صحرا میں نہیں رہنا

 تبسم فاطمہ

وہ سامنے کھڑا ہے لیکن اسے نظریں ملاتے ہوئے بھی پریشانی ہورہی ہے۔ کھلی کھڑکی سے دھوپ کی شعائیں اندر تک آرہی ہیں۔ وہ ایک ٹک باہر کے مناظر میں الجھا رہا۔ لیکن میں جانتی تھی، اس کی آنکھیں کچھ بھی نہیں دیکھ رہی ہونگی۔ ممکن ہے، اس کے وجود میں ایک آندھی چل رہی ہو۔ مرد کے وجود میں اکثر مرد ہونے کی آندھی چلتی ہے۔ اور خاص کر ایسے موقعوں پر جب اسے احساس ہو کہ اس کی مردانگی کو کسی حد تک کچل دیا گیا ہو۔ اور یہ بھی احساس ہو کہ کچلنے کی کوشش اس ذات کے ذریعہ کی گئی ہو، جس سے کبھی اس قسم کی کوئی توقع اس نے نہیں رکھی ہو۔ وہ اب بھی کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔ جیسے کسی فیصلے پر پہنچنے کا خواہشمند ہو۔ اچانک وہ پلٹا اور میری طرف دیکھا۔

’تم نہیں جانتی، زندگی کتنی مشکل ہے۔ ‘

’میں اسے آسان بنانا بھی جانتی ہوں۔ ‘

’اوہ۔ ‘ اس نے زیر لب مسکرانے کی کوشش کی—’ نہیں تم نہیں جانتی۔ تم سب کچھ کھیل سمجھ رہی ہو۔ یہ زندگی اتنی آسان بھی نہیں ہے۔ راستے میں بہت کانٹے ہیں۔ ‘

’مجھے کانٹوں سے کھیلنا پسند ہے۔ میں دوبارہ مسکرائی۔ بچپن میں بھی یہی کرتی تھی۔ ‘

’تو تم نے فیصلہ کرلیا ہے۔ ‘ اس بار اس کی آواز کمزور تھی… آزاد ہونا ایک احساس ہے۔ فیصلہ نہیں۔ ‘

’اوہ…‘ وہ بہت آہستہ سے بولا۔ مگر اس بار وہ ٹھہرا نہیں۔ دیکھتے دیکھتے  وہ کمرے سے باہر نکل گیا تھا۔

اب میں کمرے میں اکیلی تھی۔ اور یہ لمحہ ایسا تھا جب میں گنگنا سکتی تھی۔ رقص کرسکتی تھی۔ باہر دھوپ چھٹکی ہوئی تھی۔ کھڑکی سے کچھ فاصلے پر سر وقد درختوں کی قطار تھی۔ ان درختوں پر بہار آئی ہوئی تھی۔ اس سے قبل کبھی میں نے قدرت کے لازوال حسن کو اس طرح آنکھوں میں بسا کر نہیں دیکھا تھا، قدرت آزاد ہے۔ اور میں بھی۔ میں یہ سوچنے سے قاصر تھی کہ انسان اپنے لیے ایک گھٹن بھرا پنچرہ لے کر کیوں آتا ہے؟ یہ کیسی آزادی ہے کہ ساری زندگی ایک چہار دیواری کے اندر ایک ایسے آدمی کے ساتھ بسرکی جائے جس سے نہ خیال ملتے ہوں ، نہ معیار۔ اور وہ ہر وقت ساتھ میں پنجرہ لیے گھومتا رہتا ہو… زیادہ اڑان مت بھرو۔ پنجرے میں آجائو۔ یہ ٹی وی دیکھنے کا وقت نہیں ہے۔ میرے دوست آنے والے ہیں۔ چلو پنجرہ سنبھالو۔ تم جاب کروگی؟ نہیں تم پنجرے میں زیادہ اچھی معلوم ہوتی ہو۔

