صغیر افراہیم کے فن کا جزیرہ

یہ ڈاکٹر صغیر افراہیم کے افسانوں  کی کائنات ہے جو اُن کے مزاج کے مطابق معصوم اور نہایت شریفانہ ہے۔

نورالحسنین

(اورنگ آباد، دکن)

 میں ’’ کڑی دھوپ کا  سفر‘‘  طئے کر رہا تھا اور میرے ساتھ ایک ایسا افسانہ نگار تھا جو مجھ سے گھر کی چہار دیواروں  کے اندر کی باتیں  کر رہا تھا۔ جو انسانی روئیوں  کی پرتیں  کھول رہا تھا۔ زندگی کے سکھ دکھ کی باتیں  کر رہا تھا، احباب و عزیزوں  کے کھٹے میٹھے قصے سُنا رہا تھا اور میں  نہایت دلچسپی کے ساتھ اُس کی باتیں  سنتا جا رہا تھا اور مجھے محسوس ہو رہا تھا جیسے میں  بھی اپنے خاندان اور دوست احباب سے جُڑ رہا ہوں ،  جیسے میرے اندر بھی وہی سب باتیں  روشن ہو رہی ہیں ۔ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں ، آپسی رفاقتیں  اور رقابتیں،  وہ رنجشیں  جو بظاہر کوئی نقصان نہیں  پہنچاتیں  لیکن ایک فاصلہ ضرور پیدا کردیتی ہیں  اور پھر یہ رنجشیں  جو برسوں  کا فاصلہ طئے کرتی ہیں  کسی پل  ایسے ختم ہوجاتی ہیں  گویا ان کا وجود پہلے کبھی تھا ہی نہیں۔

            یہ ڈاکٹر صغیر افراہیم کے افسانوں  کی کائنات ہے جو اُن کے مزاج کے مطابق معصوم اور نہایت شریفانہ ہے۔ ان افسانوں  کے لفظ لفظ سے انسان اور انسانیت کی خوشبو پھوٹتی ہے۔ پروفیسر صغیر افراہیم کو افسانہ لکھنے کے لیے  دکن کے ممتاز افسانہ نگار رفعت نواز کی طر ح کسی بہت بڑے موضوع کی ضرورت کبھی محسوس نہیں  ہوتی،  وہ گھر کی چاردیواری میں  آباد ماں  باپ، میاں  بیوی،  بہن بھائی کی مدد سے اپنے افسانوں  کے پلاٹ تیار کرتے ہیں  اور زندگی کی اُن سچائیوں  کو پیش کرکے چونکاتے ہیں  جس کے کردار ہم خود ہیں  لیکن ہم نے کبھی اپنے ان روئیوں  کی طرف دیکھا ہی نہیں،  محسوس ہی نہیں  کیا۔ اسی لیے میں  ان افسانوں  کے بارے میں  کہتا ہوں  کہ ان کا موسم صدا بہار ہے۔ جب تک اس زمین پر انسانی رشتے آباد ہیں  یہ افسانے بھی اسی طرح آباد رہیں  گے۔  لیکن دوسری طرف یہی صغیر افراہیم جب ہاتھوں  میں  تنقید کا قلم تھامتے ہیں  تو وہ فن کے اُس پارکھ کے روپ میں  سامنے آتے ہیں   جو اپنے پیش رو ناقدین کی آراء سے اختلاف کرنے اور دلیل کے ساتھ اپنی بات رکھنے میں  کوئی جھجھک محسوس نہیں  کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ اُردو  تنقید میں  جو چند نئے نام اُبھرے ہیں  اُن میں  اعتبار و اعتماد کا سہرا صغیر افراہیم کے سر بندھتا ہے۔ جب تک میں  نے اُن کے افسانے نہیں  پڑھے تھے میں  اُن کی ناقدانہ بصیرتوں  کا قائل ہی نہیں  مدح بھی تھا اور ہوں،  اُنھوں  نے خصوصاً فکشن کے حوالے سے جتنے بھی مضامین لکھے ہیں  اُن پیمانوں  کو نہیں  اپنایا جو اُن سے پہلے لکھے جا چکے تھے بلکہ اُنھوں  نے فکشن کے اُسی سمندر سے اپنی فکر  کے نئے جزیرے دریافت کیے ہیں ۔ بات افسانے کی ہو یا ناول کی،بطور مثال میں  کہہ سکتا ہوں  کہ اُن کے وہ مضامین جو کرشن چندر کے ناول’’ شکست ‘‘ یا  عزیز احمد کے ناول ’’ ایسی بلندی ایسی پستی ‘‘ پرموجود ہیں ۔ ان کا مطالعہ ثابت کرتا ہے کہ صغیر افراہیم نے اپنے پیش رو ناقدین سے صرف اختلاف ہی نہیں  کیا بلکہ اپنی دلیلوں  سے وہ بات کہی ہے جو ناول کے ظاہر سے زیادہ اُس کے باطن یا زیریں  لہروں  میں  موجود ہے-

