صدقۃ الفطر: فضائل،احکام اور مسائل!

 مولانا خواجہ فرقان قاسمی

 رمضان المبارک میں ادا کی جانے والی مالی عبادتوں میں سے ایک ’’صدقۃ الفطر‘‘ بھی ہے،اگرچہ اس کی ادائیگی کا وقت عید الفطر کی صبح سے شروع ہوتا ہے، تاہم اس مقصد سے کہ غرباء کے گھروں میں بھی عید کی رونقیں آجائیں ، اس لئے صدقۃ الفطر کو رمضان کے آخر میں ہی ادا کر دیا جاتا ہے،جو کہ صحابہ کے دور میں بھی یوں ہی ادا کیا جاتا رہا جیسا کہ بخاری کی روایت ہے:حضرات صحابہ کرام عید الفطر سے ایک یا دو دن پہلے ہی صدقۃ الفطر دے دیا کرتے تھے۔ (بخاری: حدیث نمبر: 1440)  جس کا حکم بھی یہی ہے۔ اورمسلمان صدقۃ الفطر بڑے اہتمام سے ادا بھی کرتے ہیں ۔ آئیے صدقۃ الفطر سے متعلق چند اہم باتیں ملاحظہ کرتے ہیں ۔

صدقۃ الفطر کیوں ادا کیا جاتا ہے؟

 روزہ دار چاہے کتنا ہی اہتمام کرے لیکن روزہ کے درمیان کچھ نہ کچھ کوتاہی ہو ہی جاتی ہے،اُن چیزوں سے بچنا تو آسان ہے جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے لیکن بے کار باتیں ،فضول مصروفیتیں ،اور ایسی بہت ساری چیزیں جن سے روزہ کی روحانیت متاثر ہوتی ہے ان سے مکمل احتیاط نہیں ہو پاتی ، اس لئے اس طرح کی کوتاہیوں کی تلافی کے لئے رمضان المبارک کے ختم پرصدقۃ الفطر کے نام سے ایک عبادت واجب قرار دی گئی، حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓارشاد فرماتے ہیں کہ فَرَضَ رَسُولُ اللّٰہِ زَکاَۃَ الفِطرِطُھرۃً لِلصَََّائمِ مِنَ اللََّغوِوَ الرّفَثِ وطُعْمَۃً لِلْمَسَاکِیْنِ ۔ (ابو داود : حدیث نمبر : 1609)  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کو ضروری قرار دیا جو روزہ دار کے لئے لغو اور بے حیائی کی باتوں سے پاکیزگی کا ذریعہ ہے، اور مسکینوں کے لئے کھانے کا ذریعہ ہے۔اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صدقۃ الفطر کے دو مقاصد ہیں : (1) روزہ دار کی کوتاہیوں کی تلافی۔(2)امت کے مسکینوں کے لئے عید کے دن رزق کا انتظام تا کہ وہ بھی عید کے دن لوگوں کی خوشیوں میں شریک ہوسکیں ۔

صدقۃ الفطرفرض ہے یا واجب؟

 حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص سے مروی ہے کہ آپﷺ نے مدینہ کی گلی کوچوں میں اپنے منادی کے ذریعہ اعلان کرایا کہ صدقۃ الفطرہر مسلمان پر واجب ہے،مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام، بالغ ہو یا نا بالغ۔(ترمذی : حدیث نمبر: 674،675،676)  حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے بھی روایت منقول ہے، بلکہ سعید بن مسیب ؒ اور عمر بن عبدالعزیز ؒ کہا کرتے تھے کہ آیت قرآنی قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی (سورۃ الاعلی:14) میں تزکیــ سے یہی صدقۃ الفطر مراد ہے۔چنانچہ عام فقہاء نے صدقۃ الفطر کو زکاۃ ہی کی طرح فرض قرار دیا ہے، بلکہ ابن قدامہ ؒ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے،البتہ چوں کہ اس کی فرضیت قرآن یا متواتر حدیث سے ثابت نہیں ، اس لئے احناف اس کو واجب قرار دیتے ہیں نہ کہ فرض۔غرض صدقۃ الفطر کے ضروری ہونے پر تمام ہی فقہاء و محدثین کا اتفاق ہے۔ (کتاب الفتاوی :3/353)