میں نے کئی بار پنجرہ توڑنا چاہا۔ لیکن پھر خود کو سمجھایا۔ ابھی کھیل دیکھتے ہیں۔ کبھی کبھی تماشہ بھی دیکھنا چاہئے۔ اور سب سے زیادہ مزہ تو اس بات میں ہے کہ خود کو خاموشی سے تماشہ بنالو۔ پھر سامنے والا اپنی اصلیت، اپنی اوقات میں آجاتا ہے۔ مجھے اس بات کا احساس ہے کہ پتھر سے زیادہ سخت الفاظ ہوتے ہیں۔ اور مرد، عورت کے لیے ساری زندگی پتھر اکٹھا کرتا رہتا ہے۔ اور پھر ایک ایک کرکے صحیح وقت کے انتظار میں یہ پتھر اس کی طرف اچھالتا جاتا ہے۔ مگر اس کی بد قسمتی تھی کہ میں ان عورتوں سے الگ تھی۔ وہ عورتیں جو باہر کی میزپر، یا فیس بک پر باتیں کرتے ہوئے عالمانہ انداز اختیار کرجاتی تھیں۔ مگر گھر کی سطح پر ان کے اندر ایک ڈرپوک عورت موجود ہوتی تھی۔ ایک ایسی عورت، جس کے سامنے مرد پنجرہ لیے کھڑا رہتا تھا۔ میں سوچتی تھی کیا یہ خودکشی نہیں ہے؟ اپنے لیے ایک ایسے قید خانے کا انتخاب کرنا، جہاں مہذب دنیا سے کوئی روشنی نہیں آتی۔ مرد اکیلا اس روشنی کا حقدار ہوتا ہے۔ اور وہ بڑی محنت سے عورت کو اس قید خانے کا قیدی بنالیتا ہے۔ اور سمجھدار تعلیم یافتہ عورتیں بھی ہنستے ہنستے اس خودکشی نما موت کو گلے سے لگا لیتی ہیں۔ فیس بک کی بڑی سی دنیا میں صالحہ ملی تھی۔ انقلابی نظمیں لکھنے والی۔ لیکن وہ اپنے پروفائل میں اپنی تصویر لگاتے ہوئے خوف محسوس کرتی تھی۔ میں نے پوچھا تو سہم گئی۔

’تصویر نہیں دے سکتی۔ ‘

’لیکن کیوں ؟‘

’میری شادی ہورہی ہے۔ ‘

’مبارکباد، تم نے لڑکے کو دیکھا ہوگا؟‘

’نہیں۔ ‘

’کیوں۔ ‘

صالحہ نے بتایا… یہ زندگی اس کی ہے ہی نہیں۔ دوسروں کے اشاروں پر چلنا ہی ہماری تقدیر میں لکھا ہوتا ہے۔

’پھر جو تم لکھتی ہو اس سے فائدہ۔ ؟‘

’فائدہ ہے نا… کچھ دیر کے لیے اس عورت کو زندہ کرلینا، جس کے بارے میں جانتی ہوں کہ کچھ دنوں بعد ہی اس عورت کی ہر خواہش کا گلہ گھونٹ دیا جائے گی۔ وہ زندہ رہے گی مگر موت سے بدتر۔ ‘

پہلی بار صالحہ پر غصہ آیا تھا۔ یہ کیسی زندگی ہے۔ کیا میں ایسی زندگی کے بارے میں سوچ سکتی ہوں۔ کیا دنیا کے تمام مرد ایک جیسے ہوتے ہیں۔ فیس بک پر ہی پاکستان کی ملیحہ ٹکرائی تھی۔ کہانیاں لکھتی تھی۔ ایک شوہر تھا۔ دو پیارے بچے۔ مگر اپنی بغاوت کی آنچ میں اندر اندر ہی سلگتی یا مرتی تھی، نہ صالحہ کے پاس زندہ رہنے کا کوئی جواز تھا اور نہ ملیحہ کے پاس۔ جو بھی ملتا وہ ایک نقلی چہرے یا ماسک کے ساتھ۔ مجھے یہ ماسک قبول نہیں تھا۔ میں اس نقلی چہرے کے ساتھ ایک پوری زندگی نہیں گزار سکتی تھی۔ اور اس لیے میں آزادی کی بات کرتی تھی ملیحہ اورصالحہ کو حیرت ہوتی تھی۔ آزادی ہم عورتوں کے پاس ہے کہاں ؟