  غالباًصغیر افراہیم کا پہلا افسانہ ’’ ننگا بادشاہ ‘‘ ہے۔ یہ ایک کرداری افسانہ ہے۔ اس کا علامتی اسلوب اس قدر مکمل ہے کہ اُنھوں  نے کچھ نہ کہتے ہوئے بھی سب کچھ کہہ دیا۔ اس کامیاب افسانے کے باوجود ممتاز فکشن نگار ڈاکٹر قاضی عبدالستار  نے اُنھیں  افسانوں  کے بجائے تنقید کا راستہ کیوں  دکھایا تھا سمجھ میں  نہیں  آتا ؟  کاش و ہ اُنھیں  افسانے ہی سے جُڑا رہنے دیتے،  تنقید تو وہ ویسے بھی لکھتے کہ  با صلاحیت ذہن کے لیے کوئی  بھی چیز مشکل نہیں  ہوتی۔

      تنقید نگاری کے اس دبیز اوزون کے نیچے صغیر افراہیم کی آباد افسانہ بستی میں  قدم رکھتے ہیں  تو یہاں  پہلی ملاقات ’’ وہ خواب ‘‘ دیکھنے والی، اُ س معصوم سی ننھی بیٹی سے ہوتی ہے جس کی متجسّس نگاہیں  کہانی کے راکشش کے بارے میں  جاننا چاہتی ہیں ۔ اُسے جواب ملتا ہے اس کا کوئی وجود نہیں  ہے۔ لیکن افسانے کا ان دیکھا باپ جانتا ہے کہ اس دنیا میں  راکشش ہے جو کبھی گھریلو معاشی عدم استحکام کی صورت آدھمکتا ہے اور کبھی قوم کی صورت میں موجود رہتا ہے۔ اس کی خاطر وہ اپنی بیٹی کی تعلیم و تربیت میں  کوئی کسر نہیں  چھوڑتا۔ بُھولے سے بھی کبھی اُس کے چہرے پر غصّے سے بھری اُنگلی نہیں  لگاتا۔ بیٹی کی شادی ہوتی ہے اور وہ اپنی قابلیت کو ملازمت کے پلڑے میں  تولنا چاہتی ہے تو اُس کے گال پر ایک زنّاٹے دار طمانچہ گونجتا ہے اور قوم کا نمائندہ کسی راکشش کی صورت میں کھڑا نظر آتا ہے اور قاری سوچنے لگتا ہے کہ کیا ابھی تک ہم اکیسویں  صدی کے معاشی اقتصادی مسائل ومصائب کی ضرورت کو نہیں  سمجھ سکے ؟

