یہ جو باتیں ہیں پسِ شعر و سخن میرے دوست

امیر حمزہ سلفی

یہ جو باتیں ہیں پسِ شعر و سخن میرے دوست

تیری ان باتوں سے جلتا ہے بدن میرے دوست

آپ کے بعد تو ویرانے کا ویرانہ ہے

آپ کے دم سے تھا آباد چمن میرے دوست

بد دعائیں نہ وفا دینے لگے تجھ کو بھی

دل کے ٹکڑوں کو تو  دے دینا  کفن  میرے دوست

کوئی مجبوری بھی ہو سکتی ہے اس فیصلے میں

شاید اپنا بھی نہ ہوپائے ملن میرے دوست

وہ مرا ہو کے کسی اور کی تقدیر بنا

دل سے جاتی ہی نہیں ہے یہ چبھن میرے دوست

اہل دنیا کے مقدر میں تو جاگیریں ہیں

اور حمزہ کے لیے حرفِ سخن میرے دوست

تبصرے بند ہیں۔