صبح پہ اور کبھی شام پہ رونا آیا 

مقصود اعظم فاضلی

صبح پہ اور کبھی شام پہ رونا آیا
دل گرفتہ کو ہر اک گام پہ رونا آیا

یاد پھر آگئی ساحل پہ رفاقت اس کی
آج پھر مجھ کو حسیں شام پہ رونا آیا

ہوکے مجبور غریبی سے کیا قصدِ سفر
گھر سے نکلے تو در و بام پہ رونا آیا

تیرے آغاز پہ دل شاد بہت تھا لیکن
"اے محبت! ترے انجام پہ رونا آیا "

دیکھ کر ان کو چھلک اٹھّیں خوشی سے آنکھیں
وہ یہ سمجھے غم و آلام پہ رونا آیا

زندگی میں جو تری یاد سے خالی گزرے
بعد از مرگ انھیں ایام پہ رونا آیا

میری تذلیل کے درپے جو رہا کرتے تھے
ان کو اعظم مرے اکرام پہ رونا آیا

تبصرے بند ہیں۔