صلح حدیبیہ کا پیغام کیا ہے؟

تحریر: محمد خواجہ عارف الدین … ترتیب: عبدالعزیز

’’حدیبیہ‘‘ ایک کنویں کا نام ہے جو مکہ معظمہ سے 9 میل کے فاصلے پر واقع ہے، اسی جگہ کفارِ مکہ اور مسلمانوں کے درمیان ذیقعدہ 6ہجری میں صلح ہوئی تھی، اسی مناسبت سے اس کو ’صلح حدیبیہ‘ کہا جاتا ہے۔ تاریخ اسلام میں اس کو بڑی اہمیت حاصل ہے، یہ صلح بظاہر مغلوبانہ اور دب کر ہوئی تھی، تاہم قرآن مجید نے اسے ’’فتح مبین‘‘(کھلی ہوئی کامیابی) قرار دیا اور ہوا بھی ایسا ہی؛ یعنی اسلام کی کامیابی، دین کی اشاعت اور مسلمانوں کی آزادانہ نقل و حرکت کیلئے راستے ہموار ہوگئے، جس کے نتیجے میں صرف دو سال کی مدت میں اس قدر کثرت سے لوگ ایمان لائے کہ ابتدائِ بعثت سے اب تک اتنے مسلمان نہ ہوئے تھے، صلح کے دفعات اور پس منظر پیش نظر رہیں تو کامیابی اور فتح کا راز سمجھ میں آسکتا ہے۔
’’خانہ کعبہ‘‘ اللہ کا گھر ہے، آج کی طرح اس زمانے میں بھی ساری دنیا والوں کا اس سے جذباتی تعلق تھا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایمان و توحید کے سبب مکہ مکرمہ سے نکال دیئے گئے تھے، وہ مدینہ میں رہتے؛ لیکن ان کا دل بیت اللہ اور مکہ شہر میں لگا رہتا کہ وہ ان کا قدیم اور محبوب وطن تھا، ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور کچھ صحابہ کرامؓ امن کے ساتھ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور عمرہ کرکے بعض اصحابؓ نے سر منڈوایا اور بعض نے بال کتروائے، نبی کا خواب سچا ہوا کرتا ہے؛ اس لئے آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے اس خواب کا تذکرہ کیا، خواب سنتے ہی دلوں میں بیت اللہ کی محبت اور شوق کی چنگاری جو دبی ہوئی تھی وہ بھڑک اٹھی اور زیارت بیت اللہ کے شوق نے انصار و مہاجرین کو بے چین اور بے تاب بنا دیا، دو شنبہ کا دن تھا اور ذی قعدہ کی پہلی تاریخ تھی، تقریباً پندرہ سو مہاجرین و انصار پر مشتمل ایک گروہ کے ساتھ آپؐ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے، ارادہ چونکہ لڑنے کا نہیں تھا؛ ا س لئے ہتھیار اور سامانِ حرب ساتھ نہیں لئے تھے؛ البتہ ایک تلوار جو عرب میں سفر کا ضروری آلہ سمجھا جاتا تھا ، ساتھ لئے اور وہ بھی نیام اور غلاف میں؛ تاکہ کفار مکہ کو کسی طرح شک و شبہ نہ ہوسکے، قربانی کے اونٹ بھی ساتھ تھے، جن کی گردن میں قلادہ ڈال دیا گیا تھا، جس سے صاف ظاہر تھا کہ بقصد عمرہ یہ لوگ روانہ ہوئے ہیں، ذوالحلیفہ پہنچ کر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے احرام باندھا اور عسفان کی راہ سے مقام حدیبیہ پہنچ گئے۔
ادھر قریش کو جب معلوم ہوا تو ان لوگوں نے آپس میں میٹنگ کی اور متفقہ طور پر یہ طے کیا کہ مسلمانوں کو مکہ شہر میں داخل ہونے نہیں دیں گے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف سفیروں کے ذریعہ یہ خبر بھیجی کہ ہم لوگ صرف عمرہ کرنے کی نیت سے آرہے ہیں، جنگ مقصود نہیں، بسیار کوشش کے باوجود کفار مکہ راضی نہ ہوئے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا احساس تھا کہ وقفہ وقفہ سے اس طرح جنگ و جدال کے سبب اسلام کی روشنی پوری طرح نہیں پھیل رہی ہے؛ اس لئے آپؐ نے صلح کی تجویز پیش کی۔ قریش کو جنگ کے نقصانات کا پہلے سے ہی اعتراف تھا؛ اس لئے وہ راضی ہوگئے اور سہیل بن عمر کو سفیر بناکر بھیجا مگر اس تاکید کے ساتھ کہ اس سال مسلمانوں کو مکہ مکرمہ آنے نہ دیا جائے، سہیل آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور دیر تک صلح کی شرائط اور متعلقات پر گفتگو ہوتی رہی، بالآخر چند شرطوں پر اتفاق ہوا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو آپؐ نے بلایا؛ تاکہ وہ صلح کے الفاظ لکھیں، عرب کا قدیم طریقہ تھا کہ خطوط یا کسی تحریر سے قبل ’’بِاسْمِکَ اَللّٰہُمَّ‘‘ لکھا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی طریقے کے مطابق ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ لکھنے کا حکم دیا، جو اولیٰ اور بہتر ہے، سہیل نے قدیم دستور کے مطابق ’باسمک اللہم‘ ہی لکھنے پر اصرار کیا، آپ نے فرمایا ٹھیک ہے، یہی لکھو اور پھر فرمایا کہ یہ لکھو ’’ہٰذا مَا قَاضِی عَلَیْہِ مُحَمَّد رَّسُوْلُ اللّٰہ‘‘ (یہ وہ عہد نامہ ہے جس پر محمد اللہ کے رسول نے صلح کی ہے)۔سہیل نے کہا: ’’اگر ہم آپ کو پیغمبر ہی تسلیم کرتے تو پھر جھگڑا کیا تھا؟ آپ صرف اپنا اور اپنے والد کا نام لکھائیں‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم بھلے اقرار نہ کرو مگر خدا کی قسم! میں اللہ کا رسول ہوں‘‘ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’یہ الفاظ مٹاکر ان کی خواہش کے مطابق صرف میرا نام لکھ دو‘‘، حضرت علیؓ اپنے ہاتھ سے مٹانے پر تیار نہ ہوئے کہ جو حق ہے اور جس پر ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے، اسے کس طرح مٹایا جائے؟ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے ’’رسول اللہ‘‘ کا لفظ مٹایا اور اس کی جگہ ’’محمد بن عبداللہ‘‘ لکھنے کا حکم دیا، پھر اس کے نیچے حسب ذیل شرائط لکھے گئے:
(1 مسلمان اس سال واپس چلے جائیں۔ (2 اگلے سال آئیں اور صرف تین دن قیام کرکے چلے جائیں۔ (3 ہتھیار لگاکر نہ آئیں، صرف تلوار ساتھ لائیں وہ بھی نیام یا غلاف میں۔ (4 قریش کا جو شخص مدینہ جائے گا وہ واپس کیا جائے گا اگر چہ وہ مسلمان ہوکر جائے اور جو شخص مسلمانوں میں سے مدینہ سے مکہ آجائے وہ واپس نہیں کیا جائے گا۔ (5 دس سال تک آپس میں لڑائی موقوف رہے گی۔ (6 اس درمیان کوئی ایک دوسرے پر تلوار نہ اٹھائے گا اور نہ کوئی کسی سے خیانت کرے گا۔ (7 قبائل کو اختیار ہے کہ جس کے معاہدہ اور صلح میں شریک ہونا چاہیں شریک ہوجائیں۔
ابھی صلح نامہ لکھا ہی جارہا تھا کہ سہیل کے صاحبزادے حضرت ابو جندلؓ پا بہ زنجیر حاضر خدمت ہوئے اور کافروں کے پنجے سے بچانے کی درخواست کی، یہ اسلام لاچکے تھے، کافروں نے ان کو قید کر رکھا تھا اور طرح طرح کی اذیتیں دیتے تھے، کسی طرح بھاگ کر پاؤں میں بیڑیاں پہنے ہوئے صلح حدیبیہ کے وقت آنے میں کامیاب ہوگئے، سہیل نے کہاکہ یہ پہلا شخص ہے، شرائط صلح کے مطابق واپس ہونا چاہئے، آپؐ نے فرمایا کہ ابھی تو صلح نامہ بھی مکمل نہیں ہوا اور دستخط بھی باقی ہے؛ اس لئے ان کو چھوڑ دیا جائے، آپ کے بار بار خواہش کے باوجود سہیل راضی نہیں ہوا، بالآخر آپؐ نے ابو جندل کو ان کے حوالہ کر دیا اور تسلی کے کلمات کہتے ہوئے دعائیں دیں، ابو جندل کو کافروں نے اس طرح مارا تھا کہ ان کے جسم پر ضرب کے کئی نشانات آگئے تھے، انھوں نے عام مسلمانوں سے نشان دکھاتے ہوئے کہا: ’’میں مظلوم ہوں اور ستایا جارہا ہوں، کیا میں اسی طرح ہمیشہ کافروں کے قبضے میں تڑپتا رہوں گا‘‘، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ضبط نہ کر سکے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپؐ پیغمبر برحق نہیں ہیں ؟ آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں! ہوں‘‘، حضرت عمرؓ نے پھر کہا: ’’کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟‘‘ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ہاں! ہم حق پر ہیں‘‘ حضرت عمرؓ نے کہا: ’’حق پر رہتے ہوئے پھر یہ ذلت گوارہ کیوں؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’میں اللہ کا رسول اور نبیؐ برحق ہوں، خدا کے حکم کی نافرمانی نہیں کرسکتا، خدا میری مدد کرے گا، حضرت عمرؓ نے پھر کہا: کیا آپؐ نے نہیں فرمایا تھا کہ ہم لوگ کعبہ کا طواف کریں گے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’لیکن یہ تو نہیں کہا تھا کہ اسی سال کریں گے‘‘ حضرت عمرؓ وہاں سے اٹھ کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور وہاں بھی یہی گفتگو کی، حضرت ابوبکر ؓ نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پیغمبر ہیں جو کچھ کرتے ہیں اسی کے حکم سے کرتے ہیں‘‘ (صحیح البخاری، کتاب الصلح، حدیث نمبر 2699، کتاب الشروط، حدیث نمبر 2731-2732) ۔
بلا شبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مخلص تھے، ان کے اخلاص میں شبہ نہیں کیا جاسکتا ہے، تاہم اس طرح سوال و جواب بظاہر خلاف ادب تھا، جس پر حضرت عمر فاروقؓ کو بعد میں کافی شرمندگی ہوئی اور پوری زندگی اس کا رنج رہا، حضرت عمر فاروقؓ جذبات سے مغلوب ہوگئے تھے، بے اختیار ان سے یہ جملے سرزد ہوئے؛ لیکن ایمان و اتباع اتنا کامل تھا کہ بعد میں جب ظاہری گستاخی کا احساس ہوا تو فوری اس پر ندامت ہوئی اور ہمیشہ باقی رہی، اسی کے ساتھ کفارہ کے طور پر انھوں نے نمازیں پڑھیں، روزے رکھے، خیرات کئے اور بہت سے غلام آزاد کئے۔
صلح کی شرائط پر غور کیا جائے تو صاف واضح ہوتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بظاہر دب کر اور کفار مکہ سے مرعوب ہوکر صلح کیا تھا؛ اسی لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مغموم اور شکستہ خاطر تھے، وہ سوچ رہے تھے کہ اسلام کے پندرہ سو سر فروش مجاہدین کے سامنے قریش اور ان کے حلیف قبائل کی کیا حیثیت ہے، آپؐ ایک اشارہ کریں تو خون آشام تلواریں کفار مکہ کے سروں کو تن سے جدا کرسکتی ہیں مگر یہ ذلت اور مغلوبیت کی صلح کیوں کی گئی، ظاہر ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک نگاہیں اس صلح کے جن عواقب و نتائج کو دیکھ رہی تھیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان سے ناواقف تھے، ان کی نظریں ظاہری سطح پر تھیں؛ اس لئے ان کو یہ معاہدہ ناگوار گزرا، تاہم اللہ تعالیٰ نے اس صلح میں کافی فوائد اور ثمرات رکھے تھے؛ اس لئے آپؐ کا سینہ مبارک سخت اور ناخوشگوار واقعات پر تحمل کرنے کیلئے کھول دیا تھا، آپؐ بے مثال استغناء اور توکل و تحمل کے ساتھ ان کی ہر شرط قبول فرماتے رہے، اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمان آزادانہ طور پر دین کی دعوت و تبلیغ کا کام کرنے لگے، اسلام کی صداقت اور اس کے حقائق پر لوگوں کو غور کرنے کا موقع ملے، کفار مکہ سے مسلمانوں کے فاصلے کم ہوئے، صلح کی وجہ سے آمد و رفت شروع ہوئی اور تجارتی تعلقات کی بنیاد پر قریش مدینہ آتے اور مہینوں قیام کرتے، یہاں نفوس قدسیہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تقویٰ و طہارت، ان کی نقل و حرکت، پاکیزہ اخلاق، اخلاص و للہیت، صداقت و امانت دیکھتے اور متاثر ہوتے اور اس طرح اسلامی تعلیمات کی صداقت ان کے دل میں جاگزیں ہوئی اور وہ خود