صفدر سلطان اصلاحیؒ: ہمدم وہم راز

  صفدربھائی دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے، بالکل ویسے ہی جیسے بہت سے لوگ جاتے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر میری تسلی کے لیے آج کسی نے غیر فطری اموات کے چند عجیب وغریب مناظر بھیجے ہیں ۔ ایک آفیسر میٹنگ کو ایڈریس کرتے کرتے چل بسا، انٹر نیشنل ٹورنامنٹ میں ایک فٹ بال کھلاڑی نے فائنل شاٹ لگائی، گیند گول میں پہونچنے سے پہلے کھلاڑی مالک حقیقی سے جاملا، جیم میں ورزش کرتے کرتے ایک نوجوان ذرا لڑکھڑایا، اور لمحے بھر میں روح پرواز کرگئی۔ سابق صدر جمہوریہ اے پی جے عبد الکلام ایک مخصوص پبلک میٹنگ کو خطاب کرتے کرتے اللہ کی پکار پر لبیک کہہ گئے۔ ان سب واقعات سے سبق ملتا ہے کہ موت کبھی بھی اور کہیں بھی آسکتی ہے۔ اس دنیائے فانی کا اصول ہی نرالا ہے، نہ کوئی اپنی مرضی سے آتا ہے، نہ اپنی مرضی سے جاتا ہے۔ بھیجنے والا ہی اپنی مرضی سے واپس بلالیتا ہے۔ اس نے سب کے لیے وقت، جگہ، طریقہ سب متعین کررکھا ہے اور اس کی اصلیت سے بھی صرف وہی واقف ہے۔ ولن یئوخر اللہ نفسا اذا جاء اجلھا ۔ جانے والے بھائی کو اس حقیقت کا اچھی طرح ادراک تھا، وہ ہمیشہ اس کے لیے تیار رہتا تھا۔اس کی باتوں میں ، نصیحتوں میں ، خطابات میں اس کا اکثر ذکر رہتا تھا۔ کیا پتا کب چلے جائیں ؟ جو مہلت ملی ہوئی ہے اسے رضا ئے الٰہی کے حصول میں گزاردینا چاہیے۔ اور بس!  یہی ہوا، نماز وتلاوت سے فارغ ہوئے، بیگ اٹھایا دین کی سربلندی کی چاہ میں نکل پڑے اور اپنی مقررہ منزل پر پہونچنے کے بجائے، فرشتوں کے دوش پر سوار ہوکر اس مالک حقیقی کے پاس جاپہونچے جس کی رضا کے لیے روانہ ہوئے تھے۔

ویراں ہے میکدہ خم و ساغر اداس ہیں

تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے

 موت کا ظاہری سبب حادثہ بنا۔ صفدر بھائی کرایہ کی کار(UP81-BB6646) سے ادارہ کی مجلس انتظامیہ میں شرکت کی غرض سے مرکزجماعت اسلامی، دہلی کی طرف جارہے تھے۔ کار کی پچھلی سیٹ پر داہنی طرف صفدر بھائی اور بائیں طرف پروفیسر ظفر الاسلام اصلاحی بھائی بیٹھے ہوئے تھے۔ 18؍ فروری 2017ء) صبح ساڑھے آٹھ۔نو  بجے کا وقت رہا ہوگا۔ جٹّاری سے پہلے بیرن پور گاؤں ، بھٹہ کے پاس مخالف سمت سے آتے ہوئے لوڈیڈ ٹرک(HR-55F9797)سے ٹکرہوگئی۔ ٹکر بہت شدید تھی۔ دونوں سواروں کو سرمیں چوٹ آئی، دونوں بے ہوش ہوگئے۔ صفدر بھائی کا زخم زیادہ شدید تھا۔ جائے حادثہ پر کوئی جاننے والا نہ تھا۔ جٹّاری پولیس چوکی کے لوگوں نے مریضوں کو جیور کے کیلاش ہاسپٹل میں داخل کرایا۔ ڈاکٹروں نے اپنی پوری کوشش کی، محترم ظفر بھائی ہوش میں آگئے، مگر صفدر بھائی کے لیے قدرت کا فیصلہ ہوچکا تھا، وارث، دوست اور خیر خواہان سب کے پہونچنے سے پہلے وہ رخصت ہوچکے تھے۔