      سمجھ کا یہ پھیر کبھی تو سیدھا چلتا ہے اور کبھی یہی سمجھ رشتوں  کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ لوگ بُھول جاتے ہیں  کہ زندگی کے پیڑ کی ڈالیوں  پر غربت اور امارت آنکھ مچولی کھیلتے رہتے ہیں ۔ ڈالیاں  اُنھیں  نیچے اوپر کرتی رہتی ہیں ۔ ’’ پیسے کی پیاس ‘‘ نیچے کب دیکھتی ہے۔ رشیدہ اور فریدہ دو بہنیں  ہیں ۔ فریدہ آسودہ حال ہے۔ رشیدہ اور اُس کے میاں  گودام کے کیڑے بن کر خوشحالی کے مزے لُوٹ رہے ہیں ۔ اسی چاہ میں  اپنے ننھے بیٹے کا رشتہ بھی فریدہ کی ننھی گڑیا سے مانگ لیتے ہیں ۔ لیکن زندگی کے پیڑ پر کھیلنے والی آسودگی ایک دم نیچے کی ڈالی پر آجاتی ہے اور رشیدہ بہن کو اس بھنور میں  چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ بیٹا انجنئیر بن جاتا ہے۔ بچپن کا وعدہ منہ چڑھاتا ہے اور وہ پیسے کی پیاس میں  ایک دولت مند گھرانے میں  بیٹے کی شادی کر دیتی ہے۔ اس کے بعد کیا حالات ہوئے ہونگے یہ ہر قاری سوچ سکتا ہے۔

        میاں  بیوی اور اولاد یہ ایک ایسا مثلث ہے جس پر معاشرے کی بنیاد قائم ہے۔ اس مثلث میں  کبھی محبت کے نام پر،  کبھی جائداد کے حوالوں  سے اور کبھی عدیم الفرصتی کے باعث تضاد اور تصادم پیدا ہو تا رہتا ہے۔ ان رشتوں  پر صغیر افراہیم نے بہت سارے افسانے لکھے ہیں  جن میں  ’’سفر ہے شرط‘‘،’’ ہار جیت‘‘، ’’خوابیدہ چراغ‘‘، ’’ انجان رشتے‘‘، ’’ جگ سونا ہے تیرے بغیر‘‘،  اور افسانہ ’’آخری پڑاؤ ‘‘ بے حد اہم ہیں۔

      اِن افسانوں  میں  کہیں  ملازمت کی مجبوریاں  بیوی کو سمجھ نہیں  پاتیں،  کہیں  باپ کی مصروفیت اُسے بچوں  سے دور کردیتی ہے۔ کہیں  ماں  باپ خود ہی اپنی اولاد کو سمجھ نہیں  پاتے اور اُنھیں  احساس ِ کمتری کا شکار بنا دیتے ہیں ۔ کہیں  مرد کی مجبوریاں  بیوی پر عتاب بن کر گرتی ہیں   اور کہیں  وہ ماں  باپ ہیں  جنھیں  بہتر مستقبل کی چاہ میں  اُن کے بچے اُنھیں  چھوڑ کر چلے گئے ہیں  اور وہ تنہائی کی زندگی سے جُو جھ رہے ہیں ۔ دیکھا جائے تو بر صغیر ان ہی حالات سے گُزر رہا ہے۔ یہ اب کسی ایک گھر کی کہانی نہیں  رہی ہے۔

      افسانہ ’’سفر ہے شرط‘‘ بشارت حسین نامی ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو نگر پالیکا میں  بحیثیت ایک کلرک کے کام کرتے ہوئے زندگی کے تیس برس، ہر روز دفتر جانے کے لیے ریلوے سے پچیس کلومیٹر کا سفر طئے کرتا تھا۔ صبح جلد ریلوے اسٹیشن  بھاگنا اور واپسی میں  تھکے ماندے گھر پہنچنا۔ وہ ریٹائر ہوجاتا ہے۔ اُس کے دل پر مایوسی چھا جاتی ہے۔ بیوی بھی پریشان ہے کہ اب وہ کیسے وقت گزاریں  گے ؟۔ ریٹائر ہونے کے دوسرے دن بھی وہ نفسیاتی طور پر ریلوے اسٹیشن پہنچتا ہے۔ زندگی اُسی طرح جاری تھی سب کچھ حسب ِ معمول ہو رہا تھا۔وہ گھر آتا ہے۔ بیوی چائے اُس کے سامنے رکھتی ہے :

