیدا ہوا غصہ ابھی ٹھنڈا بھی نہیں ہوا تھاکہ اڑیسہ کے ہی بالاسور میں ایک 80سالہ بوڑھی خاتون کی مال گاڑی کے نیچے آکر موت ہوگئی۔ ایمبولینس نہ ملنے پر کمیونٹی ہیلتھ سینٹر کے ملازمین نے لاش پر چڑھ کر ہڈیاں توڑیں، پھر موڑ کر پوٹلی بنائی اور بانس پر ٹانگ کر لے گئے۔ ادھر مدھیہ پردیش کے ایک غریب آدی واسی جگدیش کو اپنی اہلیہ کی آخری رسم کوڑے، کچرے، پالی تھین اور ربر سے اداکرنی پڑی۔ اس نے مدد کیلئے نگر نگم سے گہار لگائی، اس کے پاس لکڑیاں خریدنے کیلئے پیسے نہیں تھے۔ انتظامیہ نے اسے کسی بھی طرح کی مدد دینے سے انکار کردیا تھا۔ اسے یہ کہہ کر ٹال دیا گیاکہ لاش کو ندی میں ڈال دو تب اس نے کوڑے، پالی تھین اور ربر سے اپنی اہلیہ کو جلانے فیصلہ کیا۔ مدھیہ پردیش کے ہی جبل پور سے 20کلو میٹر دور شمشان گھاٹ جانے والی کچی سڑک ڈوب گئی تھی۔ آواجاہی کیلئے کھیت سے ہوکر راستہ بچا تھا۔ لیکن اس زمین پر اعلیٰ ذات کے لوگوںکا قبضہ تھا۔ انہوںنے دلتوں کو اس پر گزرنے کا راستہ نہیںدیا۔ مجبوری میں لوگوں کو تالاب کے بیچ سے شویاترانکالنی پڑی۔
بے حسی کا معاملہ چند علاقوں تک محدود نہیں ہے۔ یہ ایسی بیماری ہے جو ملک کے ہر علاقے میں پائی جاتی ہے۔ کیا شہر کیا گائوں،آبادی کے کم زیادہ ہونے کا بھی اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دہلی میں رونگٹے کھڑے کردینے والے کئی واقعے سامنے آئے۔ براڑی کے سنت نگر علاقے میں چونتیس سال کے ایک شخص نے دن دہاڑے 21سال کی لڑکی کو چلتی سڑک پر قینچی سے گود گود کر مار ڈالا۔ کسی نے اسے بچانے کی ہمت نہیں دکھائی۔ ایک شخص آگے بڑھا بھی لیکن پھر پیچھے ہٹ گیا۔ یہ پورا واقعہ سی سی ٹی وی کیمرے میں قید ہوگیا۔ دوسری واردات منگولپوری علاقے میںہوئی، جہاں بات چیت بند کرنے سے بوکھلائے ایک شخص نے پڑوس میں رہنے والی لڑکی کے گھر جاکر اسے بالکنی سے نیچے پھینک دیا۔ اندر پوری میں ایک نوجوان نے شادی شدہ خاتون کو چاقو سے گود کر مار ڈالااور پڑوسی بالکنی سے دیکھتے رہے۔ اس طرح کا واقعہ پچھلے سال بھی دہلی میں پیش آیاتھا۔ ان لڑکیوں نے پریشان کئے جانے کیلئے پولس میں شکایت بھی کی تھی۔ نربھیا واقعہ کے بعد لڑکیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کیلئے قانون بنایا گیاتھا لیکن اس میں خامی یہ ہے کہ اس کوضمانتی معاملہ ماناگیا ہے۔ زیادہ تر معاملوں میں پولس سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتی۔ اس کا رویہ ٹال مٹول والا رہتا ہے۔ پولس اپنی سہولت سے کارروائی کرتی ہے اور عدالت اپنی رفتار سے انصاف۔ لڑکیوںو عورتوں کے خلاف تشدد سرکار کے ساتھ سماج کی بے حسی سے بھی تعلق رکھتا ہے۔
