صدقہ فطر: فضائل و احکام

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

رمضان المبارک رحمتوں، برکتوں، بے کسوں اور ناداروں کی درد وکسک اور ان کے دکھ وغم بانٹنے اور ان کی غربت اور ان کی محتاجگی کے علاج ومداواکرنے کا مہینہ، غریبو ں کی ہمدردی ومواسات، ان کی ضروریات کی تکمیل، زکاۃ، صدقات اور فطرہ وغیرہ کے وجوب کے ذریعے اللہ عزوجل نے یہ چاہا ہے کہ رمضان کی عبادتوں اور ریاضتوں میں جہاں امیر پوری خوشحالی اور فارغ البالی کے ساتھ شریک ہو ں، وہیں اس میں مہینے میں خندہ پیشانی اور خوشحالی کے ساتھ غریب بھی اس ماہِ مبارک کے حصہ دار بنے اس لئے کے لئے مختلف صدقات کی شکل میں ان کی خوشی کا سامان کیا گیا، چنانچہ صدقہ فطر کا وجوب جہاں روزہ میں ہونے والے خطا اور غلطیوں اور رمضان کی لغویات اور فضولیات کا مداوا اور علاج ہے، وہیں یہ غریب کی غربت کے خاتمہ اور محتاج کی محتاجگی کے ازالہ کا بھی ایک ذریعہ اور سبب ہے۔

اس کی وجوبیت کی وجہ کو بیان کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’ صدقہ فطر اس لئے واجب کیا گیا کہ روزے لغو اور بے حیائی کی باتوں سے پاک ہوجائیں اور مسکینوں کے لئے کھانے کا انتظام ہو ‘‘

’’ زکاۃ الفطر طھرا للصیام من اللغو، والرفث وطعمۃ للمساکین‘‘ ( ابوداؤد)

صدقہ فطر کے وجوب کی وجہ :

اس روایت سے پتہ چلا کہ صدقہ فطر کے وجوب کی دو وجہ ہیں :

۱۔ رزہ کی کوتاہیوں کی تلافی

۲۔ امت کے مسکینوں کے لئے عیدکے دن کے روزق کا انتظام کے وہ بھی عید کی خوشیوں میں اوروں کے مثل برابر کے شریک ہو ں۔

صدقۃ الفطر کی مقدار:

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے رمضان کے آخر میں لوگوں سے فرمایا: تم لوگ اپنے روزے کا صدقہ نکالو اوریہ مقدار رسول اللہ ﷺ نے کھجور ارو جو سے ایک صاع اور گندم سے آدھا صاع، ہر آزاد غلام، چھوٹے اور بڑے کی جانب سے مقرر فرمائی ہے( بخاری)  ایک دوسری روایت میں کشمش سے ایک صاع دینے کا تذکرہ بھی ہے۔

لہٰذا ان چار اشیاء سے صدقۃ الفطر دیا جائے گا، گندم، کشمش، جو، کھجور کی مقدار تفصیل درج ذیل ہے

۱۔ گیہوں :آدھا صاع = دو کلو تقریبا

۲۔ کشمش:ایک صاع =چار کلو تقریبا

۳۔ جو: ایک صاع = چار کلو تقریبا

۴۔ کھجور۔ :ایک صاع = چار کلو تقریبا

بہت سارے باحیثیت لوگ صرف گہیوں سے صدقہ فطر اد کر کے خوش ہوجاتے ہیں، صدقہ الفطر کے وجوب کا مقصد ایک تو روزہ کی حالت میں جو جھوٹ اور لغویات ہم سے سرزد ہوئیں ان کی معانی وپاکی ہے، اب اپنے لغویات کے ارتکاب کے بقدر لغویات وفضولیات کے ارتکاب کے مقدار فطرہ ادا کریں، تاکہ روزوں میں پاکیزگی بھی آئے اور غرباء کی مالی اعانت بھی ہو، اس لئے اگر آدمی کشمش یا کھجور سے صدقہ فطر ادا کرے گا تو فقراء ومساکین کی بھر پور امداد ہوگی اور اگر حیثیت والا ہونے کے باوجود صرف گندم سے ۶۰۔ ۷۰ روپیئے کی ادائیگی کرے توضرورت مندوں کی بھرپور امداد نہ ہوسکے گی۔

صدقہ فطر کس پر؟

صدقۃ الفطر واجب ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ شخص مسلمان ہو، البتہ بالغ اور صحیح العقل ہونا ضروری نہیں، نابالغ اور فاتر العقل ہو ؛ لیکن صاحب ثروت ہو تو اس کا ولی اس کے پیسوں سے اس کا صدقہ کریگا (بدائع الصنائع : ۲؍۶۹)  ہاں مالدار، مالدار ہونے کا معیار میں فقہاء کی رائیں مختلف ہیں، اکثر فقہاء کا خیال ہے کہ جس کے پاس ایک دن ورات کی خوراک کے علاوہ اتنی مقدار ہو کہ صدقہ الفطر ادا کرسکے ( المغنی : ۲؍۳۵۹) حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ جس کے پاس بنیادی ضروریات ( حوائج اصلیہ ) رہائشی مکان، سامان خورد ونوش، استعمالی کپڑے کے علاوہ کرایہ کے مکانات، زمین، رکھے ہوئے کپڑے، فاضل اجناس، سونا، چاندی یا رقم اتنی مقدار میں ہو کہ ان کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کو پہنچ جائے تو ان پر صدقۃ الفطر واجب ہوگا ( الفتاوی الہندیۃ : ۱؍۱۹۱) لبتہ صدقہ فطر کے وجوب کے لئے نصاب پر سال گذرنے کی ضرورت نہیں، زکاۃ کے ادائیگی کے لئے نصاب پر سال گذرنا ضروری ہے ( کتاب النوازل:۷؍۲۴۱)

