صلوٰۃ التسبیح کی نماز

ریاض فردوسی

انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اسی کے لئے دین کو خالص رکھیں (ابراہیم) حنیف کے دین پر۔”(البینہ۔آیت۔5)

اخلاص کے متعلق سورۃ الزمر:2-3 میں اللہ کا ارشاد ہے!

”یقیناً ہم نے اس کتاب کو آپ کی طرف حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے پس آپ اللہ ہی کی عبادت کریں، اسی کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے خبردار! اللہ تعالیٰ ہی کے لئے خالص عبادت کرنا ہے۔”۔

اخلاص مسلمان کے عمل کی روح ہے، اخلاص کے بغیر اس کی ساری سعی و کارگزاری بکھرے ہوئے ذرات کی مانند ہیں۔ ””نہیں کوئی نماز بغیر سورہ فاتحہ کے (الحدیث)اس کا اعلان تو ہے،نہیں کوئی نماز،نہیں کوئی عبادت اخلاص اور خلوص کے بغیر(الحدیث)اس کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہے۔ مسجد یں نمازیوں سے بھری ہیں لیکن ان میں نماز قائم کرنے وا لا نظر نہیں آتا؟

مولی علی کرم اللہ وجہ ارشاد فرماتے ہیں۔

میں جنت کے شوق میں عبادت نہیں کرتا،کیونکہ یہ عبادت نہیں تجارت ہے۔ میں دوذخ کے خوف سے عبادت نہیں کرتا،کیونکہ یہ عبادت نہیں غلامی ہے۔ میں عبادت صرف اس لیے کرتا ہوں، کیونکہ میرا اللہ عبادت کے لائق ہے۔

حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے۔۔۔عبادات نہ تو دوزخ کے خوف سے اور نہ جنت کی محبت سے متاثر ہو کر کی جانی چاہئے، رب تعالی کی محبت واحد مقصد ہونا چاہیے۔

رمضان کی رحمتیں اور نعمتیں اور شخص کے لئے جاری ہیں بس فائدے میں وہ ہے جو اس مہینے کی اہمیت سمجھے اوراسے ہاتھ سے نا جانے دے،تہجد ویسے بھی انتہائی اہمیت کی حامل نمازہے جسے سارا سال پڑھنا چاہیئے لیکن رمضان میں تو اسے خصوصیت کے ساتھ ادا کرنا چاہیئے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا!

’تم پر رات کا قیام (نماز تہجد) لازمی ہے کیونکہ تم سے صالحین کا یہ عمل رہا ہے۔‘‘(سنن الترمذی‘2: 194‘ کتاب الدعوات‘ رقم حديث: 3549)  اور دوسری جگہ یہ ارشاد فرمایا۔

’’مومن کی بزرگی قیام اللیل میں ہے اورعزت لوگوں سے استغناء میں ہے۔‘‘

سلسلہ الاحادیث الصحیحہ‘ 4: 526‘ رقم حدیث: 1903)

اخلاص کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اپنے عمل سے محض اللہ واحد کی قربت کا طالب ہو۔نماز صلاتہ تسبیح اخلاص اور پاک نیت سے پڑھی جاتی ہے۔اس نماز میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح کثرت سے بیان کی جاتی ہے اس لئے اس نماز کو صلاۃ التسبیح کہا جاتا ہے۔قیامت تک آنے والے سارے انس وجن کے آخری رسول نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے،صلوۃ تسبیح ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کے ذریعہ سابقہ گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے۔ حضورﷺکرم صلی ا? علیہ وآلہ وصحبہ وسلم نے یہ نماز اپنے محترم چچا صاحب حضرت عباس ؓ کو سکھائی اور فرمایا کہ آپ اس کو پڑھو گے تو اللہ تعالیٰ اپ کے اگلے، پچھلے، قدیم جدید نئے پرانے، دانستہ نا دانستہ، چھوٹے بڑے، خفیہ علانیہ سب گناہ معاف کر دے گا۔(مشکوٰۃ شریف) اس فضیلت کے پیش نظر عمر بھر میں کم از کم ایک مرتبہ تو یہ نماز پڑھنی چاہئے۔