’’آج کتنا اچھا لگ رہا ہے !!!ہم دونوں  اطمینان سے بیٹھے چائے پی رہے ہیں ۔ ‘‘

’’ زرینہ سچ کہا تم نے۔ ‘‘  اُس نے پیار بھری نظروں  سے زرینہ کو دیکھا۔

’ ’ آپ تو ایسے دیکھ رہے ہیں  جیسے پہلی بار دیکھ رہے ہوں ۔ ‘‘ اُس نے شرماتے ہوئے کہا۔

’’ تم آج بھی موسمِ بہار کی طرح خوب صورت ہو۔ ‘‘  وہ سوچنے لگا پھول سے چہرے پر خزاں  کے آثار نمودار ہونے کے باوجود اُس کے خوب صورت نقش و نگار اُس کے عزم و اعتماد کی طرف اشارہ کر رہے ہیں ۔ وہ اپنی خوش نصیبی پر مسکرادیا۔

’’ کیوں  مسکرا رہے ہیں ‘‘؟زرینہ نے اپنے دوپٹے کو سنبھالتے ہوئے پوچھا۔

’’ تمہاری رفاقت،  محبت  اور وفا شعاری کے لمحات کو سوچ رہا ہوں ۔ ‘‘

’’ جو آپ نے بویا ہے وہی کاٹا ہے۔ ‘‘  اُس نے برجستہ جواب دیا۔

اُس نے دل کی گہرائیوں  سے قہقہہ لگایا اور زرینہ کے دائیں  ہاتھ کو اپنے ہاتھوں  میں  سمیٹ کر کہا،  ’’  ریٹائرمنٹ کو اپنی منزل سمجھ بیٹھا تھا جبکہ سفر کی شروعات تو اب ہوئی ہے۔ ‘‘ (ص:۵۰)

     محسوسات کے نہایت اچھوتے جذبے پر لکھا ہوا یہ افسانہ اپنے پڑھنے والوں  سے بھی بہت کچھ کہتا ہے۔

      میاں  بیوی کی زندگی کے درمیان  بچوں  کی بھی ایک اہمیت ہے۔ بچے عموماً اپنی ماں  سے قریب ہوتے ہیں۔ اُس کی ایک وجہ ماں  ہی وہ ڈھال ہوتی ہے جو بچوں  کو سرد و گرم سے بچاتی ہے۔ ماں  ہی کے دم پر بچے اپنی ضد بھی پوری کرتے ہیں ۔ ماں  کی ممتا ہی میں  وہ طاقت ہوتی جو بچوں  کو اسکول اور گھر میں  ہوم ورک مکمل کرواتی ہے۔ بچوں  کی ماں  سے قربت کو دیکھ کر کبھی کبھی باپ کے دل میں  بال پیدا ہو جاتا ہے کہ ماں  اُس سے بچوں  کو دُور کر رہی ہے۔ اِس خیال کے آتے ہی وہ بچوں  کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہاں  سے بچوں  کی ایکٹی ویٹی پر تائید اور اختلاف کی ایک ریس شروع ہو جاتی ہے۔ اسی موضوع پرصغیر افراہیم نے ایک نہایت دلچسپ افسانہ لکھا ہے ’’ ہار جیت۔ ‘‘ لیکن یہ کلیہ ہے کہ ماں  کا ہر فیصلہ گھر کی بھلائی ہی کے حق میں  ہوتا ہے۔