 اسپتال میں سب سے پہلے صفدر بھائی کا بڑا بیٹا ابوذر پہونچا۔ اس نے فون پربھرّائی ہوئی آواز میں اطلاع دی’’ میں یتیم ہوگیا۔ میں یتیم ہوگیا‘‘،میں جذبات پر قابو نہیں پاسکا، رونے لگا، اس نے ڈھارس بندھائی، آپ ہرگز نہ روئیں ، میرے ابو شہید ہوگئے ہیں ۔ وہ اللہ کی راہ میں تھے، وہ دینی سفر پر تھے، اللہ نے انہیں اپنے پاس بلالیا‘‘۔

 ہم لوگ ہاسپٹل پہونچے تو ظفر بھائی کی ڈریسنگ چل رہی تھی اور صفدر بھائی کی نعش مورٹری میں پہونچا دی گئی تھی۔ وہاں سے لے کر علی گڑھ مورٹری پہونچے، پوسٹ مارٹم کی کاروائی یہیں ہونی تھی۔ منظر نہایت دردناک تھا۔ اعزاء، احباب، عقیدت مندان سب میت کے انتظار میں سوگوار کھڑے تھے۔ کسی طرح یہ جانگسل کاروائی مکمل ہوئی تو اب صفدر بھائی کو اس گھر میں داخل کرنے کا مرحلہ تھا، جس کی سلامتی اور بخیریت واپسی کی دعا پڑھ کر صبح روانہ ہوئے تھے۔آہوں اور سسکیوں کا کہرام تھا، اسید، عدی اور محمد بالکل بے کل تھے۔ بیٹی سہیمہ کے جذبات قابو سے باہر تھے۔ جذبات تو کسی کے قابو میں نہ تھے۔ ہر چہرہ اداس اورہرفرد مغموم تھا۔ آج احساس ہورہا تھا کہ صفدر بھائی کتنے عظیم تھے؟ سیکڑوں لوگ میت کے سامنے کھڑے ہیں ۔ سب کا الگ الگ احساس ہے۔ کوئی سیرت واخلاق سے متأثر ہے، کوئی خدمت واحسان سے، کوئی علمی گہرائی وگیرائی کی تعریف کررہا ہے تو کوئی تقوی وطہارت کی شہادت دے رہا ہے۔ تحریکی افراد کے لیے ان کی زندگی کا ہر پہلو نمونہ تھا، مشن کے ساتھ اخلاص، محنت اور بہت محنت، مہلت عمل کو کار آمد بنانے کی فکر۔ پھر قرآن وسنت کا گہرا مطالعہ، تحریکی شعور، مجاہدانہ کردار، مومنانہ فراست، اخوان کے ساتھ حسن سلوک، معاملہ فہمی اور اصابت رائے ۔ اس تحریکی مجاہد کی زندگی کا ہرپہلو نمونہ تھا۔ دعوت وجہاد اور عزیمت وشہادت ان کے مطالعہ کے خاص موضوعات تھے۔ تحریکی شہداء سے خاص تعلق محسوس کرتے تھے۔ گزشتہ برسوں میں عالم اسلام پر جو افتاد آئی ہوئی ہے فلسطین، مصر اور بنگلہ دیش میں راہ حق کے جن عظیم مجاہدین کو شہادت حق کے جرم میں شہید کیا گیا، ان کی داستانیں حسرت سے پڑھتے تھے۔ اللہ نے انہیں بھی یہ مرتبہ عطاکردیا ؎

  یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا

  صفدر بھائی کا مدرسۃ الاصلاح میں ساتھ ملا۔ ساتھ کیا ملا؟ دل مل گیا۔ پھر یہ ساتھ کبھی بچھڑا نہیں ۔ مدرسہ کے وہ بہت ہونہار طالب علم تھے، ساتھیوں میں بہت مقبول تھے اور استادوں کو بھی عزیز تھے۔ تحریکی لٹریچر پڑھنے کا شوق گھر سے لے کر آئے تھے۔ ان کے والد جناب سلطان احمد مرحوم تحریک کے بے لوث سپاہی تھے، ان کی رگ وریشے میں تحریکیت رچی بسی تھی، اس کی خوشبو سے بچوں کے اذہان وقلوب کو خوب خوب معطر کررکھا تھا۔صفدر بھائی اس کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔مدرسہ پر حرکت و دعوت ان کی پہچان تھی۔ مدرسہ سے امتیازی نمبرات سے فراغت کے بعد علی گڑھ تشریف لائے ، شعبۂ عربی سے ایم اے پھر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ محنتی اور ہونہار تو تھے ہی جی آر ایف کوالیفائی کیا اور اسکالرشپ کے حق دار ٹھہرے۔ پی ایچ ڈی کی تکمیل کے بعد کچھ عرصہ شعبہ میں ریسرچ ایسوسیٹ کی حیثیت سے کام کیا۔ پھر دو تحریکی اداروں درس گاہ اسلامی رامپور اور اقراء پبلک اسکول علی گڑھ نے بھی تھوڑے تھوڑے عرصہ کے لیے ا ن کی خدمت حاصل کیں ۔اس کے بعد دوبارہ وہ مادر علمی علی گڑھ کے آغوش میں آگئے۔ لیکچرر اور ایسو سیٹ پرو فیسر کے مراحل طے کرنے کے بعد چار ماہ قبل پروفیسر کے مر تبہ پر فائز ہوئے۔

 علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کئی اعتبار سے ان کی خدمات کی جولان گاہ بنی ۔اجمل خاں طبیہ کالج کا شعبہ کلیات تدریسی فرائض  کے لیے مقدر ہوا تو اکیڈمک کونسل کی رکنیت حاصل کرکے یونیورسٹی کے تعلیمی امور میں رہنمائی کی، اساتذہ کی تنظیم کے ممبر منتخب ہوئے تو وہاں اپنی اصول پسندی، غیر جانبداری اور حق گوئی وبے باکی کی مثال قائم کی۔ معروف ومقبول استاد ہونے کی وجہ سے باہر کے لوگ بھی ان سے استفادہ کی شکلیں تلاش کرتے۔ کوئی ممتحن کی حیثیت سے مدعو کرتا، کوئی ایکسپرٹ کی حیثیت سے بلاتا۔ جہاں جاتے حسن اخلاق اور ایمان داری کی چھاپ چھوڑ آتے،ذاتی قدرومنزلت میں اضافہ کے ساتھ یونیورسٹی کے وقار میں بھی اضافہ ہوتا۔

 یونیورسٹی کے دروبست ان کی دعوتی تڑپ کے بھی گواہ ہیں ۔ کیمپس کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہوگا جہاں دعوتی غرض سے ان کے قدم نہ پہونچے ہوں ، شاید ہی کوئی دیوار ہو جس پر ان کے نام اور دستخط کے پوسٹرنہ لگے ہوں ، یونیورسٹی کا چپہ چپہ گواہ ہے کہ ان کی زندگی کامقصددین کی سرفرازی تھا۔ کبھی پیدل، کبھی سائیکل پر اور کبھی اسکوٹر پرسواریہ شخصیت ہردم رواں پیہم دواں نظر آتی۔ کبھی درس دینا ہے، کبھی تقریر کرنی ہے، کبھی ملاقات، کبھی مریض کی عیادت، کبھی پریشاں حال کی داد رسی اور کبھی یونیورسٹی انتظامیہ کو ان کی خطاؤں پر متنبہ کرنا ہے۔ ان کے پاس اسٹاف کلب کی خوش گپیوں ، ڈپارٹمنٹ کی سازشوں ، کیفے کی چایوں اور کسی گروپ میں شامل ہوکر وی سی کی حمایت یا مخالفت کرنے کا وقت نہ تھا۔ ان کا مشن بہت عظیم تھا۔جس کو وہ دل سے عزیز رکھتے تھے ، اس کا ثبوت نماز جنازہ کے دلدوز مناظر نے دیا۔ کون تھا جو موجود نہ رہا ہو۔امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری تمام سرگرمیوں کو موقوف کرکے ایک وفد کے ساتھ حاضر ہوئے اور نماز جنازہ پڑھائی، حلقہ کے ذمہ داران مراد آباد سے آئے، اس کے علاوہ میرٹھ، ہاپوڑ، غازی آباد، بدایوں ، بریلی، لکھنؤ اور اعظم گڑھ سے بڑی تعداد میں تحریکی رفقاء شریک ہوئے۔ یونیورسٹی کا اپناغم تھا، اس کا ہونہار فرزند اور لائق خادم رخصت ہورہا تھا،پوری یونیورسٹی انتظامیہ، اساتذہ، طلبہ، اعزاء واحباب کی بڑی تعداد نماز جنازہ میں شریک ہوئی، واقعہ یہ ہے کہ جنازہ گاہ کی جگہ تنگ اور مٹی کم پڑگئی۔

