صلح حدیبیہ: اسلام کی کھلی فتح

محمد صابر حسین ندوی

اسلام دشمنوں کی عداوت اور نفرت نے مسلمانوں کو مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرنے پر مجبور کردیا تھا، اور وہ اپنا گھر بار، دولت و جائداد، بیوی بچے، خاندان و قبائل سب چھوڑ کر مدینہ چلے آئے تھے ؛لیکن ان کے دلوں میں مکہ کی محبت، کعبہ کی عظمت ہر دم انگڑائیاں لیتی رہتی تھیں ؛یہاں تک کہ اس کی محبت رگ و ریشہ میں پیوست ہوچکی تھی، خون کا جریان بھی اسی پر منحصر تھا، تو دوسری طرف یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے ؛کہ حضرت ابراہیم ؑ کا قائم کردہ وہ کعبہ ہی اسلام کا اصل مرکز تھا، بلکہ اسلام کے ماننے والے مسلمانوں کو’’ مسلمین‘‘ کا لقب بھی انہیں کا ایجاد کردہ تھا :’’ملۃ ابیکم ابراھیم، ھو سماکم المسلمین ‘‘(حج:۷۸)، اسی لئے اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ؛کہ اسلام کوئی نئی شریعت نہیں ؛ بلکہ یہ دین ابراہیمی کی تکمیل ہے، اور یہ دین، دین ابراہیمی کاپرتو اور ختام مسک ہے۔

شریعت اسلامی کے ارکانوں میں سے ایک رکن حج بھی ہے، جو حب الہی و عشق خالق میں دیوانہ وار کعبۃ اللہ کا طواف کرنا، اور صفا ومروہ پر مجنونانہ کیفیت میں سعی کر نے کا نام ہے، ایسے میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ سے زیادہ؛ کون عشق الہی سے معمور ہو سکتا تھا، مزید یہ کہ حب الوطنی کا تقاضہ بھی کچوکے مارتا تھا، اسی درمیان آپؐنے خواب دیکھا کہ :آپ بیت اللہ کا طواف کر رہے ہیں ، چونکہ ایک نبی کا خواب سچا خواب ہوتا ہے، لہذا آپؐ نے اپناخواب صحابہ کرام کو بتلایا ؛شوق ورأفت میں سبھی نے مکہ کا راداہ کیا اور قریش کے احتمالات میں نہ پڑنے کے پیش نظرعمرہ کا احرام باندھا، اور قربانی کے اونٹ بھی ساتھ میں لے لئے؛ بلکہ آپؐ نے تاکیدی طور پرحکم دیا کہ کوئی بھی اپنے ساتھ ہتھیار نہ لے جائے، سوائے ایک تلوار کے جو عرب میں ضروری سمجھاجاتا تھا، اس میں بھی یہ شرط تھی کہ تلوار میان میں ہو۔

آپؐ نے مدینہ منورہ پر ابن ام مکتوم یا نمیلہ لیثی کو اپنا جاں نشین بنایا، اور اپنی قصواء نامی اونٹنی پر سوار ہوکر یکم ذی قعدہ ۶ہجری بروز دوشنبہ کوروانہ ہوگئے، اس سفر میں آپ ؐ کے ہمراہ ام المؤمنین چودہ سو اشخاص کے ساتھ تھے، ذوالحلیفہ پہونچ کر قربانی کے جانوروں کاشعار کیا گیا، یعنی علامت کے طور انہیں قلادہ پہنادئے، کوہان چیر کر نشان بنایا، ساتھ ہی قبیلہ ٔ خزاعہ کے ایک مخبر کو آگے بھج دیا؛تاکہ وہ قریش کے ارداوں کی خبر لائیں ، جب قافلہ غسفان کے قریب پہونچا تو اس نے خبر دی کہ تمام’’احابیش‘‘( حلیف قبائل )کو قریش نے یکجا کرکے بھیج دیا ہے، کہ محمد مکہ میں ہر گز نہ آسکیں اور دوسری طرف قریش مکہ سے باہر مقام ذی طوی فوجیں لے کر آگئے، خالد بن ولید عکرمہ کے ساتھ دوسو سوار لے کر مقدمۃ الجیش کے طور پر آگے بڑھے اور مکہ جانے والی مرکزی وشاہراہ پر واقع کراع الغمیم میں تیار کھڑے ہوگئے، آپؐ نے فوجی حکمت عملی کی بنیاد پر راستہ بدل دیا اور داہنی جانب سے ہوتے ہوئے حدیبیہ پہونچ کر قیام کیا، جو کہ مکہ مکرمہ سے ایک میل کے فاصلہ پر ایک کنویں کا نام تھا، چونکہ معاہدۂ صلح یہیں لکھا گیا تھا؛ اس لئے اس واقعہ کو صلح حدیبیہ کہتے ہیں ، یہاں پانی کی قلت تھی، ایک کنواں تھا وہ پہلے آمد میں ہی خالی ہو گیا؛ لیکن اعجاز نبوی سے اس میں اس قدر پانی آگیا کہ سب سیراب ہوگئے۔