دلت ومسلمانوں کے خلاف تشدد بھی اس کی ایک شکل ہے۔ پچھلے سال دہلی سے چند کلو میٹر دور دادری کے بساہڑا گائوں میں اخلاق کے گھر میں گھس کر اسے پیٹ پیٹ کر ماردیاگیا تھا۔ اس کے بیٹے کو مراجان کر چھوڑ گئے ۔ یہ مارنے والے کوئی اورنہیں اس کے پڑوسی وگائوں کے لوگ تھے۔ وہ لوگ جن کے ساتھ اس نے زندگی کا بڑا حصہ گزارا تھا۔ اتنا بڑا واقعہ صرف اس شک کی بنیاد پر رونما ہوا کہ اس نے گائے کو ذبح کراس کا گوشت کھایا ہے۔ گجرات کے اونا میں چار دلت لڑکوں کو آدھا ننگا کرکے پیٹا گیا۔ ان کا جرم یہ تھا کہ وہ مری ہوئی گائے کا چمڑہ اتار رہے تھے، گائے کو شیر نے مارا تھا۔ اس کی ویڈیو بنائی گئی تھی۔ شاید آپ نے بھی دلتوں کے پٹنے والی ویڈیو دیکھی ہو۔ اس طرح کا واقعہ ہریانہ کے دولینا میں بھی ہوا تھا،جہاں 2002میں پولس چوکی کے اندر گھس کر بھیڑ نے چار دلتوں کو پیٹ پیٹ کر قتل کردیاتھا۔ ہریانہ میں ہی ایک دلت خاندان کو اس کے گھر میں آگ لگا کر زندہ جلانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس میں دوکمسن بچے جل کر مر گئے تھے۔ جبکہ اس خاندان کی حفاظت کی ذمہ داری پولس نے لے رکھی تھی۔ 22مئی کو اونا سے 50کلو میٹر دور راجولا میں دلتوںکو اسی طرح پیٹا گیاتھا۔ مدھیہ پردیش میں ریلوے اسٹیشن پر بیف کے شک میں دومسلم خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بجنور کے پیدا گائوں میں لڑکی کو اوباش لڑکوں کے ذریعہ مزاہمت کرنے پر جاٹوں نے ایک ہی خاندان کے تین لوگوں کو قتل اور بارہ لوگوں کو زخمی کردیا تھا ۔ پولس اور وہاں موجود لوگ تماشائی بنے رہے۔ ملک میں گائے کو لے کر دسیوں دل دہلادینے والے واقعات ہوچکے ہیں۔ کہیں جانوروں کے تاجروں کو پیٹا گیا توکہیں ٹرک ڈرائیور اوراس کے ہیلپر کو۔ ابھی دہلی میں ادھیڑ عمر کے دو مسلمانوں کو بہت بری طرح زدکوب کیا گیا۔ وہ قربانی کے بعد جانوروں کی گندگی وباقیات پھینکنے جارہے تھے۔ وہ ابھی تک اسپتال میں موت وزندگی سے لڑرہے ہیں۔ ظلم کے تمام معاملوں میں پولس کی سرد مہری یا لاپروائی شامل رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ارتھی لے جاتے ہوئے لڑکیوںکو کسی نے نہیں دیکھا ہوگا؟ دانا مانجھی کی مدد کی گئی ہوتی تو کیا اسے دس بار ہ کلو میٹر لاش ڈھونی پڑتی؟ جگدیش کو اپنی اہلیہ کی لاش جلانے کیلئے کوڑے کرکٹ، پولی تھین کی کیا ضرورت تھی؟ سڑک پر آنے جانے والے لوگوں نے تھوڑی ہمت دکھائی ہوتی تو کیا اس 21سال کی کرونا کو نہیں بچایا جاسکتا تھا؟ پڑوسیوں نے بالکونی سے نظارہ دیکھنے کے بجائے اس عورت کی مدد کی ہوتی تو کیا اسے قتل ہونے سے نہیں بچاسکتے تھے؟ اخلاق نے جن لوگوں کے ساتھ زندگی کابڑا حصہ گزارا تھا،ان کے سکھ دکھ میں ساتھ رہا تھا اگروہ حملہ آور بھیڑ کوروکنے کیلئے آگے آتے توکیا اتنا بڑا حادثہ ہوپاتا؟ ہریانہ، گجرات یا مدھیہ پردیش کے لوگوںنے دلتوں کو انسان سمجھا ہوتا توکیاانہیں لاش کو شمشان گھاٹ تالاب کے بیچ سے لے جانی پڑتی؟ کیا دلتوں کی پٹائی سے دنیا میں ملک کی ہوئی فضیحت کو نہیں بچایاجاسکتا تھا؟مدھیہ پردیش میں ریلوے اسٹیشن پر موجود پولس اور عوام نے گئو رکشوں کو روکا ہوتا تو کیا دو مسلم بے سہارا خواتین کو اذیت برداشت کرنی پڑتی؟بجنور کے پیدا گائوں کے نوجوانوں اور بزرگوں نے اگر ان شرپسند اوباش لڑکوں کو روکا ہوتا تو یہ سانحہ کیا نہیں ٹالا جا سکتا تھا ۔ ایسا لگتا ہے کہ پولس،انتظامیہ کے ساتھ ساتھ عام لوگ بھی بے حس ہوگئے ہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ عام لوگوںمیں خاموش تماشائی بنے رہنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ یا یوں کہا جائے کہ ملک میں تماش بین ہونا ہی کردار کی خصوصی پہچان بن گئی ہے۔ تماشا دیکھنے والے صرف مزہ لیتے ہیں مددنہیں کرتے۔