    ایک ہی ماں  باپ کے بچے ذہانت، پھرتی،  خوبصورتی اور قد و قامت میں  ایک جیسے نہیں  ہوتے ہیں  لیکن اس کے باوجود ماں  باپ کی پوری توجہ چاہتے ہیں ۔ بعض گھرانوں  میں  ایسا بھی دیکھنے میں  آتا ہے کہ ماں  باپ عموماً ذہین بچوں  پر زیادہ محبت نچھاور کرتے ہیں  اور کم ذہین بچوں پر یا تو توجہ نہیں  دیتے یا پھر بار بار اُسے اس بات کا احساس دلاتے ہیں  کہ وہ کم عقل ہے۔ وہ یہ نہیں  سوچتے کہ اُن کے اس سلوک سے بچوں  کی نفسیات پر کیا اثر ہوتا ہے۔ افسانہ ’’ خوابیدہ  چراغ ‘‘ میں   صغیر افراہیم نے اسی مسلے کو پیش کیا ہے۔ صدف اور عامر کی تعریفیں  جہاں  اُن میں   اعتماد پیدا کرتی ہیں  وہیں  روحی  روک ٹوک اور کم عقلی کے طعنے سنتے سنتے احساس ِ کمتری کا شکار ہو جاتی ہے بلکہ اُسے ابنارمل قرار دیا جاتا ہے۔ اتفاق سے گھر میں  ایک نوجوان ڈاکٹر عُزیر کا داخلہ ہوتا ہے۔ صدف اور عامر اُس سے بہت قریب ہو جاتے ہیں  لیکن روحی اپنے ہی خوف میں  مبتلا ہے۔

      عُزیر اُسے عامر کی مدد سے اس خول سے باہر نکالتا ہے۔ اُس کی اپنائیت اور خلوص کے باعث روحی میں  وہ تمام باتیں  پیدا ہو جاتی ہیں  بلکہ اُس کا رنگ روپ بھی نکھر جاتا ہے۔ افسانہ ’’ انجان رشتے ‘‘ کا عامر سہیل بھی اسی کرب کا شکار ہے لیکن اُس کی وجہ ماں  کے انتقال کے سولہ برس بعد باپ کی ایک نوجوان لڑکی سے شادی ہے۔ جہاں  ماں  باپ کا کوئی عمل بچوں  کے لیے تکلیف دہ ہوتا ہے تو بچوں  کی عدم توجہی ماں  باپ کو کس دکھ اور تنہا ئی سے دوچار کرتی ہے اولاد کو اس بات کا احساس بھی نہیں  ہوتا۔ افسانہ ’’  آخری پڑاؤ ‘‘ میں  اس بات کو صغیر افراہیم نے ایک بالکل ہی نئے انداز میں  پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اپنے شاندار مستقبل کی چاہ میں  اولاد کے دوڑتے قدم ماں  باپ سے کتنے دور ہوتے جا رہے ہیں  اس بات کو وہ سوچتے ہی نہیں  کہ اُن کا اپنا بھی بُڑھاپا آئے گا اور جن بچوں  کی بہتر زندگی کے لیے وہ اپنے ماں  باپ سے دُور ہوئے ہیں  وہی بچے ایک دن اپنے مستقبل کی خاطر اُنھیں  بھی چھوڑ جائیں  گے۔ افسانے میں  بوڑھی ماں  کا اکیلاپن،  اور اولاد کے لیے اپنا سب کچھ لٹانے کے بعد مایوسی میں  ڈوبا ہوا اُس کا لہجہ قاری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے :

’’ اس ویرانے میں  کسی کا دل نہیں  لگتا۔ ۔۔مگر ہم بوڑھیا بڈّھے کہاں  جائیں  ؟  ایک گہری سانس لیتے ہوئے اُنھوں  نے کہا۔

