صلاحیتوں کو پہچاننے اور ترقی دینے کی ضرورت

سید جلال الدین عمری

الحمد للہ رب العالمین۔ والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین۔ وعلی آلہ وأصحابہ أجمعین۔ ومن تبعھم باحسان الی یوم الدین ۔ اما بعد!

ہم سب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر بہت سی صلاحیتیں رکھی ہیں ،اسے غیر معمولی قابلیتوں سے نوازا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں جن لوگوں نے بڑے بڑے کام انجام دیے ہیں ،انھوں نے بھی صحیح معنوں میں اپنی تمام صلاحیتوں کا استعمال نہیں کیا۔ بعض ہی صلاحیتیں ان کی روبۂ عمل آئیں ،بعض صلاحتیں دب کر رہ گئیں یا ان کو ابھر نے کا موقع ہی نہیں ملا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو صلاحیتیں دی ہیں ،اس کی ذمہ داری ہے کہ ان صلاحیتوں سے واقف ہو اوران کو اس کی مرضی کے مطابق استعمال کرے۔ یہ صلاحیتیں اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں۔ اس پر ہمیں اس کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ ارشاد ہے:

وَاللّہُ أَخْرَجَکُم مِّن بُطُونِ أُمَّہٰتِکُمْ لاَ تَعْلَمُونَ شَیْْئاً وَجَعَلَ لَکُمُ الْسَّمْعَ وَالأَبْصَارَ وَالأَفْئِدَۃَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ(النحل: 78)

’’اللہ نے تم کو تمھاری مائوں کے پیٹوں سے اس طرح پیدا کیا کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے۔ اس نے تمھیں کان دیے، آنکھیں دیں اور دل عطا کیا، تاکہ تم اس کا شکر ادا کرو‘‘۔

یہ دنیا کیا ہے؟ کس نے پیدا کی ہے؟اس کے مسائل کیا ہیں ؟ اس میں ہماری حیثیت کیا ہے؟ہم یہاں کیا کر سکتے ہیں؟ ان تمام چیزوں سے ہم بے خبر تھے۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں غور وفکر کی، سوچنے سمجھنے کی جو صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں، وہ اس لیے ہیں، تاکہ ہم ان کے ذریعہ اس بے خبری کو ختم کریں ۔ دنیا میں بے خبر ہو کر آئے ہیں، لیکن بے خبر ہو کر نہ رہیں، اپنے مقصدِ حیات سے واقفیت حاصل کریں۔ اگر ہم ان صلاحیتوں کو صحیح طریقہ سے استعمال کریں گے تو ان میں اضافہ ہوگا اورہم بے خبری اور جہالت کی زندگی نہیں گزاریں گے۔

 اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت سے صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں ،لیکن تین (3) صلاحیتوں کا تذکرہ قرآن مجید میں بار بار آیا ہے:سننے کی صلاحیت ، دیکھنے کی صلاحیت اور غورو فکر کرنے کی صلاحیت ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ انسان کے لیے علم کے جو ذرائع ہیں، ان کا تعلق بیش تر انہی تین چیزوں سے ہے۔ انسان بہت سی چیزوں کو دیکھ کر سمجھتا ہے، ایک بڑا حصہ وہ ہے جس کو سن کر جانتا ہے اور پھردل و دماغ کے ذریعے ان سے نتائج اخذ کرتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ ۔الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (العلق:3۔4)

’’پڑھو، تمارا رب بڑا برتر ہے، جس نے تمھیں قلم کے ذریعے علم سکھایا ‘‘

یہ گویا علم کی بنیاد ہے۔ شروع ہی میں کہہ دیا گیا کہ اللہ کے نام سے اس کا آغاز ہو۔ ایک طرف اس میں یہ بات کہی گئی کہ پڑھو اللہ کے نام سے۔ ظاہر ہے، اس کا تعلق انسان کے مطالعہ سے ہے۔ اس کے بعد دوسری بات یہ فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو قلم کی نعمت دی ،یعنی قلم کے ذریعہ اسے تعلیم دی۔ قرآن مجید میں قلم کے تعلق سے بہت سی باتیں کہی گئی ہیں ۔یہاں جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انسان پر اللہ تعالیٰ کاایک احسان یہ بھی ہے کہ اس کو صرف پڑھنا ہی نہیں سکھایا ،بلکہ قلم کی طاقت بھی دی ہے۔ جب قرآن مجید نازل ہو رہا تھا، اس وقت کسی درجے میں انسان قلم کے استعمال سے واقف ہو چکا تھا۔ اسلام آنے کے بعد اس میدان میں اور زیادہ ترقی ہوئی اور اسے اسلام نے بہت اعلیٰ مقام تک پہنچا دیا۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کوقوت ِ گویائی عطا کی ہے، وہ اپناما فی الضمیر بیان کر سکتا ہے،جذبات و احساسات کو بھی بڑی حد تک الفاظ کی شکل دے سکتا ہے، اصحاب ِ فکر اور سوچنے سمجھنے والے افراد اپنے افکار و خیالات پیش کر سکتے ہیں اور پیش کرتے رہے ہیں ۔ اس پر بحث و مباحث بھی ہوتا رہا ہے، لیکن انھیں محفوظ رکھنے کا طریقہ اسے معلوم نہیں تھا کہ ان سے ان کے مخاطب بھی استفادہ کریں اور آئندہ نسلیں بھی اس سے فائدہ اٹھاسکیں ۔ قلم کے ذریعہ اس نے اس کا طریقہ سیکھا اور علم و فن کی تاریخ وجود میں آئی۔ یہ دنیائے علم کا بڑا انقلاب تھا۔

 اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو صرف پڑھنے کی نعمت نہیں عطا کی ،بلکہ انہیں قلم کی دولت سے بھی نوازا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر بڑا احسان ہے۔ زبان اور قلم فروغِ علم کے یہی دو ذرائع ہیں جنہیں اب تک انسان استعمال کرتا رہا ہے۔ اب پڑھنے لکھنے کے نئے نئے طریقے وجود میں آگئے ہیں ۔ کمپیوٹر اور دوسرے جدید آلات کے ذریعہ تعلیم اور تعلّم کا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن بہر حال اصلاً یہی دو ذرائع ہیں جن سے آدمی پڑھے گا یا پڑھائے گا،یا اپنی چیزوں کو دوسروں تک منتقل کرے گا۔ اسی سے ہمیں معلوم ہوگا کہ ماضی میں کیا ہوتا رہا ہے؟اب کیا ہو رہا ہے؟ اور آئندہ کیا ہو سکتاہے؟

یہ ایک واقعہ ہے کہ اس دنیا میں ہر انسان کچھ مخصوص صلاحیتیں لے کر پیدا ہوتا ہے۔ مثلاََذہانت و فطانت کولیجئے۔ بچپن ہی سے اندازہ ہوتا ہے کہ کون ذہنی طور پر تیز اور معاملہ فہم ہے اور کون نسبتاً کم فہم اور کند ذہن ؟ کس کا حافظہ اچھا ہے اور کس کی یادداشت کم زور ہے؟ بعض لوگوں میں خدمت کا جذبہ ہوتا ہے ۔ وہ دوسروں کے اوپر خرچ کر تے اور اپنا مال لٹاتے ہیں۔ ہر ایک کے اندر یہ حوصلہ نہیں ہوتا۔ بہت سے لوگوں کے پاس مال بھی ہوتا ہے، وسائل بھی ہوتے ہیں، لیکن وہ دوسروں پرخرچ کریں ، یہ ضروری نہیں ہے۔ بعض لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو اپنے اوپر بھی خرچ نہیں کرتے ۔ اس طرح کی کم زوری ان کی فطرت ہوتی ہے۔ خوبیاں اورخامیاں فطری ہوتی ہیں اور وراثت میں ملتی ہیں ۔ ان پر قادر ہونا دشوار ہوتا ہے۔

انسان کے اندر جو مخصوص صلاحیتیں پائی جاتی ہیں ان کو جاننا، پہچاننا اور صحیح رخ دینا ایک بہت بڑا کام ہے۔اللہ کے رسولﷺ نے اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ آپٖ ؐنے فرمایا :

تجدون الناس معاد ن، فخیارھم فی الجاہلیۃ خیارھم فی الاسلام اذا فقھوا(مسلم)

’’تم لوگوں کو (سونے چاندی کی) کانوں کی طرح پاؤ گے۔ عہد جاہلیت میں کسی کے اندر کوئی خوبی رہی ہے تو وہ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی باقی رہے گی ‘‘۔

اس حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایاہے کہ جو لوگ جاہلیت میں بہتر تھے اور جن صلاحیتوں اور کچھ خوبیوں کے مالک تھے، وہ ان خوبیوں اور صلاحیتوں کے ساتھ اسلام میں آئیں گے۔ یہاں آنے کے بعد اگر وہ دینی بصیرت بھی اپنے اندرپیدا کر لیں تو اس سے دین کو فروغ ملے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ صلاحیتیں انسان کے اندر فطری طور پر ہوتی ہیں ، اسے چاہیے کہ ان کو محسوس کرے اور دین کی خدمت کے لیے انہیں استعمال کرنے کی کوشش کرے۔

اسی کے ساتھ یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ تعلیم و تربیت سے انسان کی صلاحیتوں کو موڑا جا سکتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے :

فَأَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفاً فِطْرَۃَ اللَّہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْْہَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللَّہِ ذَلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ (الروم:30)