بخود اسلام کے سایۂ رحمت کی طرف کھینچتے چلے آتے، بلاشبہ اسلام میں وہ جاذبیت اور کشش ہے کہ اس میں غور کرنے والا کبھی اسلام سے دور نہیں رہ سکتا، صحابہ محاسن و شمائل کی زندہ تصویر تھے، مگر اب تک عناد اور منافرت کے سبب کفار مکہ کو اس کا ادراک نہیں تھا، صلح کی وجہ سے راستے ہموار ہوئے اور پھر قبائل کے قبائل اسلام میں داخل ہوئے، مورخین نے لکھا ہے کہ صلح حدیبیہ سے فتح مکہ تک اس قدر کثرت سے لوگ اسلام قبول کئے تھے کہ اتنے کبھی اس سے پہلے نہیں کئے تھے۔
یہ صلح حدیبیہ کے غیر معمولی فوائد و اثرات تھے، اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جوش و خروش کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جذبات سے مغلوب ہوجاتے تو شاید اتنی جلد اسلام فروغ نہ پاتا؛ اسی لئے قرآن کریم نے اس صلح کو ’’فتح مبین‘‘ قرار دیا، چنانچہ جب حدیبیہ سے آپؐ مدینہ واپس ہوئے تو راستے میں سورہ فتح {اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحاً مُّبِیْناً} ’’ہم نے آپ کو کھلی فتح عطا کی‘‘ نازل ہوئی، صحابہ کرامؓ نے حیرت سے سوال کیا، کیا یہ فتح ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! بے شک یہ عظیم الشان فتح ہے‘‘ (سنن ابی داؤد، کتاب الجہاد، حدیث نمبر 2738)۔
اس سے مسلمانوں کو یہ پیغام ملتا ہے کہ جذبات اور اشتعال سے کام نہ لیا جائے، غصہ اور اشتعال شیطانی اثر ہے، شیطان انسان کو مختلف تدابیر کے ذریعہ ابھارنا چاہتا ہے تاکہ وہ جذبات میں آکر کوئی ایسا کام کر بیٹھے جو اس کیلئے دور رس نقصانات کا باعث بنے، اس لئے شریعت نے ہمیشہ عفو و درگزر، صبر و تحمل اور سوچ و تدبر کی تعلیم دی ہے۔ حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص بدلہ لینے پر قادر ہو اور اس کے باوجود اپنا غصہ دبائے اور قابو میں رکھے تو اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن مخلوق کے سامنے بلائیں گے اور اختیار دیں گے کہ وہ جنت کی آہو چشم حوروں میں سے جس کو چاہے لے لے‘‘ (سنن ترمذی، حدیث نمبر: 2681)۔
کسی شخص کی کامیابی اور بلندی کا راز یہ ہے کہ انتہائی جذباتی مواقع پر انتہائی عقل و دانش سے فیصلہ کرے، انفرادی زندگی میں متحمل اور صبر و ضبط کی ضرورت تو ہے ہی؛ لیکن اس کی اہمیت اجتماعی جگہوں میں مزید بڑھ جاتی ہے، جہاں مختلف اذہان اور طبیعت کے لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے، اگر صبر و ضبط سے کام نہ لیا گیا تو آپس میں ٹکراؤ اور دشمنی ہوگی، جس کے نتیجے میں اجتماعیت ختم ہوجائے گی اور بکھرے ہوئے تاروں کی طرح انسان بے فیض ہوجائے گا۔
صلح حدیبیہ سے یہ مسئلہ بھی جڑا ہوا ہے کہ انسان پر عملی اسوہ کا زیادہ اثر پڑتا ہے، الفاظ میں اگر تقویٰ و طہارت اور خوف خدا کی ترغیب دی جائے تو اتنا یہ موثر نہیں ہوگی جتنا عملی طور پر اس کو کرکے بتانے سے اثر پڑتا ہے۔ آج مسلمان اپنا کردار، زبان، معاملات، تجارت کو صحیح کرلیں اور اسلامی تناظر میں زندگی کے شب و روز گزارنے لگیں تو تبلیغ کئے بغیر بھی لوگ اسلام سے قریب ہوں گے اور پوری دنیا میں دین کی اشاعت عام ہوجائے گی، اس لئے مسلمانوں کو اپنے کردار، خیالات، سیرت اور زندگی کو پاکیزہ بنانے کی طرف توجہ دینی چاہئے، جیسا کہ صلح حدیبیہ کے بعد قریش اور دیگر مشرکین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی صالح زندگی کو دیکھ کر متاثر ہوئے اور اسلام میں داخل ہونا ان کیلئے آسان ہوگیا۔

تبصرے بند ہیں۔