صدر مرسی کی معزولی کی تیسری برسی – سیاسی اسلام کی ناکامی؟

   ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی      

 تین سال ہوگئے، لیکن ابھی کل کی بات معلوم ہوتی ہے۔بارہ مولہ (کشمیر) سے واپسی کے لئے نماز فجر کے بعد میں اپنا سامان سمیٹ رہا تھا، کہ وہ نوجوان، جن کے ساتھ میں نے ایک ہفتہ گزارا تھا، مجھے رخصت کرنے کے لیے آگیے۔ان کے چہرے اترے ہوئے تھے، ان پر حزن و ملال کے آثار نمایاں تھے اور وہ سخت کرب میں مبتلا دکھائی دے رہے تھے۔

          بارہ مولہ کا سفر ادارہ فلاح دارین کی دعوت پر ہوا تھا۔ میں عمومی پروگراموں سے بھاگتا ہوں، لیکن برادر سہیل بشیر کار کا اصرار غالب آیا۔ وہاں میرے متعدد پروگرام ہوئے: کئی مسجدوں میں درس قرآن، سوال جواب کی نشستیں، لیکچر، خواتین اور طالبات کے درمیان مطالعہ قرآن، نظم زکوۃ کے موضوع پر ایک سمینار اور خواتین کے ایک بڑے عمومی پروگرام میں شرکت وغیرہ۔ایک دن گلمرگ کی خوب صورت وادی میں اور ایک دن سری نگر میں سیر و تفریح کا پروگرام رہا۔میں نے ان نوجوانوں کو بہت صالح، پرجوش، اسلام پر چلنے والا اور اسلام کے لیے مر مٹنے والا پایا۔

         نوجوانوں کے حزن و ملال اور کرب و اضطراب کا سبب یہ تھا کہ گزشتہ رات میں مصر میں فوجی انقلاب کے نتیجے میں جنرل سیسی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور صدر مرسی کو  برطرف کرکے پس دیوار زنداں کر دیا تھا۔

           ایک نوجوان نے سوال کیا: مولانا! یہ بحث زور پکڑ رہی ہے کہ سیاسی اسلام ناکام ہو گیا ہے۔آپ کیا کہتے ہیں؟

          میں نے کہا :موجودہ صورت حال سیاسی اسلام کی کام یابی کی دلیل ہے۔ صدر مرسی نے ایک سال کام یابی کے ساتھ حکومت چلائی ہے، عوام کی فلاح و بہبود کے بہت سے کام کیے ہیں، بین الاقوامی سطح پر اسلام کی سربلندی کے متعدد اقدامات کیے ہیں اسلام دشمنوں نے سیاسی اسلام کو کام یاب ہوتا دیکھ کر اس کے خلاف سازش کی ہےسیاسی اسلام کو اس وقت ناکام کہا جا سکتا تھا جب صدر مرسی یا ان کے کسی وزیر پر کرپشن کا الزام ہوتا، انھوں نے ملک کی دولت لوٹ کر تجوریاں بھری ہوتیں، عوام پر ظلم ڈھائے ہوتے۔یہ تو مغربی جمہوریت کی ناکامی کی دلیل ہے۔اس کے علم برداروں نے الجزائر میں اعلان کیا کہ ووٹ کی طاقت سے جو کام یاب ہوگا اسے اقتدار سونپ دیں گے، مگر جب اسلام پسندوں کو پہلے ہی مرحلے میں اکثریت مل گئی تو اقتدار پر فوج نے قبضہ کرلیا اور اسلام پسندوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی۔اسی طرح اس کے علم برداروں نے مصر میں اعلان کیا کہ بیلٹ پیپر سے جو پارٹی اکثریت حاصل کرے گی اسے اقتدار سونپ دیں گے، مگر اسلام پسندوں کو اکثریت ملی تو ان سے ہضم نہ ہو سکا، انھیں پریشان کرتے رہے، یہاں تک کہ بے دخل کرکے دم لیا۔

         ایک نوجوان نے دریافت کیا :اس کا مطلب یہ ہے کہ اب پر امن جدوجہد سے اسلامی انقلاب نہیں آ سکتا؟

          میں نے جواب دیا:میں طاقت کے استعمال کو حرام نہیں سمجھتا ، لیکن میرا خیال ہے کہ موجودہ دور میں پرامن جد و جہد ہی محفوظ ترین طریقہ ہے۔ مولانا مودودی نے فرمایا ہے کہ جس نظام کو طاقت کے ذریعے قائم کرنے کی کوشش کی جائے گی اسے طاقت کے ذریعے ہی آسانی سے ہٹایا بھی جاسکتا ہے۔

           میں ان نوجوانوں سے رخصت ہوا تو میرے ذہن میں بار بار وہ واقعہ گردش کر رہا تھا کہ مکی دور میں مشرکین مکہ کی جانب سے اذیتیں بہت بڑھ گئیں تو حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور عرض کیا :”اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم! اب تو ظلم کی حد ہوگئی ہے۔آپ ہمارے لیے دعا نہیں فرمائیں گے؟ ” اس وقت آپ کعبہ کی دیوار کے سائے میں ٹیک لگائے ہوئے  تھے۔ یہ سنتے ہی اٹھ کر بیٹھ گئے۔آپ کا چہرہ مبارک تمتما اٹھا۔آپ نے فرمایا :”تم سے پہلے جو اہل ایمان گزرے ہیں ان پر اس سے زیادہ سختیاں کی گئی ہیں۔ان میں سے کسی کو گڈھا کھود کر بٹھایا جاتا اور اس کے سر پر آرہ چلاکر اس کے دو ٹکڑے کر دیے جاتے اور کسی کے جوڑوں پر لوہے کے کنگھے گھسے جاتے تھے، تاکہ وہ ایمان سے باز آجائے، پھر بھی وہ اپنے دین سے نہ پھرتے تھے۔ یقین جانو کہ اللہ اس کام پورا کرکے رہے گا، یہاں تک کہ ایک وقت آئے گا جب ایک شخص صنعاء سے حضر موت تک بے کھٹک سفر کرے گا اور اللہ کے سوا اس کو کسی کا خوف نہ ہو گا، مگر تم لوگ جلد بازی کرتے ہو۔”(بخاری، ابوداؤد، نسائی، احمد)

             آج صدر مرسی کی معزولی کی تیسری برسی کے موقع پر میری نظروں میں بارہ مولہ کے اُن نوجوانوں کی صورتیں گھوم گئیں۔ میں نے ان نوجوانوں کی آنکھوں میں وہ چمک دیکھی ہے کہ مجھے یقین ہے کہ اگر ایسے نوجوان دنیا کے دوسرے خطوں میں بھی پیدا ہو جائیں تو اسلام کے روشن مستقبل کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