میں ان باتوں کو نہیں مانتی تھی۔ مجھے حبس بھرے ماحول یا گھٹن بھری زندگی کا غلام بننا منظور نہیں تھا۔ میں جھوٹی اور نقلی مسکراہٹ کے ساتھ زندگی گزارنے کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔ اس لیے شادی کے بعد بھی میں نے اپنی آزادی میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔ اور میں جانتی تھی، میری آزادی کی روشنی کے درمیان وہ پہلے دن سے سلگتا رہا ہے۔ یہ شادی لو میرج نہیں تھی۔ اسے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ شادی سے پہلے تک کوئی ایسا لڑکا سامنے نہیں آیا جو میرے مزاج ومعیار کے مطابق ہو۔ اس لیے جب شادی کی باتیں زیادہ طول کھینچنے لگیں تو میں نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔

’جہاں مرضی۔ کردیجئے۔ وہ میرے ساتھ جی سکے گا تو یہ اس کی خوش نصیبی ہوگی۔ ‘

اماں میرے ان تیوروں سے واقف تھیں۔ وہ اکثر میری باتوں پر خاموش رہنا ہی پسند کرتی تھیں۔ ویسے بھی وہ خاموش طبیعت واقع ہوئی تھیں۔ میں ایک این جی او سے وابستہ تھی اورکاشف بینک میں اعلی عہدے پر تھے۔ کچھ ہی دن میں وہ میرے مزاج سے واقف ہوگئے۔ جبکہ شروعات میں انہوں نے دبائو بنانے کی کوشش کی تھی لیکن جلد ہی کاشف کو اس بات کا احساس ہوگیا، یہ لڑکی ٹیڑھی کھیر ہے۔ اور بہتر یہ ہے کہ بھڑ کے چھٹے میں ہاتھ نہ ڈالا جائے۔

مجھے اس بات کا احساس تھا کہ بینک ے حساب کتاب میں الجھے اس شخص کے ساتھ میری شادی نہیں سمجھوتہ ہوا ہے۔ وہ بہار کے رہنے والے تھے۔ لیکن نوکری دلی کی تھی۔ سائوتھ ایکس میں ایک چھوٹا سا فلیٹ تھا۔ مجھے اکثر اس بات کا احساس ہوتا تھا کہ دو غلط لوگوں کو ایک گھر میں اکٹھا کردیاگیا ہے۔ اور ان دولوگوں کے درمیان مزاج و معیار کی ایک دیوار حائل ہے، اس دیوار کو توڑا نہیں جاسکتا۔ میں مزاجاً صفائی پسند تھی اور اس کی طبیعت میں بکھرائو۔ اسے کافی پسند تھی۔ مجھے چائے اچھی لگتی تھی۔ وہ پیوروویجیٹیرین تھا۔ مجھے نان ویج کے بغیر کھانا اچھا نہیں لگتا تھا۔ وہ دقیانوسی واقعہ ہوا تھا اور مجھے جبراً برداشت کررہا تھا۔ میں آزاد تھی اور اپنی آزادی کے لیے کبھی ہار مونیم کبھی کتابوں کا سہارا لیتی۔ اس کے مزاج میں رومانیت یا موسیقی کو قطعی دخل نہیں تھا۔ میں اکثر سوچتی تھی۔ میں ساتھ کیوں ہوں۔ پھر خیال آتا کہ چلو… میں آزاد تو ہوں۔ میں نے دوسروں کی طرح مرد ذات کی بندشوں اورغلامی کی فضا میں سانس نہیں لے سکتی۔ اور یہ بات وہ بھی محسوس کررہاتھا۔ بلکہ پہلے دن سے ہی محسوس کرنے لگا تھا— میں اچانک محسوس کرنے لگی تھی کہ اس میں تبدیلی آرہی ہے۔ جیسے اس دن ہارمونیم کی آواز پر وہ سہما سا کمرے میں آیا اور اس نے بتایا۔

