صوفی نانا

 ڈاکٹر محسن عتیق خان

  صوفی نانا ہمارے خاندان کے سب سے معروف عالم دین اور علاقے کی مشہور ترین شخصیتوں میں سے ایک تھے۔ آپ ہمارے گھرانے کے ان چند مشفق بزرگوں میں سے تھے، جن کی دعائیں اور محبتیں بچپن سے راقم الحروف کے شامل حال رہیں۔ آپ ہمارے حقیقی نانا کے خالہ /پھوپھی زادبھائی تھے اور اسکے ساتھ ساتھ ہمارے پھوپھو نانا یعنی ہماری امی کے پھوپھا کے بھائی بھی تھے۔ آپ دونوں بھائیوں کے گھر ایک دوسرے سے بالکل ملے ہوئے تھے اور ان کے بیچ حائل دیوار میں باورچی خانے کے پاس ایک چھوٹی سی دروازہ نما کھڑکی لگی ہوئی تھی، جو دونوں گھروں کے بیچ رابطے کا کام دیتی تھی۔ امی کے ساتھ جب بھی ہم پھوپھو نانی کے یہاں جاتے تو ہمارا پہلا  حملہ اسی کھڑکی پر ہوتا تھا، کیوں کہ اس کو کھولنے کے بعد دونوں گھروں کے آنگن ہماری دسترس میں آ جاتے تھے اور ہمیں کھیلنے کے لئے ایک وسیع وعریض جگہ مل جاتی تھی۔ اس کھڑکی پر حملے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ اس کے کھولتے ہی ہماری ضیافت اور خاطر وتواضع میں دو گنا اضافہ ہو جاتا تھا، کیوں کہ دوسری طرف  صوفی نانا اور نانی، یعنی آپ کی اہلیہ محتر مہ کی ڈھیر ساری دعاؤں اور پیار کے ساتھ ساتھ ڈھیر سارے شکر کے بتاشے، سنترے والی ٹافیاں اور کھجور کھانے کو ملتے۔ کھجور کی بات نکل آئی تو ایک بات اور بتاتا چلوں کہ عمدہ ترین کھجوریں  پورے کنبے میں صرف آپ ہی کے یہاں کھانے کو ملتی تھیں۔

          صوفی نانا کے یہاں ہماری عیدی بچپن سے بندھی ہوئی تھی، جو شروع میں دو روپئے تھی اور پھر ہماری عمر، وقت،زمانے اور مہنگائی کے ساتھ ساتھ اس میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا اور کبھی بھولے سے بھی ایسا نہ ہوا کہ ہمیں آپ کے یہاں عیدی نہ ملی ہو۔ حالانکہ عیدی ملنے کا یہ مبارک سلسلہ اب تو والدین سے بھی تقریباً منقطع ہو چکا ہے تو دوسرے اقارب و اعزہ کی بات ہی کیا۔ ابھی اسی عید میں آپ نے مجھے اور میرے چھوٹے بھائی کو 50روپئے بطور عیدی عنایت کئے۔ اس سال جب ہم عید کے اگلے روز حسب معمول عید ملنے آپ کے یہاں گئے تو معلوم ہوا کہ آپ ہمارا ہی انتظار کر رہے تھے۔ ڈھیر ساری محبتوں اور دعاؤں سے نوازنے کے بعد نانی نے ہماری جیب میں عیدی رکھتے ہوئے کہا کہ نانا تم ہی لوگوں کا انتظار کر رہے تھے، کسی شدید ضرورت سے قریبی قصبے انہونہ جانا تھا مگر صرف اس لئے نہیں گئے کہ ہمارے ناتی ہر سال کی طرح آج بھی آتے ہوں گے، اب میں ان سے ملنے کے بعد ہی جاوئں گا۔ صوفی نانا ان چند لوگوں میں سے تھے جنہوں نے عید ملنے کی پرانی روایت کو آج بھی گلے سے لگا رکھا تھا، ورنہ اب تو اکثر دروازے خالی یا مقفل ملتے ہیں۔ اس دن صوفی نانا سے مصافحہ کر کے جب ہم نکلے تو ہمیں ذرہ بھر بھی احساس نہیں تھا کہ آپ بس چند مہینوں کے مہمان ہیں۔

