رمضان: لوہے کو سونا بنانے کا مہینہ!

حفیظ نعمانی

برسوں پرانی بات ہے کہ ہمیں ایک رمضان میں سنبھل جانا پڑا رات کو مشکل سے دو بجے ہوں گے کہ لائوڈ اسپیکر کی آواز سے آنکھ کھل گئی۔ جس مکان میں ہم سو رہے تھے اس کے شمال میں ایک مسجد تھی اور دوسری جنوب میں تھی۔ چند منٹ کے بعد دوسری مسجد کا لائوڈ اسپیکر بھی کھل گیا۔ اتفاق سے ایک مسجد دیوبندی خیال اور دوسری بریلوی خیال کے لوگوں کی تھی۔ لائوڈ اسپیکر میں ایک تقریر کا کیسٹ لگا دیا گیا۔ دوسری مسجد سے نعت میں جواب دیا جانے لگا۔ ہم نے اپنے عزیز سے معلوم کیا کہ یہ سلسلہ کتنی دیر رہے گا؟ انہوں نے فرمایا کہ اب تو فجر کی نماز شروع ہونے کے بعد ہی بند ہوگا۔ اس زمانہ میں ہم لکھنؤ میں باغ گونگے نواب میں رہتے تھے جہاں مسجد سودا گران سے اس وقت اذان کی آواز آتی تھی جب پروا ہوا چلتی تھی۔ سحری میں ضرور دو تین بار کہا جاتا تھا کہ اب 20  منٹ رہ گئے ہیں اور ایک آواز کہ بس اب پانچ منٹ رہ گئے ہیں اور پھر دس منٹ کے بعد اذان کی آواز آتی تھی۔

لیکن ہمارے محلہ میں تو اس لئے نہیں کہ وہاں اصل آبادی پاکستان سے آئے ہوئے پنجابیوں اور سندھیوں کی تھی۔ لیکن دوسرے محلوں کے بارے خبریں سنتے تھے کہ مسلم آبادی کے محلوں میں کسی خوش گلو شاعر کے ساتھ لڑکوں کی ٹولی سحری جگاتے پھرتے تھے اور اس نے وباء کی شکل اختیار کرلی تھی۔ یاد آتا ہے کہ ابتدا تو دل لکھنوی نے کی تھی جو بلند آواز خوش گلو خوبصورت اور خود شاعر تھے انہوں نے نعت شریف کے انداز میں سحری کے ذکر کے شعر کہے تھے اور انہیں فلمی گانوں کی دُھن میں گایا جاتا تھا۔ ان کو دیکھ دوسرے محلوں میں حیثیت والے لوگوں نے انہیں دعوت دینا شروع کردی اور وہ جب گاتے بجاتے ان کے گھر پہونچے تو ایک گھنٹہ تک ان کے دولت خانہ پر سحری گانے بجانے کا جشن ہوا اور ان سب کی سیوئیں اور دوسرے کھانوں سے تواضع کی گئی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان ٹولیوں کے لڑکوں نے ہی بتایا کہ ان میں  روزہ کوئی نہیں رکھتا تھا۔ گھر جاکر سوجاتے تھے اور دن بھر پڑے سوتے رہتے تھے۔