کیا شخص تھا جو راہِ وفا سے گزرگیا

جی چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں

  یونیورسٹی استاد کی پہچان تدریس وتحقیق سے ہوتی ہے۔ پڑھاتے تو طلبہ کا دل جیت لیتے، تحقیق کے لیے قلم اٹھاتے تو تحقیق کا حق ادا کردیتے۔ صفدر بھائی نے تدریس وتحقیق دونوں میں نام کمایا۔ طلبہ کے ہر پیج نے ان کی ایمان داری اور محنت ومشقت کی شہادت دی، جو مضامین ان کے ذمہ تھے، طلبہ کو ان میں دلچسپی کم ہی ہوتی ہے، مگر صفدر بھائی کا دلنشیں اسلوب تدریس، مفید مواد اور اصول پسندی طلبہ کو کلاس تک کھینچ لاتی اور طلبہ گرویدہ ہوجاتے۔ زیر درس مضامین میں بحث وتحقیق کی گنجائش بھی بہت کم تھی۔ انہوں نے تحقیق کے لیے زبان وادب اور تحریک وسماج کو موضوع بنایا، ا ن موضوعات پر جو تحقیقی مضامین لکھے علمی دنیا میں ان کی زبردست پذیرائی ہوئی۔ خاص طور سے مصری ادب کے مختلف گوشوں کو انہوں نے اجاگر کیا۔ مصری لٹریچر میں قدامت پسندی سے بغاوت اور آزادی کی جستجو نے قاری کے اندر اسلامی قدروں سے نفرت پیدا کردی تھی۔ ڈاکٹر صفدر سلطان اصلاحی نے جمال الدین افغانی اور اخوانی قائدین کی تحریروں کے حوالے سے قدر مشترک؎ تلاش کرنے کی کوشش کی۔ قرآنیات ان کا پسندیدہ موضوع تھا جو مدرسۃ الاصلاح سے نسبت کی وجہ سے ان کے دل ودماغ میں سمایا ہوا تھا۔ قرآنیات پر کئی شاہکار مضامین لکھے جو علوم القرآن اور دوسرے رسائل میں شائع ہوئے۔ گزشتہ سال ان قیمتی مضامین کے مجموعے بھی کتابی صورت میں منظر عام پر آگئے جو ان ناقدین کی غلط فہمی دور کرنے کا سبب بنے جو انہیں صرف دین کا مجاہد سمجھتے تھے، قلم کا غازی نہیں ۔

انہوں نے 34 معیاری مضامین رقم فرمائے جو مؤقر رسائل میں شائع ہوئے۔ ان کی چار کتابیں بھی منظر عام پر آئیں ۔ متعدد قومی وبین الاقوامی سیمیناروں میں شرکت کی اور خود ایک مہتم بالشان بین الاقوامی سیمینار منعقد کیا۔ یہ تحقیقی وتصنیفی سرمایہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے گراں قدر علمی ورثہ چھوڑا ہے۔ امر واقعہ ہے کہ کاغذی تصنیف ان کی ترجیحات میں کبھی شامل نہیں رہی، رجال کار تصنیف کرنا ان کامحبوب مشغلہ تھا، حسن البناء شہید کی طرح صفدر بھائی بھی افراد کے دلوں پرایمانی حمیت ومحبت رقم کرنے کا کارنامہ انجام دیتے رہے، آج جو ہزاروں افراد نوحہ کناں ہیں ، دراصل یہ وہی افراد ہیں جن کے دلوں میں انہوں نے ایمان کی محبت، قرآن کی قدردانی، سیرت نبوی سے لگاؤ اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے مرمٹنے کا جذبہ پیدا کیا ہے۔

 یہ سچائی ہے صفدر بھائی کی اصل پہچان تحریکی مجاہد کی تھی، ماں نے دودھ کی پہلی چسکی اور باپ نے پہلی چمکار کے ساتھ ان کے اندر تحریک کی ایسی روح پھونکی کہ زندگی کا ہر لمحہ اس خوشبو سے مہکتا رہا۔ مدرسۃ الاصلاح میں اسی شعور کے ساتھ داخل ہوئے۔ عربی دوم وسوم سے بزم خطابت میں شامل ہونے لگے۔فریضہ اقامت دین وشہادت حق ان کا پسندیدہ موضوع ہوتا، اس زمانے میں وہ اتنے تیار ہوگئے تھے اور ان کے ذہن ودماغ میں موضوع ایسا رچ بس گیا تھا کہ کوئی بھی موضوع دیا جاتا وہ گھوما کر اپنے موضوع پر لے آتے اور زبردست تقرریر کرتے۔ ایک مرتبہ بزم خطابت کے ذمہ داروں نے خوب سوچ سمجھ کر ان کے لیے ’’اسلام اور مستشرقین‘‘ موضوع مقرر کیا تاکہ وہ اپنے پسندیدہ موضوع تک نہ پہونچ سکیں ۔