          میں نے جب سے ہوش سنبھالا، عید گاہ میں ہمیشہ آپ کو امامت کرتے دیکھا۔ امامت کا یہ شرف آپ کے تقویٰ، خلوص، لگن، اخلاق اور مقبولیت کی وجہ سے 70کی دہائی کے اخیر میں حاصل ہوا تھا۔ امامت کی اس خدمت کو آپ نے اآخرعمر تک انجام دیا۔ عید کی نماز کے بعد آپ سے گلے ملنے والوں کا تانتا سا لگ جاتا اور لوگ جوق در جوق آپ سے معانقہ کرنے کے لئے سبقت کرنے لگتے۔ ہم ٹھہرے سہولت پسند، کہاں اتنی محنت کرتے، اس لئے دو چار لوگوں سے گلے مل کر چپ کے سے چاٹ کی دوکانوں کی طرف نکل جاتے،دل کو یہ تسلی دیتے ہوئے کہ کل تو آپ کے یہاں جانا ہی ہے،وہیں گھر پر مل لیں گے۔ حلانکہ کئی بار ایسا ہوتا کہ عید گاہ کے میلے سے فراغت کے بعد جب ہم قبرستان میں داخل ہوتے تو آپ وہاں سے باہر آتے ہوئے یا اندر جاتے ہوئے مل؛ جاتے اور بڑیی شفقت سے راستے میں ہی ہمیں گلے لگا لیتے اور اس طرح بغیر کسی محنت کے وہ سعادت ہمیں حاصل ہو جاتی جس کے لئے لوگ عید کی نماز کے بعد مشقت کرتے نظر آتے تھے۔

          میں نے اپنی کتاب   The Khans of Satanpurwa لکھتے وقت  2012 یں  صوفی نانا کا ایک مختصر سا انٹرویو کیا تھا جس میں آپ کی زندگی کے تعلق سے بنیادی معلومات جمع کی تھیں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان معلومات کا یہاں تذکرہ کر دیا جائے تاکہ یہ مضمون نہ صرف میری یادداشت کے طور پر جانا جائے بلکہ صوفی نانا کے تعلق سے ایک دستاویزی حیثیت کا حامل ہو۔

          صوفی نانا کا پورا نام مولانا ضامن علی خان تھا اور اپنے علاقے میں صوفی صاحب کے نام سے معروف تھے۔ آپ 2 فروری  1940میں رائے بریلی میں واقع ساتن پوروہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں گڑھی دلاور میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی اور ثانوی تعلیم ساتن پوروہ کے گورمنٹ اسکول میں حاصل کی جو  1958میں مکمل ہوئی۔ اس کے بعد آپ نے کچھ سال گاؤں میں قیام کیا اور پھر  1965میں سلطان پور میں واقع سندوروا کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں چھوٹئی کا پوروہ منتقل ہو گئے، جہاں آپ گزراوقت کے لئے گاؤں کے بچوں کو پڑھانے لگے اورساتھ میں اپنی تعلیم بھی جاری رکھی۔ آپ روزانہ صبح بچوں کو پڑھانے کے بعد جگدیش پور کے مدرسے سراج العلوم لطیفیہ میں چلے جاتے، جہاں اردو، فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کرتے۔ تعلیم و تعلم کا یہ سلسلہ تقریباً دس سال یعنی 1975تک چلتا رہا، اس کے بعد آپ نے فیض آباد کے ایک قصبہ ٹانڈہ میں واقع دارالعلوم مظہر حق میں داخلہ لیا اور عا  لمیت و قراء ت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد  1977میں وہاں سے فارغ ہوئے۔ دارالعلوم مظہر حق سے فراغت کے بعد جگدیش پور کے مدرسے سراج العلوم لطیفیہ میں بطور استاد آپ کا تقرر عمل میں آیا، جس کے بعد آپ کی زندگی کو استحکام حاصل ہو۔ ا اور آپ درس وتدریس  میں مشغول ہو گئے۔ ر 1991میں للہ تعالیٰ نے آپ کو حج کی سعادت بھی نصیب فرمائی۔