غریب آدمی پر صدقہ فطر دینا لازم نہیں اوراگر ادا کردے تو منع نہیں ( کتاب النوزال: ۷؍۲۴۹)

فطرہ کی رقم کا مصرف:

٭صدقہ فطر کے مستحق ایسے غریب حضرات ہیں جن کو زکاۃ دی جاسکتی ہے (الدر المختار : ۳؍۳۷۹، باب صدقۃ الفطر)

٭صدقہ فطر ماں باپ، دادا، دادی، نانا، نانی اسی طرح بیٹا، بیٹی، پوتا پوتی اور نواسا نواسی کو دینا درست نہیں ہے، ایسے ہی بیوی شوہر کو اور شوہر بیوی کو اپنا صدقہ فطر نہیں دے سکتے ( تحفۃ الفقہاء : ۱ے ۳۰۰۳، با من یوضع فیہ الصدقۃ )

٭ان رشتہ داروں کے علاوہ مثلا بھائی، بہن، بھتیجا، بھتیجی، بھانجا بھانجی، چچا چچی، پھوپھا پھوپھی، خالہ خالو، ماموں، ممانی، سسر ساس، سالہ بہنوئی، سوتیلی ماں، سوتیلا باپ ان سب کو صدقہ فطر دینا درست ہے، بشرطیکہ یہ غریب اور مستحق ہو ں ( البحر الرائق: ۲؍۵۲۴، کتاب الزکاۃ، باب مصرف الزکاۃ )

ادائیگی کا وقت:

صدقۃ الفطر کی ادائیگی کا اصل وقت عید الفطر کے دن نماز عید سے پہلے، البتہ رمضان کے آخر میں کسی بھی وقت ادا کیا جاسکتا ہے ( نور الأنوار، مبحث الأمر، ۵۶) رات میں بچہ پیدا ہو تو صدقۃ الفطر ادا کرے گا، رات میں انتقال ہوگیا تو اس کی طرف سے صدقہ ادا نہیں کرے گا(بدائع الصنائع: ۲؍۷۴)   اگر عید کا دن گذر گیا اور صدقہ ادا نہیں کیا تو صدقہ معاف نہیں ہوا، زندگی میں کبھی بھی ادا کرلے، البتہ جہاں تک ممکن ہو عجلت کرے ( کتاب الفتاوی : ۳؍ ۳۵۵)

لیکن فطرہ کا مقصد اپنے غریب بھائیوں کو عید کی خوشی میں شریک کرنا ہے، یہ مقصد اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب عید سے پہلے بلکہ رمضان المبارک ہی میں فطرہ ادا کردیا جائے، اس لئے نہ صرف نماز عید ؛ بلکہ عید کے دن سے بھی پہلے صدقۃ الفطر ادا کردینا افضل ہے، اگر پہلے ادا نہ کرسکا ت تب بھی ذمہ میں واجب رہتا ہے، عید کے بعد ادا کردینا ضروری ہے ؛ البتہ ایسی صورت میں اجر کم ہوگا، جس کو حدیث مبارکہ میں یوں فرمایا: ’’ ومن أداھا بعد الصلاۃ فھی صدقۃ من الصدقات ‘‘(ابوداد : باب زکاۃ الفطر، حدیث: ۱۶۰۹)  (کتاب الفتاوی : ۳ے ۳۶۳، بحوالہ بدائع الصنائع: ۲ے ۹۱۹۹)

صدقۃ الفطر کے متفرق مسائل:

٭ اگر عورت صاحب نصاب ہو اس پر بھی صدقہ فطر واجب ہے، مگر عورت پر کسی اور کی طرف سے فطرہ نکالنا ضروری نہیں، نہ بچوں کی طرف سے، نہ ماں باپ کی طرف، نہ شوہر کی طرف سے( رد المحتار : ۳؍۳۷۰)

٭ مردوں پر جس طرح اپنی طرف سے صدقہ فطر دینا ضروری ہے، اسی طرح نابالغ اولاد کی طرف سے بھی صدقہ فطر ادا کرنا ضروری ہے، والدین، بالغ اولاد اور بیوی کی طرف سے دینا واجب نہیں ( الاختیار لتعلیل المختار، باب صدقۃ الفطر: ۱؍۱۲۳)

٭اسی طرح بہن بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں کی طرف سے ادا کرنا بھی واجب نہیں، اگرچہ وہ اس کے عیال دار میں کیوں نہ رہتے ہوں۔ ( الفتاوی الہندیۃ، باب صدقۃ الفطر: ۱؍۲۱۲)

البتہ اگر بالغ لڑکا یا لڑکی مجنون ہو تو اس کی طرف سے اس کے والد صدقہ فطر ادا کریں ( رد المحتار: ۳؍۳۶۸)

٭جس نے کسی وجہ سے رمضان کے روزے نہیں رکھے اس پر صدقہ فطر واجب ہے، اور جس نے روزے رکھے اس پر بھی واجب، دونوں میں کچھ فرق نہیں ( فتاوی رحیمیہ: ۵؍۱۷۲)

تبصرے بند ہیں۔