قبیلۂ خزاعہ جو مسلمانوں کے حلیف تھے ؛لیکن ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا تھا ؛اس قبیلہ کے رئیس بدیل بن ورقہ چند آدمیوں کے ساتھ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:قریش کی فوجوں کا سیلاب آرہا ہے، وہ آپ کو کعبہ میں جانے نہیں دینگے، آپؐ نے ارشاد فرمایا: قریش سے کہہ دو کہ ہم عمرہ کی غرض سے آرہے ہیں ، لڑنا مقصود نہیں ، ویسے بھی جنگوں نے قریش کی حالت خراب کر دی ہے اور سخت نقصان پہونچا یاہے، اس لئے ان کے لئے بہتر ہے کہ مدت معین کے لئے معاہدہ و صلح کر لیں اور مجھ کو عرب کے ہاتھ میں چھوڑ دیں ، اس پر بھی اگر وہ راضی نہ ہوئے تو خدا کی قسم میں یہاں تک لڑونگا ؛کہ میری گردن الگ ہوجائے اور خداکو جو فیصلہ کرنا ہو کر دے۔ بدیل نے قریش کو جاکر آپؐ کا پیغام سنایا، اولاً جہالت کی بنا پر وہ بھڑکے؛لیکن سنجیدہ لوگوں نے جن میں عروہ بن مسعود ثقفی جو قریش میں عمر دراز اور صاحب مکان وعزت تھا ؛اس نے اجازت چاہی کہ وہ حضور سے جاکر بات کی جائے، قریش نے اسے اجازت دی، وہ آپؐکے پاس آیا اور آپؐ سے بات کی ؛مگر بات نہ بن سکی اور واپس لوٹ گیا، لیکن وہ حضورﷺ کی ملاقات سے اتنامتأثر ہواکہ اس نے قریش سے جاکر کہا:میں نے قیصر و کسری اور نجاشی کے دربار دیکھے ہیں ؛ لیکن صحابہ کرام کی آپؐ کیلئے یہ محبت و فریفتگی کہیں نہیں دیکھی، جب آپ بات کرتے ہیں تو سناٹا چھاجاتا ہے، آپ کے وضوکا پانی یا بلغم اور تھوک زمین پر گرنے نہیں پاتا؛ کہ خلقت ٹوٹ پرتی ہے اور اسے لیکر عقیدت میں چہرہ اور ہاتھوں پر مل لیتی ہے۔

چونکہ معاملہ ابھی ناقص رہ گیا تھا، اس لئے قریش نے اب مسلمانوں پر حملہ کرنے کیلئے دستہ بھجا، لیکن یہ لوگ۔ یہ لوگ اپنے منصوبے میں کامیاب نہ ہوسکے، اور سارے کہ سارے گرفتار کرلئے گئے گو یہ سخت شرارت تھی، مگر رحمت عالم نے اپنے دامن عفو میں انہیں جگہ دی، اور صلح کی خاطر انہیں معاف کرتے ہوئے آزاد کردیا، اسی کے بارے میں اللہ کا ارشاد نازل ہوا:’’ھوالذی کف أیدیھم عنکم وأیدیکم عنھم ببطن مکۃ من بعد أن أظفرکم علیھم وکان اللہ بما تعلمون بصیرا‘‘(الفتح:۲۴)، بالآخر آپؐ نے گفتگو کے لئے حضرت عمر کو بھیجنا چاہا؛ لیکن انہوں نے مکہ میں اپنا کوئی حلیف نہ ہونے اور خاندان کے کسی فرد کے نہ ہو نے کی وجہ سے معذرت کردی، تب حضرت عثمانؓ اپنے عزیز سعید بن عاص کی حمایت میں مکہ گئے، اور حضورﷺ کاپیغام سنایا، قریش نے انہیں نظر بند کر لیا، لیکن خبر یہ پھیل گئی کہ قریش نے انہیں قتل کر دیا ہے، جب یہ خبر آپؐ کو ملی تو آپؐ نے فرمایا:عثمان کے خون کا قصاص لینا فرض ہے، یہ کہہ کرآپؐ ببول کے درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور صحابہ کرامؓ سے جاں نثاری کی بیعت لی ؛اسی بیعت کو’’ بیعت رضوان‘‘کہتے ہیں، یہ لمحہ عنداللہ اتنا مقبول ہواکہ :اس بیعت بلکہ اس درخت کا بھی ذکر قرآن میں کیا گیا’’لقد رضی اللہ عن المومنین اذ یبایعونک تحت الشجرۃ‘‘(الفتح:۱۸)۔