’’ جی۔ ۔۔ ‘‘ اُس نے افسوس کا اظہار کیا۔

’’ کتنی محبت سے ہم نے اپنے بچوں  کے لیے یہ آشیانہ بنایا، سجایا سنوارا تھا۔ ۔۔بچوں  کے پر نکلے پُھر سے اُڑ گئے۔ بڑا بیٹا دُبئی میں  ہے۔ دوچار سال میں  آتا ہے۔۔ ۔آٹھ سال سے چھوٹا امریکہ میں  ہے،  پلٹ کر نہیں  آیا۔ ۔۔ہاں  پیسے بھیجنا نہیں  بھولتا ہے۔ ‘‘  بڑی بی نے اپنے ہاتھوں کی جُھرّیوں  کو دیکھتے ہوئے رُک رُک کر کہا۔

وہ چُپ چاپ بیٹھی اُن کی باتیں  سُن رہی تھی۔ اپنوں  سے دُوری،  اکیلے پن کا احساس،  بے چارگی بن کر اُن کے لہجے سے ٹپک رہی تھی۔

’’ سب سے چھوٹی یہ صبا ہے، اکیلے رہنا چاہتی ہے۔ اب تو اُس کے پاس بھی ہمارے لیے وقت نہیں  ہے۔ سوچا تھا اُسی کے بچوں  کے سہارے اپنا بُڑھاپا گُزار دیں  دے مگر۔ ۔۔ وہ خاموش ہو گئیں ۔ ‘‘(ص:۷۶)

     صغیر افراہیم کے دیگر افسانوں  میں  افسانہ ’’ بے بسی کی قطار‘‘،  ’’یہ کیسا فرق ہے‘‘، ’’ نیا راستہ‘‘، ’’ کڑی دھوپ کا سفر‘‘، ’’ ایسی بلندی‘‘،’’ سرخ تاج‘‘،’’انکشاف‘‘، ’’ گھر جنت‘‘ اور افسانہ ’’ میرا کرب ‘‘ شامل ہیں ۔ اِن افسانوں  میں  کہیں  معمولات سے بندھی ہوئی زندگی ہے۔ کہیں  نہ چاہتے ہوئے بھی سماج اور معاشرے کی خاطر ماں  باپ بیٹی اور بیٹے میں  فرق کرتے ہیں ۔ کہیں  شوہر، بیوی کی موجودگی میں کسی اور سے آنکھ مٹکا کرتا ہے اور بیوی بچوں  کی خاطر سب کچھ برداشت کر رہی ہے۔ کہیں  وہ احسان فراموش افراد بھی ہیں  جو اپنے محسن کے احسان بھول جاتے ہیں۔ تو کہیں  اپنے ادھورے فرض کی تکمیل کی خاطر اجنبی افراد سے رشتوں  کو نبھانے کی کوشش ہے۔ کہیں  خوشحالی کی تلاش میں  بے وفائی ہے۔ کہیں  اقبال جرم کا وہ احساس جو ایک پروفیسر کی عظمت سے زیادہ اُس کی بیوی کے کرادر کو عظیم بنادیتا ہے۔ مذکورہ افسانوں  کا تفصیلی جائزہ لینے کے بجائے کچھ اقتباسات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں۔ افسانہ ’’ یہ کیسافرق ہے! ‘‘ میں  موجود لڑکی کی ذہنی کیفیت ملاحظہ فرمائیں:

’’ وہ اپنے آپ کو اُس پرندے کی طرح محسوس کر رہی تھی جسے گھر کے سبھی لوگ پیار کرتے تھے مگر انجانے خوف کی وجہ سے پنکھ کتر رکھے تھے تاکہ وہ اپنی حدوں  سے باہر نہ جاسکے۔ ۔۔کاش اُسے بھی موقع ملا ہوتا،  صرف ایک موقع،  کچھ کر دکھانے کا۔ ایک اونچی اُڑان بھرنے کا۔ پھر وہ سب کو یہ دکھا پاتی کہ وہ بھی کچھ کر سکتی ہے۔ ‘‘ (ص:۹۹)