’’اپنا رخ اللہ کی طرف کرو یکسوئی کے ساتھ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی فطرت ہے،جس پر اس نے انسا ن کو پیدا کیا ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ۔ یہی دین قیم ہے۔‘‘

حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنی صحیح فطرت سے ہٹ بھی جاتا ہے ، اس میں اس کے والدین کی غلط تعلیم و تربیت کا دخل ہوتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

ما من مولودٍ الاّ یُولَد علی الفطرۃ، فأبواہ یھوّدناہ أوینصّرانہ أویمجّسانہ۔(بخاری و مسلم)

’’ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، بعد میں اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں ۔‘‘

توحیدکا عقیدہ، شرک سے بیزاری، اللہ کی اطاعت کا جذبہ، یہ تمام چیزیں انسان کی فطرت میں داخل ہیں ۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ اس کے والدین اسے فطرتِ اسلام سے ہٹادیتے ہیں اور یہودی، نصرانی یامجوسی بنا دیتے ہیں ۔ اس سے واضح ہے کہ خاندان ، ماحول ، روایات ، تعلیم و تربیت کے ذریعہ وغیرہ سے انسان کو صحیح رخ بھی ملتا ہے اور غلط رخ بھی۔ جو لوگ غلط رخ پر جا رہے ہیں ،اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ان کو اسی طرح کا ماحول ملا ہے، گھر کا ماحول اسی طرح کا ہے، والدین اسی طرح کے ہیں ، اسکول اسی طرح کا ہے اور پوری فضا اسی طرح کی ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ ان کا رخ بھی غلط ہوجاتا ہے۔ یہ حدیث صاف طور پر بتاتی ہے کہ فطرت سے انحراف انسان کے اندر اس لیے ہوتا ہے کہ والدین اسے غلط رخ پر لے جاتے ہیں ۔

موجودہ دور نے علم کے میدان میں بڑی ترقی کی ہے اور اس کے نئے نئے شعبے کھلے ہیں ۔ لیکن آج کے طرز ِتعلیم کا نقص یہ ہے کہ اس میں طالب علم کے ذہن و مزاج ، رجحانِ طبع اور صلاحیت کو نہیں، بلکہ مارکیٹ کی ضرورت اور تقاضوں کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں یہی رجحان غالب ہے کہ مارکیٹ کی جو ضرورت ہے، تعلیم و تربیت کے ذریعہ اس ضرورت کو پورا کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر بہت سے بچوں کا فطری رجحان سوشل سائنس کی طرف ہو سکتا ہے، لیکن آج ڈیمانڈ ہے فزیکل سائنس کی، تو بچے کو اس میں لگا دیا جاتا ہے۔اس طرح ایک بچہ، جو بڑا ادیب بن سکتا تھا، معاشیات کا ماہر ہو سکتا تھا، میدانِ سیاست کا رہ نما بن کر ابھر سکتا تھا، وہ ڈاکٹر اور انجینیربن گیا ۔ اس لیے کہ ہم نے یہ نہیں دیکھا کہ اس کے اندر کیا صلاحیت ہے؟ لیکن جن لوگوں کو اپنی فطری صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور اپنے مزاج کے لحاظ سے کام کرنے کے مواقع مل جاتے ہیں وہ بہت تیزی سے آگے بڑھتے ہیں اور خوب ترقی کرتے ہیں۔

لوگوں کی صلاحیتوں کو پہچاننا اور ان کو وہ رخ دینا جو مطلوب ہے، کوئی آسان کام نہیں ہے۔جماعت اسلامی ہند نے اپنے قیام کے بعد ہی سے اس کی سعی کی ہے، اس کے نتیجے میں رام پور میں ثانوی درس گاہ کا قیام عمل میں آیا، جس میں جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو علومِ دین سے آراستہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس سے بعض نمایاں علمی شخصیتیں ابھریں ۔ ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی کا قیام بھی اسی مقصد سے ہے، جو ایک طویل عرصہ سے علمی خدمات انجام دے رہا ہے اور نئے افراد کو اس کے لیے تیار بھی کر رہا ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی اسلامی اکیڈمی ہے، جو نئی نسل کو فکری لحاظ سے دین کی خدمت کے لیے تیار کر رہی ہے۔ اب ہمHuman Resource Development شعبہ کے ذریعہ افراد کی صلاحیتوں کو فروغ دینے اور علم و فکر کے مختلف میدانوں میں ان کی رہ نمائی اور تعاون کا کام کرنا چاہتے ہیں ۔ اگر ہم اس میں کام یاب ہوئے تو توقع ہے کہ بہتر نتائج حاصل ہوں گے۔ اس کے لیے شعبہ کو غیر معمولی سعی کرنی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ مدد فرمائے۔

تبصرے بند ہیں۔