یہ موضوع آج اس لئے چھیڑا کہ 28  مارچ کو بارہ سال کے بعد ہم سنبھل گئے تھے۔ سنبھل دیکھ کر پہچاننا مشکل ہورہا تھا یہ وہی سنبھل ہے۔ ایک بار ہمارے اس وقت کے دوست سلامت علی مہدی ایک تقریب میں سنبھل گئے تھے۔ واپس آکر دوستوں کی محفل میں انہوں نے بتایا کہ میں جب بس سے اُترا تو سنبھل کی سڑک دیکھ کر دنگ رہ گیا وہ ایسی تھی کہ پیرس کی سڑک معلوم ہوتی تھی پھر جب رکشہ بڑھا تو وہ کالی سڑک کالے بادل کی طرح اُڑ گئی معلوم یہ ہوا کہ سڑک نہیں مکھیاں تھیں جن پر ڈالر کا شبہ ہورہا تھا۔ وہ سنبھل اب نفاست کا نمونہ ہے عالیشان مسجدیں ہر طرف شاندار مکان نہایت معیاری سڑک اور گلیاں کہ میری وہیل چیئر ایک گھر سے دوسرے گھر ایسے چل رہی تھی کہ محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ اپنے گھر میں نہیں ہے جہاں ہر طرف سنگ مرمر کا فرش ہے۔ ہماری گاڑی تین بجے گھر پہونچ گئی تھی۔ شام کو دادا ابا مرحوم کے پھاٹک میں محفل جمی تھی کہ مغرب کی اذانیں ہوئیں ۔ اللہ معاف کرے درجنوں مسجدوں میں بیک وقت لائوڈ اسپیکر چیخے تو ایسا محسوس ہوا جیسے سارا محلہ چیخ پڑا۔ میرا چہرہ سوالیہ نشان بن گیا؟ تو میرے چچا زاد حکیم میاں نے بتایا کہ ہمارے خاندان کے زیرانتظام دو مسجدیں ہیں ان آوازوں میں صرف ان کی آواز نہیں ہے وہ صرف جمعہ کو اذان کے وقت اور خطبہ و نماز کے یا تقریروں کے لئے ہیں ۔

ہم نے برسوں پرانی بات کہ سحری میں کیا ہوتا ہے؟ اس کا جواب یہ ملا کہ ماشاء اللہ اس کا شور اب اس وقت سے اس لئے چار گنا ہوگیا ہے کہ ہر مسجد میں ایک سے بڑھ کر ایک مائیک آگیا ہے۔ اس وقت جون پور کا ایک مراسلہ سامنے ہے۔ اس میں یہی شکایت کی گئی ہے کہ سحری کے وقت شروع ہونے سے ختم ہونے تک مسجد کا لائوڈ اسپیکر کھلا رہتا ہے کوئی تقریر کوئی نعت کا کیسٹ اور محلہ میں وہ شاعر جو نعتیہ مشاعروں میں نہیں بلائے جاتے وہ سب نئی نعتیں گاتے ہیں اور ہر دس منٹ کے بعد وقت بتایا جاتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوا کہ جہالت جو 25  برس پہلے تھی اس میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ اور مذہب سے دوری اتنی بڑھ گئی ہے کہ اگر کوئی عقل کی بات بتائے تو اسے ماننے کے لئے کوئی تیار نہیں ۔ اس میں سب سے نازک بات یہ ہے کہ ایسی آبادیاں بہت کم ہیں کہ جہاں مسلمان ہوں وہاں ہندو نہ ہوں ۔ کہیں ہندو زیادہ مسلمان کم کہیں  مسلمان زیادہ ہندو کم سحری کے نام پر ہونے والی جہالت کو مسلمان یہ سوچ کر برداشت کرلیں کہ مسجد میں ہورہا ہے اور مسلمان کررہے ہیں لیکن ہندو کیوں برداشت کریں ؟ ان ہی حرکتو ں پر جب شکایت ہوتی ہے اور پولیس آکر لائوڈ اسپیکر اُتروا دیتی ہے تو اسلام خطرہ میں اور مسلمانوں کے ساتھ تعصب کا نعرہ بلند ہوتا ہے۔

ہم اپنے ہندو دوستوں کے سامنے اسلام کی کسی بات میں شرمندہ نہیں ہوئے ہر مسئلہ میں وہ نکاح ہو، طلاق ہو، یا قربانی ہو ہر معاملے میں انہیں چت کردیتے تھے لیکن جب جس نے صبح کی خاص نیند کے وقت مسجد سے ہونے والے شور کی بات آئی تو ہم یہ کہہ کر نہیں بچ سکے کہ وہ جاہل مسلمان ہیں ۔ ہمیں  جواب ملتا تھا کہ ہمیں تو مسلمان جاہل اور فاضل آپ کا معاملہ ہے ہمارا نہیں ۔ ہماری نیند کیوں خراب کرتے ہیں ؟ گھر میں عورتیں اور بچے بھی اُٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں ۔