           اپنی  تدریسی مشغولیات کے با وجود عوام سے ربط و تعلق کا جو سلسلہ آپ نے چھوٹئی کا پوروہ میں شروع کیا تھا، اس کونہ صرف برقرار رکھا آگے بڑھایا اور اپنی دلکش اصلاحی تقریروں کے ذریعے جلد ہی عوام میں مقبول ہوئے اور نہ صرف آس پاس کے علاقے بلکہ بہار، اڑیسہ، گجرات، چھتیس گڑھ اور ممبئی سے آپ کو تقریرووں کے لئے بلاوے آنے لگے۔ صوفی نانا کمال کے خطیب تھے سامعین کو کیسے ہمہ تن گوش کرنا ہے آپ کو خوب آتا تھا۔ ایک خاص بات جو علاقے کے دوسرے مقررین سے آپ کوممتاز کرتی تھی وہ تھی اپنی تقریروں میں علاقائی زبان یعنی اودھی کا خوبصورت متوازن اورایسا  بر محل استعمال کہ دل کو چھو جائے اور عام لوگوں کو آپ کی بات سمجھ میں آ جائے۔

          مدرسے میں درس و تدریس کی مشغولیت، عوام میں آپ کی تقاریر کی مقبولیت اور سفر کی بڑھتی تعداد کے با وجود آپ نے اپنے گاؤں کی ضرورتوں کو نظر انداز نہیں کیا۔ اپنے گاؤں میں بچوں کے لئے بنیادی اسلامی تعلیم کی ضرورت کو شدت سے محسوس کرتے ہوئے آپ نے کچھ دوسرے مخلص بزرگوں کے تعاون سے جن میں، محمد جعفر، حاجی محمد یوسف، خوشی محمد، محمد علی منشی، کلن خان اور مولوی عبدالباری وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں، گاؤں کے قریب  81 بسوازمین حاصل کی اور اس پر اشرف العلوم محمدیہ کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا اور متفقہ طور پر اس کے صدر مقرر ہوئئ اور ابھی پچھلی دہائی تک اس عہدے پر فائز رہے مگر 2007میں رٹائرمنٹ کے بعد جب آپ کی صحت جواب دینے لگی تو آپ  2009 میں اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔

          اپنے خطے میں آپ نے جو دوسرا اہم کام انجام دیاوہ تھا جاگیردارانہ مزاج کی وجہ سے قائم ہونے والے ناجائز رشتوں کو صحیح رخ دینا۔ آپ اس طرح کا رشتہ رکھنے والے مختلف لوگوں سے ملے جن میں کئی سربر آوردہ شخصیات بھی تھیں اور انہیں رشتہ ء ا زدواج میں منسلک ہونے پر آمادہ کیا، جس سے معاشرے میں جنسی بے راہ روی کو کچھ لگام لگی۔

          ابھی دو روز قبل یعنی بروز دو شنبہ  16 ستمبر  2019کوتقریباً 80 سال کی عمر میں آپ اس دار فانی سے کوچ کر گئے اور اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ اللہ تعالہ آپ کی مغفرت فرمائے اور آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے  اور ساتھ ہی ساتھ آپ کے لواحقین کو صبر و تحمل کی توفیق عطا فر مائے۔ آمین۔

 آسما ں انکی لحد پرشبنم افشانی کر  

1 تبصرہ
  1. محمد اعظم نورانی کہتے ہیں

    حضرت کی نماز جنازہ میں علماء کی اتنی تعداد میں موجود گی ابھی تک اس علاقے میں کہیں نہیں ہوی

تبصرے بند ہیں۔