ڈاکٹر سیّد احمد قادری کے افسانوی  مجموعہ ’’ملبہ‘‘ پر منظوم تبصرہ

پروفیسر طرزیؔ

کیسے کیسے گل کھلاتے سیّد احمد قادری

لائے ’’ملبہ‘‘ چوتھا اب مجموعۂ افسانوی

عام ملبوں سے ہے لیکن حیثیت اس کی جدا

علم و دانش آگہی کا اس میں ہے گوہر دبا

حسبِ ظرفِ قاری ٹھہرا گوہروں سے اکتساب

دشتِ فن کا اُن کے ہر ذرّہ ہے مثلِ ماہتاب

لائے پہلے ’’ریزہ ریزہ خواب‘‘ ’’چادر دھوپ کی”

اور ’’پانی پر نشاں‘‘ مجموعہ لائے بھی وہی

آشکارا ملبہ سے گوہر جو ہیں افسانوی

بے گماں تعداد اُن کی ہوتی ہے بیالیس ہی

بخشی ہے افسانوں کو وہ معنویت کی بساط

وصل میں اک عاشقِ دانا کی جیسی احتیاط

ملبہ و سرحد ، وراثت، انقلاب، اسٹار وار

دوپہر، احساس، قیدی، ہم قدم کیجے شمار

وقت کا بہتا ہوا دریا تو عزت دار بھی

آئینے کی گرد ہے تو ریت کی دیوار بھی

پہرے خوابوں پر، روایت ، سرخ جوڑے دیکھئے

بات آنگن کی، شکاری فاختائوں کے ہوئے

پت جھڑ اور اپنی عدالت، دیکھئے تشویش بھی

زندگی کا بوجھ، ایسا بوند بوند ہے زندگی

رشتوں کی دستک اگر تو سلسلہ ہے بھوک کا

زندگی دو راہے پر ہے اور نہیں کوئی صدا

ارتکاز معنوی کی دلکشی بھی دیکھئے

موضوع و عنواں کا ربطِ باہمی بھی دیکھئے

کچھ مسائل عصری ہیں تو کچھ سیاسی مسئلے

کچھ تقاضے زیست کے موضوعِ افسانہ بنے

انحطاط اخلاقی بھی کچھ آئے ہیں زیرِ بیاں

پاگئیں اظہار کچھ اقدار کی پامالیاں

غربت و افلاس تو دھوکہ ، فریب، آزردگی

بے کسی و بے بسی تو قتل و خوں، غارت گری

بے زبانی، بے نوائی اور کچھ بے چہرگی

اور ردائے بنتِ مریم کی لُٹی تقدیس بھی

کس طرح شہ زور استحصال سے لیتے ہیں کام

کرتا ہے کمزور طاقتور کی لاٹھی کو سلام

کیوں جواں بیٹی کا مفلس باپ رہتا  دل فگار

کیوں ہوس کاروں سے ہے انسانیت بھی شرمسار

ہیں جو زیرِ آسماں فٹ پاتھ پر وہ کون ہیں

جن کا ہے اپنا نہیں کوئی بھی گھر وہ کون ہیں

مانگتے ہیں بھیک بھی جو دربدر وہ کون ہیں

اور پولس کا جن پہ ہو انکائونٹر وہ کون ہیں

جن کی قسمت میں نہیں رنگیں سحر وہ کون ہیں

بے سبب جن کے قلم ہوتے ہیں سر وہ کون ہیں

ایسے ہی کچھ کون؟ کیوں؟ ملبہ سے جو پیدا ہوئے

ارتقائی دعوے کو تہذیب کے جھٹلاگئے

ماجرا سازی میں بھی حاصل ہے ان کو افتخار

اپنے کرداروں کو دیتے راستی کا اعتبار

لفظوں کی تہذیب ہو کہ لہجے کی شائستگی

کافی ہے اتنا کہ ہیں وہ سید احمد قادری

زندگی کی ترجمانی کرتے ایسے واقعات

آشنائے راستی ہے اُن کی حسّی کائنات

فن میں روحِ عصریت بھی ہے کچھ ایسے بولتی

دست میں عاشق کو ڈھونڈے جیسے خود محبوب ہی

اُن کے فنی میکدے سے پاتے عرفانِ حیات

اُن کی ہر کاوش نظر آتی ہے میزانِ حیات

اُن میں اظہارِ ہنر پاتے ہیں اتنا معتبر

زندگی کے پیچ و خم پہ رکھتے ہیں گہری نظر

معنوی تہہ داری اُن کے فن کا وہ اعزاز ہے

دیدئہ محبوب یکسر شوق کا غماز ہے

اُن کے افسانوں میں ہے کچھ ایسا ادراکِ جمال

اپنی تخلیقوں سے حاصل کرتے ہیں کیفِ وصال

اُن کے فن میں ایسا ہے صہبائے معنی کا سرور

جیسے اک یُوْتی کو سندرتا پہ اپنی ہو غرور

اُن سے ہے طرزِ بیانیّہ کے گلشن میں بہار

لالہ زارِ فنِّ افسانہ ہے جس سے مشک بار

تبصرے بند ہیں۔