’تم واقعی اچھا بجا لیتی ہو۔ ‘

ایک دن اس نے میرے بنائے ہوئے نان ویج کی بھی تعریف کی۔ اور اس نے بتایا…

’کالج کے دنوں میں ایک بار اس نے قربانی ہوتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ اور اس کے بعد اس نے نان ویج سے توبہ کرلی۔ ‘

ایک بار تو حد ہوگئی۔ جب اس نے سرہانے سے میری کتاب اٹھا لی۔ کیا پڑھ رہی ہو… یہ قرۃ العین حیدر کا ناول چاندنی بیگم تھا۔ اس نے دو ایک صفحہ کی ورق گردانی کی۔ پھر آہستہ سے بولا۔

’میں نے نام سنا ہے۔ شاید انہیں گیان پیٹھ بھی ملا ہے۔ ‘

میں پوری طاقت سے مسکرائی تھی۔ پھر میں نے اس کی طرف دیکھا…

’کاشف۔ کیا تم بدل رہے ہو؟

’نہیں۔ ‘

’کیا تمہاری زندگی میں کوئی لڑکی آگئی ہے…‘

’نہیں۔ ‘

’آگئی ہے تو کوئی مصیبت نہیں ہے۔ انجوائے کرو۔ بلکہ میں تو کہتی ہوں …‘

میری آنکھیں اس کے چہرے پر جی ہوئی تھیں۔ وہ کھڑکی کی طرف دیکھ رہا ہے۔

’مان لو… کوئی آجاتا ہے … تو؟‘

’تو کیا… تمہاری زندگی ہے۔ اپنی زندگی پر اتنا بوجھ کیوں رکھتے ہو؟‘

’تم ایکسیپٹ کرلوگی؟‘

’کسی کو یہ سوچ کر چاہوگے کہ میں ایکسیپٹ کروں گی یا نہیں ؟‘

وہ دوسری طرف دیکھ رہاتھا۔ پھر وہ آہستہ سے بولا… ’نہیں کوئی نہیں ہے…‘ مگر میں اسے منتشر دیکھ رہی تھی۔ جسے اس نے ہارمونیم تھام لیا… موسیقی کی بھدی تان گونجی تو اس نے ہارمونیم کنارے رکھ دیا… پھر تکیہ پر سر رکھ دیا۔

’کبھی کبھی کچھ زیادہ طلب ہوتی ہے…‘

’سیکس کی؟‘

’ہاں۔ ‘

مجھے اس پر رحم آرہاتھا۔ ’یہ طلب تو فطری ہے۔ ‘

وہ چھت کی طرف دیکھ رہا تھا۔ طلب بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ مجھے ہرجگہ عورت نظر آتی ہے… جیسے یہ کتاب… چاندنی بیگم… اور وہ ہارمونیم۔ ایک لمحہ کے لیے لگا کہ وہ ہار مونیم نہیں عورت ہے… عورت کا بدن…‘

حقیقت یہ ہے کہ پہلی بار مجھے اس پر رحم آیا تھا۔ وہ مجھے کسی معصوم بلی کی طرح نظر آرہا تھا۔ جو طلب نہیں ، کسی شہنشاہ کے سامنے ایک معمولی سی فریاد لے کر کھڑا ہو… نظر جھکائے۔ مگر میرا دل کہہ رہا تھا کہ یہ دبو کس لڑکی کے پیار میں الجھ گیا ہے اور ممکن ہے اقرار کے لیے ایک شوہر ہونے کا احساس اس کے وجود پر حاوی ہو۔ یا ہوسکتا ہے، اس کے اندر ہمت کی کمی ہو۔ لیکن سچ یہ تھا کہ کاشف میں تبدیلی آرہی تھی۔ اور یہ طلب اچانک اس رات ایک دھماکہ کر گئی تھی۔ جب ہلتے ہوئے بستر کے ساتھ میں نے اچانک لائٹ آن کردیا تھا۔ میں نے اسے گھبراتے ہوئے دیکھا۔ وہ پائجامہ سمیٹ رہا تھا۔ میں زور سے چیخی۔

