ماہِ رمضان اور افطار پارٹیاں!

عبدالرشید طلحہ نعمانی ؔ

ہلالِ رمضان اپنے ساتھ رحمتوں کی بارات اوربرکتوں کی سوغات  لےکرطلوع ہوتاہے،ہر طرف نور ہی نوراورفضاؤوں میں عجیب سا کیف وسرورنظر آتا ہے؛ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یکایک سب کچھ بدل گیا،چشم زد ن میں کوئی انقلاب برپاہوگیا، ہرآن ملائکہ کا نزول، عاصیوں کے لئے غفران وقبول، آسمانوں سے انعامات کی بارشیں ، زمین پر ہر لمحہ نوازشیں ، نیکو کاروں کے لئے بلندیٔ درجات کی بشارتیں ، دعاؤوں کی قبولیت بھری ساعتیں ، تراویح اورتہجد کی حلاوتیں ،سحری کے ایمان افروز لمحات، افطار کی بابرکت گھڑیاں ، تلاوت قرآن کی چاشنی،روزہ داروں کے بارونق چہرے،مساجد میں مسلمانوں کا جم غفیر، صدقات و خیرات کے ذریعہ غرباء کی امداد،اعمال کے اجروثواب میں اضافہ و ازدیاد۔

غرض:  ایک ماحول ہوتاہے ؛جس میں ہرکوئی نیکیاں کمانے ،خیرات اور بھلائی کے کاموں میں سبقت لےجانے اورخوشنودی ٔ رب حاصل کرنے کی دھن میں ہوتاہے۔

ان ہی نیک کاموں اور امور خیر میں روزہ افطار کرانے کا بابرکت عمل بھی نہایت اہمیت کاحامل ہے ،جس کی  بڑی فضیلت کتب احادیث میں وارد ہوئی ہے؛جیساکہ آپ ﷺکا ارشاد ہے: ’’جس شخص نے کسی روزہ دارکو افطارکروایاتواس شخص کوبھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا ثواب روزہ دار کے لئے ہوگا،اورروزہ دارکے اپنے ثواب میں سے کچھ بھی کمی نہیں کی جائے گی۔(ترمذی)

ایک اور روایت میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سوال کا جواب دیتےہوئےنبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا: جس میں خوشخبری ہے ان غریب مسلمانوں کے لئے جو کہ جوباضابطہ افطاری کااہتمام نہیں کرسکتے۔ وہ مایوس نہ ہوں اللہ پاک کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ۔جوشخص، ایک گھونٹ دودھ، ایک کھجوریاایک گھونٹ پانی سے روزہ دارکاروزہ افطارکرادے تویہ بھی اس کی مغفرت اوردوزخ سے آزادی کاسامان بن جائے گااوراس کوبھی اتناہی ثواب ملے گاجتناروزہ دارکوملے گا؛مگرروزہ دارکے ثواب میں کچھ کمی نہ ہوگی۔(ابن خزیمہ)

آپ ﷺ کے ان ارشادات مبارکہ میں شک وتردد کی ادنی گنجائش نہیں ،واقعتایہ نہایت مہتم بالشان عمل ہےجس سے مجال انکار نہیں ؛لیکن بات یہاں صرف کسی روزےدار کو افطار کروانے ،دن بھرکےبھوکے پیاسےکو چندلقمےدینے اورقدرےاہتمام کے ساتھ کسی کی ضیافت کردینے کی نہیں  ہے  ؛بل کہ زیر نظر تحریر کا مقصد ‘‘مروجہ افطار پارٹیاں اوراس میں ہونے والی مختلف بے اعتدالیاں ’’ ہے؛جس عمل کو اللہ کے نبی ﷺنے باعث اجر وثواب قرار دیا اب اس سے عبادت کا تصور عنقاء ہوتا جارہا ہے،افطار پارٹی رفتہ رفتہ ایک رسم ِبد کی شکل اختیار کرچکی ہے اور ہرجگہ  فیشن  کے طور پر اس کو منعقدکرنے کا رواج عام ہوتاجارہاہے ۔

آئیےقرآن و سنت کی روشنی  میں مروجہ افطار پارٹیوں کاجائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ نیکی اورخیر کے نام پرکیاجانے والا یہ عمل کن کن منکرات ومحرمات پرمشتمل ہے۔

شہرت اورنام ونمود:

ریاکاری اور دکھلاوا  افطار پارٹی کا اہم محرک اورسستی شہرت حاصل کرنے کا سب سےموثر ذریعہ ہے ؛جب کہ اللہ کے بنی ﷺ نے اس کو شرک سے تعبیرکیا ہے،ہمارا ماننا ہے کہ خلوص نیت کے ساتھ کیا جانے والا چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی بارگاہ الٰہی میں بڑی قدروقیمت رکھتا ہےاور عدم اخلاص ،شہرت اور ریاکاری پر مبنی بڑے سے بڑا عمل بھی اللہ کے ہاں کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے،ریاکاری انسان کے اعمال کو دنیا میں تباہ کر دیتی ہے۔نبی کریم ﷺکے فرمان کے مطابق قیامت والے دن سب سے پہلے جن تین لوگوں کو جہنم میں پھینکا جائے گا وہ ریا کار عالم دین ،ریاکار سخی اور ریا کار مجاہد ہوں گے،جو اپنے اعمال کی فضیلت اور بلندی کے باوجود ریاکاری کی وجہ سے سب سے پہلے جہنم میں جائیں گے۔(ترمذی)

دوسروں کو تکلیف پہونچانا:

افطار پارٹی کا ایک اورمنکرایذاءرسانی اوردوسروں کو تکلیف دیناہے  چناں چہ جگہ جگہ راہیں مسدود کرنا ، خیمے لگانااور ٹرافک جام کرناتو بازاری افطار پارٹی کا اہم حصہ ہے خواہ آنے جانے والوں کو کتنی ہی تکلیف کیوں نہ ہو،مذہب اسلام کی کردار کشی کیوں نہ ہو ،قوانین کی کتنی مخالفت کیوں نہ ہو ؟؟ شریعت مطہرہ نے دوسرے انسان کو اذیت اور تکلیف دینے کو ممنوع قرار دیا ۔ آپ صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے: مسلمان وہ ہے، جس کی زبان او رہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور حدیث میں ”المسلمون“ کا ذکر ہے، یہ اس لیے ہے  چوں کہ مسلمان کا واسطہ زیادہ تر مسلمانوں ہی سے ہوتا ہے، شب وروز اس کا اختلاط اور ملنا جلنا مسلمانوں کے ساتھ رہتا ہے، اس بناء پر ”المسلمون“ کی قید ذکر کی گئی، وگرنہ ذمی کافر کو بھی تکلیف دینا جائز نہیں ۔(فتح الباری، کتاب الإیمان، باب المسلم من سلم)

بلکہ شریعت نے تو ایسے موقع پر اور ایسے طریقے سے الله تعالیٰ کی نفل عبادت کو بھی ممنوع قرار دیا ہے، جہاں پر او رجس طریقے سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہو ، مثلاً قرآن کی تلاوت کرنا عبادت اور بہت بڑے ثواب کا کام ہے، لیکن اگر کوئی شخص ایسی جگہ پر جہاں سب لوگ سور ہے ہوں ، بلند آواز سے تلاوت کرتا ہے، تو شریعت کی طرف سے اس طرح تلاوت کرنے کی اجازت نہیں ، بلکہ اگر کوئی شخص اس طرح کرے تو یہ شخص گناہ گار ہو گا۔

رزق کی بےحرمتی:

افطار پارٹی کا وہ منظر بھی نہایت قابل دید ہوتا ہے جب کھانا تقسیم ہوتاہے ، اچھے خاصے متمول احباب بھی کھانے پر یوں ٹوٹ پڑتے ہیں جیسے کئی دن کےبھوکے ہوں ،ایک ایک شخص کئی کئی افراد کا کھانا پلیٹ میں جمع کرنا شروع کر دیتا ہے  اور پھر کھانے کے بعد کا منظر یہ ہوتا ہے کہ ایک ایک دستر پر کئی کئی افراد کا کھانا بچا ہوا ہوتا ہے بلکہ بہت سی پلیٹوں کو دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ ان کو تو ہاتھ بھی نہیں لگایا گیا ؛اس طرح یہ صورتحال رزق کی بربادی کا سبب بنتی ہے ؛جب کہ اللہ پاک کا ارشاد ہے: کھاؤ ، پیؤاورحد سے مت بڑھو بے شک اللہ تعالی حد سے بڑھنے والےکو پسند نہیں فرماتے ۔(الاعراف)

اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ پاک فرماتے ہٰیں :گر تم قدردانی کروگے اور شکرگزاری سےکام لوگےتوہم نعمتوں میں اضافہ کریں گے اور اگر تم ناقدری کروگے تو یاد رکھو ہمارا عذاب بڑا سخت ہے ۔(ابراہیم)

اسی طرح نبی کریمﷺنے فرمایا :روٹی (رزق)کااحترام کرو (بیہقی)۔ان سب تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں رزق کی بے حرمتی کتنا بڑا جرم ہے اور اس سلسلے میں بےتوجہی نعمتوں کے چھن جانے کاسبب ہے ، ضرورت ہے کہ ہم اپنے طرز عمل کو بدلنے کی کوشش کریں !