ا س نماز کے پڑھنے کے دو طریقے احادیث سے ثابت ہیں۔ (پہلا طریقہ)چار کعت کی نیت کی جائے او ر الحمد و سورۃ کے بعد رکوع سے پہلے پندرہ مرتبہ یہ کلمات سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر، پڑھیں اور بعض روایت کے موافق ولا حول ولا قوۃ الا با للہ العلی العظیم۔بھی ملا لینا چاہئے۔ پھر رکوع میں رکوع کی تسبیح کے بعد وہی کلمات دس۔10 مرتبہ، پھر رکوع سے اٹھ کر قومہ میں دس مرتبہ پھر سجدہ میں سجدہ کی تسبیح کے بعد دس مرتبہ پھر سجدہ سے اٹھ کر جلسہ میں دس 10 مرتبہ پھر دوسرے سجدہ میں سجدہ کی تسبیح کے بعد دس 10 مرتبہ پھر دوسرے سجدہ سے اٹھ کر بیٹھ جائیں اور دس مرتبہ پڑھیں۔ اس طرح ہر رکعت میں پچھتر 75 تسبیح ہوئیں اسی طرح باقی رکعتوں میں پڑھیں پہلے اور دوسرے قعدہ میں التحیات سے پہلے تسبیح پڑھی جائے اس طرح کلی تسبیحات تین سو 300 ہوجائے گی۔

(دوسرا طریقہ) یہ ہے کہ پہلی رکعت میں ثناء (سبحانک اللّٰھم الخ) پڑھنے کے بعد قراء ت سے پہلے پندرہ مرتبہ یہ کلمات پڑھے۔ پھر قراء ت کے بعد رکوع سے پہلے دس 10 مرتبہ۔ پھر رکوع میں (رکوع کی تسبیح کے بعد)10 دس مرتبہ پھر رکوع سے اٹھ کر (قومہ) میں دس مرتبہ پھر سجدہ میں (سجدہ کی تسبیح کے بعد) دس 10مرتبہ پڑھے اس د وسری ترتیب میں دوسرے سجدہ کے بعد تسبیح پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے، اس طرح ایک رکعت میں پچھتر 75 تسبیح کا عدد پورا ہوجائے گا۔ اور جب دوسری رکعت کے لئے کھڑا ہو تو پہلے پندرہ 15مرتبہ یہ تسبیح پڑھے پھر قرات کے بعد رکوع سے پہلے دس مرتبہ اس طرح چار رکعتیں پوری کرے۔ ان دونوں طریقوں میں سے پہلا طریقہ از روئے سند زیادہ قوی ہے۔ مگر دونوں طریقے صحیح اورقابل عمل ہیں جو طریقہ آسان معلوم ہوا اس کو اختیار کیا جائے۔ اور یہ بھی مناسب ہے کہ کبھی اس طریقہ سے اور کبھی اس طریقہ سے پڑھا جائے کیونکہ دونوں صورتیں روایات حدیث اور تعامل سلف سے منقول و ماثور ہیں اور اس صلوٰۃ التسبیح میں قراء ت فاتحہ کے بعد اختیار ہے کہ جو سورت بھی چاہے پڑھے۔ بعض روایات میں سورہ ا ذا زلزلتاور عادیات اور اذا جآء نصر اللہ اور قل ھو اللہ احد منقول ہے۔ اور بعض روایات میں الھٰکم التکاثر، سورہ العصر، سورہ الکافرون، اور سورہ اخلاص (قل ھو اللہ)وارد ہوا ہے۔(شامی ج۱ ص ۳۴۶)۔