صفدر بھائی نے تقریر شروع کی، تحریک استشراق اور اس کی دسیسہ کاریوں کا تذکرہ کرنے کے بعد اقامت دین کی راہ میں اس تحریک کے خطرات بیان کرنے پر آگئے اور منتظمین اپنی ناکامیوں پر مسکرانے لگے۔ مدرسہ میں قیام کے دوران ایس آئی او وجود میں آئی، فوراً اس کے ممبر بن گئے، علی گڑھ تشریف لائے تو مسلم یونیورسٹی یونٹ کے ذمہ دار منتخب ہوئے، پھر ZAC، CAC، صدر حلقہ یوپی مغرب اور جنرل سکریٹری تک کی حیثیت میں ایس آئی او کو بنایا سنوارا۔ ایس آئی او میں رہتے ہی جماعت کی رکنیت اختیار کرلی۔ پھر جماعت کے مقامی ذمہ دار بنادیے گئے۔ اپنے دور امارت میں مقامی جماعت کو بہت مضبوطی عطاکی۔ نئی نئی سرگرمیاں شروع کیں ۔ ممبران وکارکنان کی تعداد میں اضافہ، اسلامک انفارمیشن سینٹر اور لائبریری کا قیام، فری ڈسپنسری اور مقامی جماعت کے لیے دومنزلہ عمارت کی تعمیر سب صفدرصاحب کے نامۂ اعمال کا حصہ ہیں ۔ انہوں نے سالانہ بین المذاہب سمپوزیم ، سالانہ میڈیکل کیمپ اور نمائش گراؤنڈ پر دعوتی کیمپ کی طرح ڈالی اور مضبوطی سے اس نظام کو چلاتے رہے۔

کیمپس کے اندر مسجد نور کاماہانہ اجتماع بہت اہتمام سے منعقد کراتے جو جماعت کے فکر اور نام دونوں کو آگے بڑھانے کا بہت مؤثر ذریعہ بنا۔ جماعت کا شعبہ خدمت خلق بھی ان کے زمانے میں مثالی کردارادا کرتا رہا۔ ہرسال کئی لاکھ روپے مقامی طور پر جمع کراتے اور بچوں کی تعلیم، مریضوں کے علاج، غریبوں کی امداد اور بے روز گاروں کو روزگار دلانے میں صرف کرتے۔مقامی سطح سے اوپر اٹھ کر صفدر بھائی حلقہ کی مجلس شوریٰ کے رکن، فلاح عام سوسائٹی کے نائب صدر، مرکزی مجلس نمائندگان کے ممبر اور کئی مرکزی کمیٹیوں کے رکن رکین تھے۔مشاورتی نشستوں میں وہ پوری تیاری کے ساتھ شریک ہوتے اور اعتماد کے ساتھ اپنا موقف رکھتے۔ ان کا تحریکی وژن بالکل کلیر تھا اور مطالعہ اتنا پختہ کہ نشستوں میں ان سے آگے کوئی نہ نکل پاتا، کئی بار مکالمہ بہت طویل ہوجاتا مگر انہیں کوئی اپنے موقف سے نہ ہٹاپاتا۔ تحریکی پالیسیوں میں وہ قدیم روایات اور اصول پر کاربند تھے۔ ہوا کے رُخ پر موقف بدلنے کے سخت خلاف تھے۔ انتخابی سیاست میں شمولیت پر کئی بار ان کے دلائل کو سننے کا موقع ملا۔ اپنے موقف پر اتنا شرح صدر تھا کہ کوئی انہیں قائل نہ کرپایا۔ ساتھ ہی وہ اتنے اصول پسند تھے کہ اپنے ہی موقف کے خلاف کوئی فیصلہ ہوجاتا تو اس کا نفاذ مکمل شرح صدر کے ساتھ کرتے، اس میں ان کی پسند وناپسند حارج نہ ہوتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ تحریک کے بہت بے لوث اور باشعور خادم تھے۔ تحریک ہی ان کا اوڑھنا، بچھونا اور تحریک ہی ان کی پہچان تھی۔مشن کی لگن اور کام کی دھن ان کی زندگی کا خاصہ تھا بالآخر مشن ہی کی راہ میں جان جان آفریں کے سپرد کردی۔