اگر ہوسکے تو ملک سے نکلنے والے ہر اخبار میں اس کی مخالفت میں لکھا جائے ذمہ دار حضرات کو توجہ دلائی جائے سحری کے لئے جلد اٹھنا تو اس لئے ہے کہ تہجد کی بارہ رکعتیں پڑھی جائیں جو حضور اکرمؐ نے اپنی نبوت کے بعد حیاتِ مبارکہ میں بھی قضاء نہیں کیں اور ان کو محدثین نے صلوٰۃ اللیل میں لکھا ہے۔ حضور اکرمؐ عشاء کے وِتر ہمیشہ تہجد کی بارہ رکعتوں کے بعد پڑھتے تھے۔ یہ بارہ اکثر اور زیادہ تر ہیں راویوں نے یہ بھی کہا ہے کہ کبھی کبھی آٹھ اور کبھی چھ رکعتیں پڑھ کر وِتر پڑھتے تھے۔ اگر مسجد میں مولوی کی تقریر اور شاعروں کی نعتیں پڑھی جائے گی تو تہجد یا صلوٰۃ اللیل مسجد کیسے پڑھ سکے گا کوئی؟

رمضان المبارک میں حضور سول اکرمؐ عشاء کے بعد جو نفل پڑھتے تھے وہ اختلاف کے ساتھ 20- 12- 5 اور 8 ہیں اور ان کو تراویح نہیں کہا جاتا تھا بلکہ قیام اللیل کہا جاتا تھا۔ بالکل شروع میں جماعت بھی نہیں ہوتی تھی۔ اکثر ایسا ہوا کہ آقائے نامدارؐ نے نفل کی نیت باندھی صحابہ کرام نے آپؐ کے پیچھے کھڑے ہوکر نفل کی نیت باندھی کہ حضور اکرمؐ نے اچانک ناغہ فرمایا اور فرض پڑھاکر دولت خانہ میں تشریف لے گئے دوسرے دن صحابہؓ نے معلوم کیا تو فرمایا کہ مجھے خیال آیا کہ اگر میں روز پڑھوں تو پروردگار فرض نہ قرار دے دیں پھر میری اُمت اگر نبھا نہ پائی تو؟

ہر مسجد میں تراویح تو اتنے شوق سے پڑھی جاتی ہے کہ فرض اور واجب بھی نہیں اور تہجد جس کے بارے میں ہم نے نہیں پڑھا کہ آپؐ ناغہ بھی کردیتے تھے اس کے وقت میں مسجد میں گانا بجانا ہوتا ہے یہ کتنے شرم کی بات ہے ہم نے اپنے بزرگوں کو دیکھا ہے کہ وہ جلدی اٹھتے تھے گھر میں خواتین کھانے کی تیاری کرتی تھیں اور بڑے تہجد کے لئے کھڑے ہوجاتے تھے۔ جب پانچ منٹ رہ جاتے تھے تو جلدی جلدی جو ہوسکا منھ میں ڈال لیا۔ جس سے معلوم ہوتا تھا کہ سحری میں اصل چیز نماز ہے کھانا تو بس اتنا ہے کہ سُنت بھی ادا ہوجائے اور دن میں کمزوری نہ محسوس ہو۔ ہر جگہ یہ پیغام جانا چاہئے کہ رمضان جس میں ہر نیکی کا ثواب 70  گنا ہے اسے برباد نہ کرو۔ رمضان کے بارے میں ہر عبادت لوہے کو سونا بنانے کی ہے۔ ہم بدنصیب سونے کو لوہا بنا رہے ہیں ۔

تبصرے بند ہیں۔