      پروفیسر اگر ذہین ہو خوش مزاج ہو،  حاضر جواب ہو،  وجیہ ہو تو ریسرچ اسکالر ز کا اُس کی طرف راغب ہونا بعید از قیاس بھی نہیں  ہے۔ یہی بات صغیر افراہیم نے افسانہ ’’انکشاف‘‘ میں  کہنے کی کوشش کی ہے۔ پروفیسر وشال میں  یہی خوبیاں  تھیں  اگرچہ اُس کی عمر باون برس کی ہو چکی تھی۔ وہ شادی شدہ بھی تھا۔ پھر بھی آشا نامی طالبہ اُسے چاہنے لگتی ہے اور ایک رات پروفیسر کے گھر قیام کے دوران وہ جذبات سے بے قابو ہوکر اُس کے بستر میں  داخل ہو جاتی ہے۔ پروفیسر بیدار ہوجاتا ہے اور اُسے بستر پر چھوڑ کر کمرے سے باہر نکل جاتا ہے۔ آشا کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے اور وہ شرمند ہ ہوجاتی ہے۔ پروفیسر سے آنکھ ملانے کی اُس میں  ہمت نہیں  رہتی۔

       چُھٹیوں  میں  دو۲ ماہ کے لیے وہ اپنے گھر چلی جاتی ہے۔ تب ہی اُسے اطلاع ملتی ہے کہ ایک حادثے میں  پروفیسر کی موت ہو گئی ہے۔ وہ اُس کی بیوی مالتی سے ملنے اور پرائشچیت کی خاطر پہنچتی ہے :

’’ یہ کیا ہوگیا بھا بھی ! کس پاپی کی نظر لگ گئی کہ نشیمن خاک ہو گیا ؟ شاید میری ہی۔ ۔۔ مجھے معاف کر دیجیے۔ میں  نے بڑا دکھ پہنچایا ہے۔ آپ کے اور گروجی کے خطوط کا جواب نہ دے کر۔ اِس کے آگے آشا کی آواز رُندھ گئی تھی،  زبان لڑکھڑانے لگی تھی اور وہ من ہی من میں  معافی مانگ رہی تھی۔ اُس کے  اندر کا بیٹھا ہوا چور اُسے شرمسار کر رہا تھا۔ یکایک مالتی اُس سے لپٹ کر پھوٹ پڑی،  ’’  ہاں  آشا بڑا ظلم ہوا ہے۔ میرا گھر سنسار برباد ہو گیا مگر مجھ پر تو یہ تباہی تیس سال پہلے ہی آچکی تھی جب میں  بیاہ کر آئی تھی۔ سہاگ کی سیج  میرے لیے ارمانوں  کی ارتھی بن گئی تھی۔ شب ِ وصل کو برف کی آگ نے ایسا جلایا کہ کلی پھول بننے کا ارمان لیے ہی مُرجھا کر رہ گئی۔ ‘‘ (ص:۶۴)

     کبھی بیاہ کے لیے لڑکی کا خوب صورت ہونا،  سگھڑ ہونا اور اُمور ِ خانہ داری میں  طاق ہو نا ہی کافی تھا لیکن آج کے دور میں  ان خوبیوں  کے ساتھ ہی ساتھ لڑکی کا تعلیم یافتہ ہونا بھی ضروری ہو گیا ہے۔ افسانہ ’’ گھر جنت ‘‘ میں  یہی بات اُنھوں  نے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ امتیاز نامی ایک نوجوان یونیورسٹی میں  لکچرر ہو جاتا ہے۔ دوسال بعد جب احباب شادی کی طرف توجہ دلاتے ہیں  تو وہ خواہش ظاہر کرتا ہے کہ وہ گھریلو قسم کی سگھڑ لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ اور وہ اسی قسم کی لڑکی سے شادی کرتا ہے۔ زندگی خوشگوار ہوجاتی ہے اور گھر جنت بن جاتا ہے :