صدقۃ الفطر کس پر واجب ہے؟

 عاقل و بالغ مسلمان جو عید الفطر کے دن اپنی بنیادی ضروریات یعنی رہائشی مکان ،استعمال کے کپڑے،گاڑی وغیرہ کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کا مالک ہو، اس پر صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہے۔(الفتاوی الھندیۃ:۱/191،192) تَجِبُ عَلیٰ کُلِّ حُرٍّ مُسْلِمٍ ذِیْ نِصَابٍ فَاضِل عَنْ حَاجَتِہ الاَصْلِیَّۃِ۔(رد المحتار :3/313)

اولاد اور بیوی کا فطرہ کس پر واجب ہے؟

 صدقۃ الفطر اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے بھی ادا کرنا واجب ہے، اگر بچے بالغ ہوں لیکن فاتر العقل ہوں ،تو ان کی طرف سے بھی فطرہ ادا کرنا واجب ہے،اگر نابالغ بچے خود صاحبِ ثروت یعنی مالدار ہوں ، تو ولی خود اُن کے مال میں سے فطرہ ادا کرسکتا ہے، اور اگر صاحب ثروت نہ ہوں تو ولی اپنے مال میں سے ادا کرے گا۔ (الدرالمختار : 3/317)صحیح العقل بالغ لڑکے ، چاہے محتاج و اپاہج ہوں ، بے روز گار ہوں ، باپ پر ان کا صدقہ فطر نکالنا ضروری نہیں ۔ (بدائع الصنائع : 2/70) مالکیہ ، شوافع، اور حنابلہ کے یہاں شوہر کو بیوی کا صدقۃ الفطر نکالنا چاہیے،امام اعظم ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک بیویاں اپنا صدقۃ الفطر خود نکالیں گی،اس لئے کہ یہ بھی ایک طرح کی زکوۃ ہے، اور عورتوں کو خود اپنی زکوۃ ادا کرنی ہوتی ہے۔(فتح الباری:3/369) حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتھم بیوی کے صدقۃ الفطرکے سلسلہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ : میرا خیال ہے کہ ہندوستان کے موجودہ معاشرہ میں معاشی اعتبار سے زوجین جس طرح ایک دوسرے کی ا ملاک میں تصرف کرتے ہیں اس کے تحت عام طور پر دونوں کی جائداد میں کوئی تشخص اور امتیاز نہیں رہتا ، اس لئے ان حالات میں شوہروں کو بیویوں کی طرف سے بھی صدقۃ الفطر ادا کردینا چاہیے۔(کتاب الفتاوی : 3/ 357)

ایک مشہور غلط فہمی کا ازالہ:

اکثر عوام میں مشہور ہے کہ صدقہ فطر اس پر واجب ہے جس نے روزہ رکھا ہو،اور جس نے روزہ نہیں رکھااس پر صدقہ فطر نہیں ۔ یہ بے اصل اور غلط ہے،صحیح یہ ہے کہ صدقہ فطر بھی مستقل ایک عمل اور عبادت ہے،خواہ روزہ رکھے یا نہ رکھے ، ہر صورت میں صدقہ فطر ادا کرنا ضروری ہے جب کہ مالدار ہو۔(صدقہ فطر: 21)

صدقۃ الفطر کی مقدار:

حضرت ابو سعید خدری ؓ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں صدقۃ الفطرکھانے (یعنی گیہوں ) میں سے ایک صاع، جو میں سے ایک صاع،کھجور میں سے ایک صاع،پنیر میں سے ایک صاع،اور خشک انگور (کشمش) میں سے ایک صاع دیتے تھے۔(بخاری: 1435۔مسلم: 975)  اس حدیث میں جو عموم ہے اس کے تحت مالکیہ، شوافع،حنابلہ کا خیال ہے کہ گیہوں بھی ایک صاع صدقۃ الفطر ادا کیا جائیگا۔ (بدائع الصنائع : 2/ 72)  حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ گیہوں نصف (آدھا)صاع اور دوسری اشیاء ایک صاع نکالی جائیں گی، اس لئے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کی روایت میں دو مُد گیہوں کو صدقۃ الفطر قرار دیا ہے۔ ( بخاری : 1436،بدائع الصنائع : 2/ 72)اور دو مُد کا آدھا صاع ہوتا ہے ۔امام طحاوی ؒ نے بھی اسی مضمون کی حدیث نقل کی ہے کہ حضرت اسماء بنت ابو بکر ؓ فرماتی ہیں کہ ہم اللہ کے نبی کے عہد میں صدقۃ الفطر دو مُد گیہوں دیا کرتے تھے۔(طحاوی: 1/269)اورمختلف صحابہ اور تابعین کے آثار بھی اسی کے مطابق نقل کئے ہیں ۔(شرح معانی الآثار : 1/352)نصف صاع گیہوں کی مقدار حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ آج کے حساب سے تحریر فرماتے ہیں کہ کچھ ملی گرام کم ایک کلو پانچ سو نوے گرام گیہوں یا اس کی قیمت صدقۃ الفطر کے طور پر واجب ہے(کتاب الفتاوی: 3/361)

صاحب ِحیثیت لوگ توجہ فرمائیں !!