اسراف اور فضول خرچی:

افطار پارٹیوں اور بالخصوص سیاسی افطارپارٹیوں میں کھانے کے تنوع ،بےجا آرائش وزیبائش اور نت نئے طریقوں سےجو بے دریغ مال خرچ کیاجاتاہے اس کی بھی ایک طویل فہرست ہے۔حالاں کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :اور (اپنا مال) فضول خرچی سے مت اڑاؤ، بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں ، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے ۔( بنی اسرائيل)ایک اورمقام پر ارشادربانی ہے: بیشک اسراف کرنے والے جہنمی ہیں (غافر)

افطار پارٹیوں سے متعلق ان موٹی موٹی بے اعتدالیوں کے علاوہ فرائض میں کوتاہی ،عبادات کے خشوع میں کمی ،سنن و آداب میں بےتوجہی وغیرہ پر مشتمل ایک پورا دفتر ہے ؛جن کو اس مختصر تحریرمیں نہیں لایا جاسکتا ۔

سیاسی افطار پارٹیاں :

عام افطار پارٹیوں کا حال زار اور اس میں ہونے والی چنددرچند بےاعتدالیاں آپ کے سامنے آئیں ؛مگر افطارپارٹی کےنام پرسیاست کے تماشےبھی آمدرمضان سےشروع ہوکر آخرتک جاری رہتےہیں ؛بل کہ اخیر میں مزید اضافہ ہوجاتاہے ۔

افطارکی دعوت توروزےداروں کےلئےمخصوص ہے؛لیکن یہاں اس کے برعکس منظرنظرآتاہے۔سرمایہ داروں کےبالمقابل سیاست دانوں کی طرف سے دی جانےوالی دعوت میں روزہ دارتوگنتی کےچندایک نظرآتےہیں ؛جن کی شرکت ضرورتاًیامصلحتاًہوتی ہے؛لیکن اس کےبرخلاف غیرروزےداروں کی تعداد بے شمارہوتی ہے۔

جس کاسیاسی قدجس قدربڑاہوتاہے اس میں شرکاء کی تعداداتنی ہی زیادہ ہوتی ہے، وی آئی پی حضرات کی شرکت اورسیاست کاتناسب بھی اسی مناسبت سےہوتاہے۔

آج تک ایسی کوئی سیاسی یاغیرسیاسی افطار پارٹی نہیں دیکھی گئی جہاں افطار کے وقت ہنگامہ برپا نہ ہوا ہو، افرا تفری کا ماحول نہ بناہو،عین دعاءکے وقت غفلت وبےتوجہی نہ برتی گئی ہو ۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہےکہ سیاسی لیڈروں اورافسروں کے افطار کرانے سے روزے اور افطار کا استحصال ہوتاہے،روزہ اور افطار دونوں کی روحانیت کمزور پڑتی ہے ،اور عبادت ایک کھیل تماشہ بن کر رہ جاتی ہے۔علاوہ ازیں سیاسی افطار پارٹی مکمل دکھاوااور رسم بدہے؛ جو حالیہ چندبرسوں سے مسلم معاشرہ میں چل پڑی ہے ، بعض بعض جگہ تومکروہات و محرمات کابےدریغ ارتکاب کیاجاتاہے،فرائض کی پامالی ہوتی ہے،احکام خداوندی کی توہین کی جاتی ہے اور سنتوں کا تو جنازہ نکالاجاتاہے۔

 نہ کسی کو اذان کی آواز کا پتہ ہوتا ہے نہ افطار کی دعا پڑھنے کا ہوش،نہ نماز مغرب کی فکر ہوتی ہے نہ آداب طعام کا پاس ۔بس کسی نہ کسی صاحب حیثیت شخص سے ملنےاور اس سے تعارف کرانے کی بے تابی اورخود کو ان کی نظروں میں لانے کی جی توڑ کوشش ہوتی ہے۔

جہاں تک روزےداروں کی بات ہےتو اس طرح کی محفلوں میں ان کا خیال کسے ہوتاہےاورانہیں کون خاطرمیں لاتاہے،زیادہ ترمواقع پرافطارکے لئے وقت کابھی خیال رکھنے میں احتیاط سے کام لینے کی ضرورت نہیں رہتی ۔

مختصر یہ کہ افطار پارٹیوں کو قومی یکجہتی کا ذریعہ سمجھ لینا غلط ہے، قومی یکجہتی عبادتوں میں شریک کر کے نہیں ہوسکتی ہے ، عبادت کی بنیاد یقین پر ہے ، سیاست پر نہیں ، اگر کوئی غیرمسلم مسجد میں نماز پڑھنے لگے اور مسلمان چرچ میں پہونچ کرعیسائیوں کاطریقہ اپنائے، تو یہ سراسربے یقینی اوربے ایمانی ہے۔

کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں

ہزاروں ہی قصے ہیں کیا کیا بتاؤں

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