’’ زندگی گھر اور یونیورسٹی کے درمیان دوڑ رہی تھی۔ بیٹا احمر  اپّر کے جی پاس کرکے کلاس فرسٹ میں  آگیا تھا۔ ۔ ۔

ایک دن یونیورسٹی کلب جانے کے لیے تیار ہوکر گھر سے نکلنے کے لیے گیٹ کو عبور کر رہا تھا۔ ۔۔’’  پاپا رُکیے۔ ۔۔ میرا ہوم ورک کمپلیٹ کرادیجیے۔ ‘‘

’’ بیٹے اپنی ممی سے۔ ۔۔ ‘‘  اِس سے پہلے کہ وہ اپنا جملہ پورا کرتا کہ اچانک اُس کی زبان گنگ ہو گئی اور منہ پر چپّی لگتے ہی اُس کی آنکھیں  بھیگ گئیں۔ ‘‘(ص:۶۷)

  یہاں  آنکھوں  کے بھیگ جانے کہ بجائے اُس کا پچھتانا ہی کافی تھا۔

      صغیر افراہیم کے افسانے  کلائمکس پر بہت کم چونکاتے ہیں  لیکن قاری کو کچھ سوچنے پر ضرور مجبور کرتے ہیں ۔ اُن کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اُن میں  ایک ایساتجسّس موجود ہے جو قاری کو باندھے رکھتا ہے۔ اُن کا بیانیہ نہ تو شوکت الفاظ  کا سہارا لیتا ہے اور ناہی تشبیہات،  تلمیحات اور علامتوں  کا بوجھ اُٹھاتا ہے۔ اُن کا اسلوب  رواں  ہے  اور سیدھی سادی زبان میں  اپنا مافی الضمیر ادا کر دیتا ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ اکثر مقامات پر اُن کے جملے ضرب المثل بن جاتے ہیں ۔ مثلاً

 ۱۔ جیب سے کنگال لوگ دل سے خوش حال ہوتے ہیں ۔

 ۲۔ آنکھیں  بے زبان نہیں  ہوتیں ۔

۳۔ جو لوگ با اخلاق ہوتے ہیں  اُن کی دوہری شخصیت ہوتی ہے۔

 ۴۔ زندگی تو اندھیرے سے روشنی کی طرف ایک لمبی اُڑان کا نام ہے۔

۵۔ اللہ کے گھر کی طرح اُن کا در بھی صدا کے لیے کُھلا تھا۔

۶۔ ہماری زندگی کا سفر ایک سیدھی راہ پر چلنے کا عادی ہے۔

  ۷۔ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا، اتنا سیاہ جتنا کہ فسادیوں  کا قلب ہوچکاتھا۔

 ۸۔ صفیہ اُس کو دیکھتی ہی رہ گئی اور پھر نہ جانے کس جہاں  میں  کھوگئی

صغیر افراہیم کی تخلیقی صلاحیتوں، بے پناہ مطالعہ اور مشاہدے کو دیکھتے ہوئے جی چاہتا ہے اُن سے کہوں  کہ اپنے اِس جزیرے سے باہر نکل کر دیگر عصری موضوعات،  جن میں  سیاسی جبریت، مذہبی تنگ نظری اور اُس کی آڑ میں  کھیلے جانے والے خونی کھیل، مفاد پرستی،  صارفیت کے بڑھتے ہوئے قدم، دہشت گردی،پولیس کی یکطرفہ کاروائیوں  اور عالمی مسائل پھر بھی افسانے لکھیں ۔ اُن کے لیے یہ سفرمشکل بھی نہیں  ہے اور اُنھیں  کوئی یہ بھی نہ کہہ سکے گا کہ اُن کے افسانوں کا کینوس محدود ہے۔

 ٭٭٭

تبصرے بند ہیں۔