اس نماز کا کوئی وقت معین نہیں ہے۔ اوقات مکروہہ کے علاوہ باقی دن رات کے تمام اوقات میں پڑھنا جائز ہے۔البتہ زوال کے بعد پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔ پھر دن میں کسی وقت پھر رات میں۔ (شامی ج۱ ص ۳۴۶) (فضائل ذکر)ان تسبیحوں کو زبان سے ہر گز نہ گنے۔زبان سے گننے سے نماز ٹوٹ جائے گی۔ انگلیوں کو بند کرکے گننا اور تسبیح ہاتھ میں رکھ کر گننا جائز ہے مع الکراہت۔ بہتر یہ ہے کہ انگلیاں جس طرح اپنی جگہ پر ہیں ویسی ہی رہیں اور ہرہر تسبیح پر ایک ایک انگلی کو اس جگہ دباتا ر ہے (فضائل ذکر، غایۃ الاوطار،شامی)

اگر کسی جگہ تسبیح پڑھنا بھول جائے یا مقررہ عدد سے کم پڑھے تو دوسرے رکن میں اس کو پورا کرے۔البتہ اس تسبیح کی قضا رکوع سے اٹھ کر قومہ میں اور دو سجدوں کے درمیان جلسہ میں نہ کرے کہ چھوٹا رکن میں ہے۔ ان کے بعد جو رکن ہے اس میں چھوٹی ہوئی تسبیح بھی پڑھ لے۔ مثلاً رکوع میں بھول گیا تو پہلے سجدہ میں پڑھ لے اسی طرح پہلے سجدہ کی دوسرے سجدہ میں اور دوسرے سجدہ کی دوسری رکعت میں قیام کی تسبیح کے ساتھ پڑھ لے اور اگر رہ جائے تو آخری قعدہ میں التحیات سے پہلے پڑھ لے(۲) (فضائل ذکر، نجات المسلمین، غایۃ الا وطار) غرض کہ تسبیحات کی تعداد (تین سو ۰۰۳) پوری ہونی چاہئے اور قصداً زیادہ نہ کرنا چاہئے ورنہ بعض علماء کی قول کے موافق اس نماز کا جو خاص ثواب ہے وہ فوت ہوجاتا ہے اور اگر سہواً بالا قصد زیادہ پڑھی گئی تو کوئی مضائقہ نہیں۔ (نجات المسلمین) اگر صلوٰۃ التسبیح میں کوئی سہو ہوجائے تو سجدہ? سہو میں صلوٰۃ التسبیح کی تسبیح نہ پڑھی جائے اس لئے کہ اس نماز کی کل تسبیحات تین سو ہیں وہ چار رکعتوں میں پوری ہوچکیں (ترمذی، شامی) ہاں اگر اس تعداد میں کمی رہی ہو تو سجدہ سہو میں پڑھ لے۔(فضائل ذکر)میں ایک بار (پڑھ سکتے ہیں )۔

ایک شخص نے ایک عورت کا بوسہ لے لیا اور وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   کے پاس آیا اور اس نے اپنے گناہ کے ارتکاب کا اقرار کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: (دن کے دونوں سروں میں نماز قائم رکھ اور رات کے کچھ حصہ میں بھی۔ یقیناًنیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں ) (سورۃ ہود ۴۱۱) تو اس شخص نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   سے فرمایا کہ یہ صرف میرے لئے ہے؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشا د فرمایا: یہ فضیلت میری پوری امت کے لئے ہے۔(متفق علیہ)

ابن ماجہ، السنن، کتاب إقام الصلاۃ والسن فيا، باب ماجاء فی صلوۃ التسبیح، 1: 172. 173، رقم: 1386

 (جامع ترمذی ج1 ص109،الترغیب والترہیب ج 1ص269)سنن ابوداود ج۱ ص ۰۹۱ باب صلوٰۃ التسبیح۔الترغیب والترھیب للمنذری ج۱ ص ۸۶۲ الترغیب فی صلوٰۃ التسبیح۔

تبصرے بند ہیں۔