حقیقت اس کے برعکس تھی یعنی حضرت عثمانؓ کے قتل کی خبر ایک افواہ تھی، مگر پھر بھی قریش کے لئے اب کوئی راستہ نہیں تھا، وہ پہلے ہی مسلمانوں سے بارہا شکست کھاچکے تھے اور ان کے اکثر زعماء مارے جاچکے تھے، چنانچہ انہوں نے صلح کے لئے خطیب قریش سہیل بن عمر کو یہ کہہ کر ؛کہ محمد اس سال واپس چلے جائیں ؛صلح کے لئے بھیجا، سہیل کو آتے دیکھ :حضورﷺ نے یہ فال نکالی کہ اب معاملہ آسان ہوگا، اور ایسا ہی ہوا، سہیل اور حضور ﷺ کے درمیان گفتگوہونے لگی اور چند شرائط پر اتفاق ہوا:جن کی دفعات یہ تھی۔ ۱۔ مسلمان اس سال واپس چلے جائیں ۔ ۲:۔ اگلے سال آئیں اور صرف تین دن قیام کرکے چلے جائیں ۔ ۳:ہتھیار لگا کر نہ آئیں ، صرف تلوار ساتھ لائیں وہ بھی نیام میں ہو۔ ۴:۔ مکہ میں جو مسلمان پہلے سے مقیم ہیں ان میں کسی کو اپنے ساتھ نہ لے جائیں اور مسلمانوں میں جو مدینہ سے مکہ آنا چاہیں انہیں نہ روکیں ۔ ۵:۔ کافروں اور مسلمانوں میں سے اگر کوئی شخص مدینہ جائے تو واپس کردیاجائے؛ لیکن اگر مسلمان مکہ میں آئے تو واپس نہیں کیا جائے گا۔ ۶:۔ قبائل عرب کو اختیار ہوگا کہ فریقین میں سے جس کے پاس چاہیں معاہدے میں شریک ہو جائیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ شرطیں لکھی ہی جا رہی تھیں کہ سہیل کے ہی صاحبزادے ابوجندل ؛جنہیں اسلام کی پاداش میں قسم ہا قسم کی اذیتیں دی گئی تھی، بابہ زنجیر حضورﷺ کے سامنے ڈال دیا اور اپنے حفاظت کاسوال کیا، لیکن سہیل نے معاہدے کی رو سے کہا کہ اس کو واپس کردیں ، آپؐ نے بہت اصرار کیا لیکن وہ نہ مانا اور بادل نخواستہ انہیں واپس کردیا گیا، جوکہ صحابہ کرام ؓ کو بھی سخت گراں گزرا۔

معاہدے کے مطابق آپؐ اس سال عمرہ نہ کر سکتے تھے، اور نہ ہی مکہ میں داخل ہو سکتے تھے اس لئے آپؐ نے لوگوں کو حکم دیا کہ یہی پر قربانی کریں اوراحرام کھول دیں ؛لیکن لوگ اس قدر شکستہ دل تھے؛ کہ ایک شخص بھی نہ اٹھا، آپؐ ام المؤمنین حضرت ام سلمہؓ کے پاس گئے اور پورا واقعہ بتایا، جس پر انہوں نے حکمت ودانائی کی بات کہتے ہوئے کہاکہ:آپ کسی سے کچھ نہ کہئے بلکہ باہر نکل کر خود قربانی کریں اور احرام اتارنے کے بعد بال منڈوالیں ، چنانچہ آپؐ گئے اور خود قربانی کی، بال منڈوائے، یہ دیکھ کر صحابہ کرام ؓ سمجھ گئے کہ اس فیصلہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ؛تو سب نے قربانی کی اور احرام اتار دیا۔ صلح کے بعد تین دن حدیبیہ میں ہی قیام کیا اور پھر روانہ ہوئے، راستے میں سورۂ فتح کی یہ آیتیں نازل ہوئیں ’’انا فتحنا لک فتحا مبینا‘‘(الفتح:۱)مسلمانوں کو اس پر بڑی حیرت ہوئی، حضرت عمر ؓ نے استعجاباًپوچھا کہ کیا یہ فتح ہے؟ارشاد ہوا :نعم۔ ۔ ۔ ہاں ۔