’تم بھیگے ہوئے ہو…‘

اس میں نظر ملانے کی ہمت نہیں تھی۔

’تم بھیگے ہوئے ہو… اورسچ یہ ہے کہ یہ میں نہیں تھی۔ ‘

’ہاں۔ ‘ وہ ابھی بھی چھت کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ایک ایسے چور کی طرح، جس کی چوری اچانک پکڑلی گئی ہو…

’تو یہ ہے تمہاری طلب؟‘

’وہ خاموش تھا۔ ‘

’کیا تم جرم محسوس کررہے ہو؟‘

’پتہ نہیں۔ ‘

’نہیں معلوم کرو۔ اگر جرم محسوس کررہے ہو تو کیوں ؟ کوئی کام جرم کے ساتھ نہیں کرنا چاہئے۔ ‘

اس بار اس نے وحشت بھری نظروں کے ساتھ میری طرف دیکھا میری آنکھیں اس پر جمی ہوئی تھی۔ مردوں کے قانون میں یہ کیسے جائز ہے کہ کسی کے ساتھ بھی—؟ اس کے اجازت کے بغیر بھی—؟ مان لو۔ یہ وہی لڑکی ہے، جس سے تم ملتے ہو۔ اگر تم اس کو پروپوز کرتے تو کیا وہ تمہاری بات مان لیتی…؟‘

’نہیں۔ ‘ وہ آہستہ سے بولا… ’پتہ نہیں۔ ‘

’تم لوگ کتنی آسانی سے یہ جرم کرلیتے ہو۔ اور کرتے چلے جاتے ہو۔ یہ محض بھیگنا نہیں ہے۔ ایک ان دیکھے تصور کا بلاتکار ہے۔ ‘

میں دیر تک بولتی رہی۔ اس درمیان اتنا ہوا۔ وہ خاموشی سے اٹھا اوراٹھ کر باتھ روم کا دروازہ بند کرلیا۔ میں نے دروازہ بند ہونے کی آواز سنی۔ اس وقت دماغ میں آندھی چل رہی تھی۔ میں جانتی تھی کہ کسی بھی مرد کے لیے یہ ایک معمولی سی بات تھی۔ پان کھایا، پیک تھوک دیا۔ اس واقعہ میں کچھ بھی نیا نہیں تھا۔ لیکن اس کے باوجود یہ واقعہ مجھے ہضم نہیں ہورہا تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ میں تیز رفتار دنیا کے جغرافیہ اور ترقی سے واقف نہیں تھی۔ یہاں کیا نہیں ہوتا۔ لیکن کاشف ایک ایسا مرد تھا، جس کے ساتھ میں سائوتھ ایکس کے اس فلیٹ میں رہ رہی تھی۔ یہ لیو ان ریلیشن شپ نہیں تھا۔ باقاعدہ شادی ہوئی تھی۔ یہ شادی سمجھوتہ سہی، مگر اس رات، اس کے بھیگنے تک کے عمل میں ایک عورت اس کے ساتھ تھی۔ اوروہ ہر رنگ میں اس کے ساتھ تھی۔

ایک لمحہ کے لیے احساس ہوا، میں قطرہ نما کمرے میں ہوں۔ چاروں طرف قطرے ہی قطرے… پانی کی بوندیں … ان پانی کی بوندوں کے درمیان میں ہوں … قطروں سے ایک عجیب سی آواز پیدا ہورہی ہے۔ ان آوازوں میں عجیب سی سسکیاں ہیں۔ اور یہ قطرے ٹھہرے ہوئے نہیں ہیں۔ یہ متواتر ہل رہے ہیں … ان قطروں نے چاروں طرف سے مجھے گھیر لیا ہے… میں تیز بدبو محسوس کررہی ہوں …

