صبح پہ اور کبھی شام پہ رونا آیا
مقصود اعظم فاضلی
صبح پہ اور کبھی شام پہ رونا آیا
دل گرفتہ کو ہر اک گام پہ رونا آیا
…
یاد پھر آگئی ساحل پہ رفاقت اس کی
آج پھر مجھ کو حسیں شام پہ رونا آیا
…
ہوکے مجبور غریبی سے کیا قصدِ سفر
گھر سے نکلے تو در و بام پہ رونا آیا
…
تیرے آغاز پہ دل شاد بہت تھا لیکن
"اے محبت! ترے انجام پہ رونا آیا "
…
دیکھ کر ان کو چھلک اٹھّیں خوشی سے آنکھیں
وہ یہ سمجھے غم و آلام پہ رونا آیا
…
زندگی میں جو تری یاد سے خالی گزرے
بعد از مرگ انھیں ایام پہ رونا آیا
…
میری تذلیل کے درپے جو رہا کرتے تھے
ان کو اعظم مرے اکرام پہ رونا آیا
تبصرے بند ہیں۔