واقعہ یہ ہے کہ اس ’’ہاں ‘‘ کی تصدیق آئندہ زمانے نے بخوبی کی ؛کیونکہ اب تک مسلمان اور کفار ملتے جلتے نہ تھے اورباہمی اختلافات، غزوات اور قتل و غارت گری میں مبتلا تھے ؛لیکن اب یہ موقع ملا کہ دشمن اسلام مدینہ منورہ آئیں اور اسلام قبول کریں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور مسلمانوں کا اکرام دیکھیں ، مسلمانوں کا اخلاص، حسن عمل، نیک کاری اور پاکیزہ اخلاق کی زندہ تصویر کا بغور ملاحظہ کریں ، چنانچہ ابن شہاب زہری کہتے ہیں :اسلام کو اس سے پہلے اتنی بڑی فتح حاصل نہیں ہوئی تھی؛جب فریقین میں صلح ہوئی، جنگ بندی کا اعلان ہوا اور لوگ بلا خوف و خطر ایک دوسرے سے ملنے لگے، ان کے ساتھ رہنے اور بات چیت کرنے کا موقع ملا، جس سمجھدار آدمی سے اسلام کے بارے میں گفتگو کی جاتی، وہ دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتا، تنہا ان دو برسوں میں اتنے آدمی داخل اسلام ہوئے جتنے اب تک نہیں ہوئے تھے ؛بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ۔ ابن ہشام کہتے ہیں : زہری کے قول کی مزید دلیل یہ ہیکہ :رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حدیبیہ میں ایک ساتھ چار سولوگ تھے، اس کے دو سال بعد فتح مکہ کے موقع پر آپؐ کے ساتھ دس ہزارصحابہ کرام ؓ کی جمعیت تھی، حضرت خالد(فاتح شام)اور حضرت عمرو بن عاص (فاتح مصر) کا اسلام بھی اسی زمانے کی یادگار ہے۔

اس صلح میں ایک دفعہ یہ بھی تھی کہ اگر کوئی مکہ سے اسلام لا کر مدینہ آجائے تو لوٹا دیاجائے گا، جس کی پابندی کرتے ہوئے ابو جندل اور پھر ابو بصیر صحابی کو بھی لوٹادیا گیا تھا ؛لیکن ابوبصیر جو بنو ثقیف سے تعلق رکھتے تھے اور قریش کے حلیف تھے، درمیان راستہ ہی میں مقام ذوالحلیفہ پہونچ کر ان کے ساتھ دو موجود شخصوں میں سے ایک کو قتل کردیا، جبکہ دوسرا بھاگ گیا ؛ایسے میں انہونے اپنے آپ کو چھڑا کر، آبادی سے دور سمندر کنارے کا سہارا لیا، اب یہ حال تھا کہ مکہ میں قید مسلمان جن پر ظلم و جور ہوتا اور وہ قوت برداشت سے باہر ہوجاتا تو بھاگ کر ابو بصیر سے جاملتا، سب سے پہلے عتبہ بن اسید آکر ملے اور یہاں پر اتنی بڑی جماعت تیار ہوگئی ؛کہ قریش کا ہر کاروان تجارت جو شام جاتا تھا ؛اسے روک لیتے اور لوٹ لیتے تھے، چونکہ یہ تجارت ہی انکی زندگی کا معاش اور سہارا تھا؛ لہذا وہ معاشرتی سطح پر بہت زیادہ پریشان ہوئے اور انہوں نے خود حضورﷺ سے درخواست کی ؛کہ عہد کے اس دفعہ کو توڑ دیا جائے اور اگر مسلمان چاہیں تومدینہ میں جا کر مقیم ہو سکتے ہیں ، ہم اس سے تعرض نہیں کرینگے ؛چنانچہ ابو جندل، ابو بصیر اور ان کے ساتھی مدینہ میں آکر آباد ہوگئے اور قریش کے لئے تجارت کا راستہ بدستور کھل گیا، اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے بہت ساری مظلوم صحابیات رضی اللہ عنھا مدینہ آکر اسلام کے سایہ شفقت اور تعلیم وتعلم میں زندگی گزارنے لگیں ؛اس طرح بظاہر یہ شکست کھلی فتح میں تبدیل ہو گئی، قرآن نے سچ کہا تھا:’’انا فتحنا لک فتحا مبینا‘‘۔ (صلح حدیبیہ کی تفصیلات کیلئے دیکھئے:فتح الباری:۷؍۴۳۹تا ۴۵۸، بخاری:۱؍۳۷۸ تا ۳۸۱، ۲؍۵۹۸، مسلم:۲؍۱۰۴، ۱۰۵، ۱۰۶، سیرت ابن ہشام:۲؍۳۰۹تا ۳۲۲، زاد المعاد:۲؍۱۲۲ تا۱۲۷، مختصر السیرللشیخ عبداللہ:ص-۲۰۷ تا۳۰۵، تاریخ عمر بن الخطاب لابن الجوزی:ص-۳۹، ۴۰)

تبصرے بند ہیں۔