میں کانوں پر ہاتھ رکھ کر تیز آواز میں چیختی ہوں …آنکھیں کھل گئی ہیں … سامنے والی دیوار میں کائی جم گئی ہے۔ کچھ دھبے سے ابھرے ہیں۔ اندر سے آواز آتی ہے… تم پاگل ہوگئی ہو۔ کیا انسانی نفسیات کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہے، جو کاشف نے کیا ہے— تم اس دنیا میں ہو، جہاں مرد عورتوں میں ناجائز رشتوں کی ایک لمبی تاریخ رہی ہے۔ اورآج کے گھٹن آلودہ معاشرے میں ایسے رشتہ مسلسل ایک نئی تاریخ بنارہے ہیں۔ اور پھر زمانہ تو اس سے بھی برا ہے۔ مرد، مردوں سے، اور عورت ،عورت سے قریب ہوتی جارہی ہے۔ اور کاشف نے کیا ہی کیا ہے؟

میں اتنی خوفزدہ کیوں ہوں … اتنی پاگل کیوں ہوگئی ہوں … میں تو آزادی کی بات کرتی تھی۔ کیا میں اس کی آزادی پر پہرہ بٹھا رہی ہوں۔ ؟

ایک لق ودق صحرا ہے میں بھاگ رہی ہوں … مجھے اس صحرا میں نہیں رہنا… نہیں جینا مجھے۔ پر شور ہوا کی موسیقی گونج رہی ہے۔ صحرا سائیں سائیں کررہا ہے۔ میں حواس باختہ بھاگ رہی ہوں … مگر میں کس سے بھاگ رہی ہوں۔ خود سے—؟ انسانی نفسیات سے—؟ یا پھر اس الجھے الجھے رشتہ سے—؟ جس کی ایک کڑی میں ہوں۔

دھوپ چھجے تک آگئی ہے… وہ دیوار کا سہارا لیے کھڑا ہے۔ میری آنکھیں خلا میں دیکھ رہی ہیں …

کیایہ قدرتی ہے… نیچرل ہے…؟

ہاں …

کیا تم ایسا پہلے بھی کرتے رہے ہو…؟

ہاں …

کسی ایک کے ساتھ…؟ ہوا کے جھونکے اچانک سرد ہوگئے ہیں۔ میں دانتوں کو بجتے ہوئے محسوس کررہی ہوں …

نہیں۔

یعنی بہت سی عورتیں …

ہاں۔ وہ اچانک میری طرح مڑا۔ اس کا چہرہ سرخ ہے۔ جبڑے بھنچ گئے ہیں۔ وہ زور سے چیخا… بند کرو بکواس… اسے جملے نہیں مل رہے ہیں … یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے… میں کوئی پہلا مرد نہیں ہوں …‘

’لیکن یہ مرد میرے ساتھ رہتاہے۔ اور اپنی تھکن میں غیر عورتوں کو شامل کرتا رہتا ہے۔ کیا تم اس کے بعد بھی چاہتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ رہوں …؟ کیا یہ سچ مچ قدرتی ہے…؟ یہ قدرتی ہونے کا فسانہ بنا لیا ہے تم لوگوں نے—؟ اپنی تسلی کرلی ہے۔

’تمہاری مرضی، تمہیں جو سوچنا ہے سوچو… ہم شاید ایک بیکار کی بات کو طول دے رہے ہیں۔ تم شاید میرے ساتھ رہنا نہیں چاہتی۔ ‘

چھجے سے دھوپ غائب ہے۔ اب خالی چھت رہ گئی ہے… دھوپ کی جگہ بادلوں نے لے لی ہے… اب بادل بھی نہیں ہیں … وہی بہت سے قطرے۔ قطرے در قطرے… میں ایک بار پھر ان قطروں کی گرفت میں ہوں۔ میرا جسم ہلکا لگ رہا ہے… سیڑھیوں سے نیچے اتری تو اچانک چونک گئی۔ کوئی ہارمونیم بجارہا تھا۔ لیکن ہارمونیم سے بے سری موسیقی کی طرح خوبصورت نغمے گونجتے ہوئے محسوس ہوئے۔

میں کمرے میں آئی تو اچانک چونک گئی۔ وہ بستر پر تکیے کے سہارے لیٹا ہاتھوں میں ہارمونیم لیے تھا۔ چاندنی بیگم کی کتاب اس کے پاس پڑی تھی۔ اور وہ آنکھیں بند کیے ہارمونیم بجانے میں مصروف تھا…!

تبصرے بند ہیں۔