بھارت نے سیکولر، جمہوری اور فلاحی ریاست ہونا طے کیاتھا،جس کا مطلب ہے کہ سرکار اپنے باشندوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کرے گی۔ وہ اپنے تمام شہریوں کے سماجی واقتصادی مفادات و عزت و آبرو اور جان و مال کا تحفظ فراہم کریگی ۔ لیکن محض کچھ دنوں میں رونما ہونے والے واقعات نے ملک کے فلاحی ریاست ہونے کے دعویٰ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے ۔ یہ کس طرح کی ریاست یا سماج ہے جو اپنے شہریوں کو بنیادی
سہولیات و حفاظت بھی مہیا نہیں کراسکتا۔ کسی کی میت کو کاندھا دینا ایک جذباتی کام ہے۔ اس کے باوجود سڑک پر کھڑے لوگ لڑکیوں کو ارتھی اٹھاکر لے جاتے یا پھر دانا مانجھی کو کندھے پر لاش لادھے جاتے دیکھتے رہے اور ان کی مدد کو کوئی آگے نہیں آیا۔ لڑکیوں کو مرتے یا دلتوں ومسلمانوں کو پیٹتے دیکھنے والوں کی انسانیت کہاں چلی گئی؟۔ شری کرشن نے کہا تھا کہ کرونا (رحم، ہمدردی)انسان کو ایشور کے قریب کرتی ہے۔ جو کروناتیاگ دیتا ہے اسے اس کی بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ مہابھارت اس کی مثال ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہماری ترقی بربریت سے مہذب ہونے کی طرف ہے یا مہذب ہونے سے بربریت کی طرف؟ ٹکنالوجی تواپنی انتہا پر ہے لیکن انسانیت گرتی ہی جارہی ہے۔ یہ کیسی ترقی ہے کہ آزادی کے ستر سال بعد بھی آبادی کے بڑے حصہ کوعزت کے ساتھ زندگی گزارنے کے ذرائع مہیانہیں ہیں۔
آج کی ڈجیٹل پیڑھی، ڈجیٹل ڈوائس کے ذریعہ ’لائک‘’شیئر‘ ’اسٹیٹس، اور پکچر اپ ڈیٹ کے ذریعہ بناوٹی سماج میں اپنی موجودگی درج کرانے کیلئے فکرمند ہے۔ حقیقی سماج یا آمنے سامنے کے سماجی تعلقات کو نظرانداز کرنا یا اہمیت نہ دینا عام ہوگیا ہے۔ اس کے نتیجے میں آپسی تعلقات، میل ملاپ اورسماج کے تئیں بے حسی پیدا ہورہی ہے۔ اس کی وجہ سے رشتوں میں بے یقینی، دھوکہ، خود غرضی، غیر انسانی عمل عام ہوئے ہیں۔ انسان میں خود پرستی پروان چڑھ رہی ہے ۔ نئی نسل فوراً ریزلٹ چاہتی ہے، اسی عجلت پسندی نے اس کا قانون اورانتظامیہ میں اعتماد کم کیا ہے۔ وہ خود فیصلہ کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔اسے کسی کا نا کہنا بھی برداشت نہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکار، سول سوسائٹی اور عام لوگ اس صورتحال پر سنجیدگی سے غورکریں۔ نئی نسل میں پیدا ہورہی بے چینی کو دورکرنے اوراسے مطمئن کرنے کے طریقے سوچیں۔ ایسا نہ ہو کہ دیر ہوجائے، جلدازجلد اس طرف توجہ کی جائے ورنہ یہ بے حسی سماج کو کہاں لے جائے گی آج اس کا اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔(یو این این)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