  صفدر بھائی مختلف اداروں سے بھی وابستہ رہے۔ ادارہ علوم القرآن اور ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی سے خاص تعلق تھا۔ ادارہ علوم القرآن کی تمام مجالس کے رکن رکین اور ایک میقات میں خازن رہے۔ ادارہ کی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لیتے اور بڑھ چڑھ کر تعاون کرتے، ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی کے سکریٹری تھے۔ تمام انتظامی اموران کے ذمہ تھے، جب انہوں نے ادارہ کا چارج لیا اس کی ظاہری حالت بہت خستہ تھی، اپنے مشفق ومربی پروفیسر اشتیاق احمد ظلی سے انسپائر ہوکر انہوں نے ادارہ کی نشاۃ ثانیہ کی ٹھان لی۔ پھر کیا تھا؟ ادارہ میں امنگ وترنگ کی گونج سنائی دینے لگی، خطیر رقم کا انتظام کیا اور دونئے پلاٹ خرید کر رقبہ میں اضافہ کرایا۔ قدیم بوسیدہ عمارت کی تجدید کے ساتھ ایک نئی منزل تعمیر کرائی اور ایک عالی شان مسجد کا کیمپس میں اضافہ کیا،جوآج اپنے محسن کی خدمات کو سلام پیش کررہے ہیں ۔صفدر بھائی  ادارہ تحقیق کے ظواہر کو سجانے میں اچھی طرح کامیاب ہوئے، ان کی شدید خواہش تھی کہ اس کا علمی وقار بھی بلند ہو، مولانا صدرالدین اصلاحی، مولانا محمد فاروق خاں اور مولانا سید جلال الدین عمری نے اپنی معیاری تحقیقات ونگارشات سے ادارہ کی جو پہچان بنائی ہے، وہ پہچان واپس ملے۔ اس وقار کی جستجو میں کئی تلخ وشیریں واقعات بھی تاریخ میں رقم ہوگئے مگر وہ اپنی یہ حسرت دل ہی میں لے کر چلے گئے۔ ان کا آخری سفر بھی اسی ادارہ کی سرگرمیوں کو منظم کرنے اور تقویت دینے کے لیے تھا۔ مگر ان کی مہلت عمل مکمل ہوچکی تھی، وہ بہت سے منصوبے ناتمام چھوڑ کررخصت ہوگئے۔ افراد چلے جاتے ہیں ادارے باقی رہ جاتے ہیں ۔ دعاہے کہ ادارہ کو ایسا جانشین مل جائے جو ان کی باقیات کو باقی رکھ سکے اور ان کے ناتمام خوابوں کو نئی تعبیردے سکے۔

  صفدر بھائی چلے گئے ان کے لیے مہلت عمل بس اتنی ہی تھی۔ اپنے پیچھے ایک پر بہار خاندان جس میں 5 عاقل، بالغ اورباشعور بیٹے، ایک بیٹی، اہلیہ، 3 بھائی اور 5 بہنیں شامل ہیں ، سب سوگوار ہیں ۔ سوگواروں میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جو ان کی عنایات کے زیر سایہ پلے بڑھے، دین کا شعور حاصل کیا اور دین کے خادم بنے۔ پورا تحریکی کارواں بھی غم زدہ ہے کہ اس نے اپنا بے لوث خادم، بے باک ترجمان اور عظیم قائد کھودیا ہے۔ اخبارات وسوشل میڈیا پر ہزاروں افراد جدائی کے غم میں نڈھال نظر آرہے ہیں ۔ دوستوں ، ساتھیوں اور عزیزوں کے چہرے بھی مرجھائے ہوئے ہیں ، ان کے بہت ہی عزیز دوست ایاز احمد اصلاحی صاحب جو پہلے سے بے حد رنجیدہ ہیں ۔ دوماہ کے اندربیوی اور ماں کا صدمہ پاچکے ہیں ، دوست کی جدائی کی خبر سن کر بے ساختہ کہہ اٹھے کہ یہ میرے لیے تیسرا صدمہ ہے۔ اور یہ غم میرے بھائی کی جدائی کے غم جیسا ہے۔ محترم ایاز بھائی کی تسلی کے لیے ماشاء اللہ چار حقیقی بھائی زندہ سلامت ہیں ۔ میرا کوئی حقیقی بھائی نہیں ہے، صفدر بھائی میرے اکلوتے بھائی تھے، وہ مجھے بھی داغ مفارقت دے گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ ان پر رحم فرمائے۔ اللہ سب پر رحم فرمائے۔ اللہ مجھ پر بھی رحم فرمائے۔آمین۔

تبصرے بند ہیں۔