 اگر کسی کو اللہ نے وسعت دی ہو تو بہتر ہے کہ گیہوں کا بھی ایک صاع ہی دیدے،جیسا کہ حضرت علی ؓ نے جب لوگوں پر وسعت دیکھی تو اُن سے فرمایا تھا کہ : اَمَّا اِذَا وَسَّعَ اللّٰہُ فَاَوْسِعُوْ،اُعْطُوْا صَاعاً مِنْ برٍّ اَوْ غَیْرِہ ۔(نسائی : 2115) جب اللہ نے وسعت دی ہے توتم بھی وسعت کرو،لہٰذا گیہوں اور دوسری چیزوں سے ایک صاع ہی دو۔ لہٰذا صاحب حیثیت لوگوں کو اللہ کی راہ میں خوب خرچ کرتے ہوئے یہ بھی سمجھنا چاہئیے کہ اس میں ایک طرف اگر دینے والے کی صلاح و فلاح میں اضافہ،اور آخرت کے لحاظ سے بلندی ہے تو دوسری طرف لینے والے فقراء کا بھی دنیوی اعتبار سے زیادہ فائدہ اور ان کے مسائل کا حل ہے۔(صدقئہ فطر : 28)

صدقۃ الفطر کے مصارف:

 صدقہ فطر اُن لوگوں کو دینا چائیے جن کو زکاۃ دی جاتی ہے، چنانچہ فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ : صَدْقَۃُ الْفِطْرِ کاَ الزَّکاَۃِ فِیْ الْمَصَارِفِ۔(الدر المختار: 2/369) گھرمیں کام کرنے والے خادم اور خادمائیں اگر اپنے فقر و احتیاج کے اعتبار سے مستحق ہوں تواُن کو بھی فطرہ دیا جاسکتا ہے،بلکہ ممکن ہے کہ اس میں زیادہ اجر ہو،زکوۃاور صدقۃ الفطرکے مصرف میں صرف یہ فرق ہے کہ زکوۃ صرف مسلمانوں کو ہی دی جا سکتی ہے،غیر مسلم کو نہیں ،اور صدقۃ الفطر غیر مسلم کو بھی دیا جا سکتا ہے۔(الدر المختار: 3/ 325)

کیا ایک صدقہ فطر متعدد فقیروں کو دیا جاسکتا ہے؟

 ایک آدمی اپنا مکمل صدقہ فطر ایک ضرورت مند شخص کو دیدے،یہ صورت بالاتفاق درست ہے،اور اگر ایک صدقہ فطر ایک سے زیادہ لوگوں پر تقسیم کردے ، اس سلسلہ میں اختلاف ہے۔بعض فقہاء نے اسے اس کو نا درست قرار دیا ہے،لیکن اکثر فقہاء کے نزدیک یہ صورت بھی درست ہے۔(الدر المختار: 3/323) لیکن احتیاط بہرحال اسی میں ہے کہ ضرورت مند کو کم از کم پورہ ایک فطرہ دیا جائے،تاکہ وہ دوسروں کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے بچ سکے،یہ اس حدیث کے بھی مطابق ہے جس میں حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے مر وی ہے کہ : فقراء کو اس دن مختلف دروازے جانے سے بچاؤ۔(بیہقی: 4/ 292)

غیر ملک میں مقیم شخص کا صدقہ فطر کس حساب سے نکالے؟

 اگر کوئی غیر ملکی شخص مثلاً ہندوستان میں اپنا صدقہ فطر ادا کرنا چاہے تو اسے ہندوستان نہیں بلکہ اپنے ملک کی قیمت کا اعتبار کرنا ہوگا،(مثلاً ہندوستان کا کوئی شخص ملازمت کے لئے دوسرے ملک گیا ہوا ہے اور وہ وہاں سے اپنے گھر والوں کوہندوستان میں صدقہ فظر ادا کرنے کو کہتا ہے تووہ جس ملک میں مقیم ہے اور وہاں نصف صاع گیہوں کی جو قیمت بنتی ہے اسی اعتبار سے اس کی طرف سے صدقہ فطرنکالا جائیگا، ہندوستان کی قیمت کا اعتبار نہ ہوگا) (الدر المنقی : 1/226)

تبصرے بند ہیں۔