مسلمانوں کے مسائل، مسلم تنظیمیں اور مسلم نمائندے

مسعود جاوید

لوگ کہتے ہیں کہ چہار دانگ عالم میں ہر شعبہ حیات میں بیداری آئی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں انقلاب کی دین ہے کہ ذرائع ابلاغ ہر کس و ناکس کی پہنچ میں ہے۔

انفرادی طور پر دنیا بھر میں ہونے والے واقعات اور حادثات سے سکنڈ میں نہ صرف  واقفیت ہو جاتی ہے بلکہ آپ اپنی رائے مشورے اور ردعمل سے دنیا کی بڑی سے بڑی شخصیتوں کو آگاہ کر سکتے ہیں اور ان کے جواب سن اور پڑھ سکتے ہیں۔

اجتماعی مسائل کے تعلق سے  جو بات ، قرارداد ، تجاویز اور فیصلے ہوتے تهے ان کو متعلقہ عوام یا ممبران تک پہنچنے میں ہفتوں لگ جاتے تهے پہلے minutes of the meetings کو قلم بند کرنا مشاورتی کمیٹی کے  شریک ممبران سے دستخط لینا اس کے بعد اس کی ٹائپنگ اس کے بعد سائیکلو اسٹائلنگ کے ذریعہ کاپیاں نکالنا پهر اسے برانچ آفسس کو بذریعہ پوسٹ بهیجنا وغیرہ وغیرہ۔  اب نئی ٹیکنالوجی نے یہ کام بہت آسان کر دیا ہے۔
اب ملک کے دور دراز علاقوں سے  سفر کرکے شرکت کے لئے دہلی آنے کی ضرورت ویڈیو کانفرسنگ نے کم یا ختم کردیا ہے۔ اب تنظیموں کے قرارداد اور تجاویز اور عوام کے حقیقی مسائل  انٹر نیٹ کے ذریعے منٹوں میں بهیجے send اور receive کئے جا سکتے ہیں۔

لیکن کیا مسلمان اور ملی تنظیمیں ان وسائل کا بامقصد  استعمال کر رہے ہیں۔ ان سہولیات سے فائدہ اٹها رہے ہیں ؟
موب لنچنگ اور دیگر مسائل پر عوام سڑک پر اترے تو یہ مطعون کہ یہ ان کا جذباتی قدم ہے۔ اس سے انکار نہیں کہ بعض بے قابو نوجوانوں نے غیر ذمہ دارانہ حرکت کی اور بد تمیزی کا مظاہرہ کیا گالی گلوچ کیا اور اشتعال انگیز نعرے لگائے۔ اس کی واحد وجہ یہ تهی کہ ان کو منظم کرنے اور مظاہرے کو پر امن رکهنے کے لئے کوئی قیادت سامنے نہیں آئی۔
ان کی ملامت کرنے کی بجائے آپ نے کون سا حکمت والا قدم اٹهایا یا تجویز پاس ؟  کیا اس سے عوام کو آگاہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی/ہے ؟ کیا ویڈیو کانفرسنگ کے ذریعے عوام اور ان کے نمائندوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت نہیں ہے؟

ہماری گهڑی کی سوئیاں الٹی کیوں چل رہی ہیں ؟ آج سے بیس سال قبل تک ملک میں ملت کو درپیش بڑے مسائل اور ناگہانی حادثات و واقعات پر ملی تنظیموں کے سربراہ سر جوڑ کر بیٹھتے تهے مسلم  ممبران پارلیمنٹ کو شامل کرکے مسائل کے حل کے لیے لائحہ عمل بناتے تهے اور اقل درجہ ایمان کی طرح ایک ڈیلی گیشن تشکیل دیا جاتا جو وزیر اعظم سے ملاقات کر کے میمورنڈم پیش کرے اپنی شکایت اور دکھ درد سے ان کو آگاہ کرے۔ وزیر اعظم اگرچہ اپنی ایجنسیوں اخبارات اور ٹی وی چینلز کے توسط سے ان مسائل سے واقف بهی تهے پهر بهی اس کا فائدہ یہ ہوتا تها کہ شکایات  یا اپیل درج ہوتی تهی ملکی و بین الاقوامی خبر رساں ایجنسیوں کے لئے خبر بنتی تهی۔ ۔۔۔۔۔ مسلم مجلس مشاورت کا عملاً بنیادی کام یہی تها۔۔۔ مگر مسلمانان ہند کا المیہ محسوس کریں کہ پچهلے کئی سالوں سے مشاورت گروہ بندی کا شکار ہے معاملہ عدالت تک پہنچ چکا ہے۔ کیا مسلمانوں میں ایسی شخصیات موجود نہیں ہیں جو مصالحتی فریضہ انجام دیں؟ کیا بڑی شخصیات اس ادارے کی فطری موت کے منتظر ہیں ؟ ملت کی اس تنظیم بلکہ حسب دعوی ‘تنظیموں کے تنظیم اعلی’ٰ کی قیادت کے لئے رسہ کشی کیوں ؟ اس کی افادیت یا عدم افادیت کے مد نظر  اس کی بقا یا عدم بقا کے لیے یا اس پلیٹ فارم کے نئے اغراض و مقاصد طے کرنے کے لئے کوئی پیش قدمی کیوں نہیں کی جاتی؟ دراصل پہلے مشاورت کی قیادت بهاری بھرکم شخصیات کے ہاتھوں میں ہوا کرتی تهی۔ دیگر ملی تنظیموں کے سربراہان ان کی دعوت پر شریک ہوتے تهے۔اب وہ بات نہیں رہی۔
کیا مرکزی ملی تنظیموں کے سربراہان کے درمیان اس قدر دوری ہو گئی ہے کہ ملت کو درپیش جلتے مسائل کے حل کے لئے ایک پلیٹ فارم پر ممبران پارلیمنٹ اور دیگر دانشوروں کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹهنا گوارہ نہیں  ؟

ترقی کی طرف گامزن کی بجائے ہم جمود کے شکار کیوں ہیں مائل بہ تنزلی یا عکسی جہت میں رواں دواں کیوں ہیں ؟ ۔ ۔۔ آج سے تقریباً بیس سال قبل تک ملی تنظیموں کے اپنے آرگن ترجمان اور ماؤتھ پیس ہوا کرتے تهے۔ دہلی سے جمعیت علماء کا روزنامہ ‘الجمعیة’ جماعت اسلامی کا روزنامہ ‘دعوت ‘، ممبئی سے عام مسلمانوں کا ترجمان ‘روزنامہ’ انقلاب ‘ اور کلکتے سے روزنامہ ‘ اخبار مشرق۔۔۔۔ ۔۔ الجمعیة بند دعوت بند انقلاب کو دینک جاگرن نے خرید لیا اور مشرق محدود اشاعت والا ایک مقامی روزنامہ بن کر رہ گیا۔۔۔۔ تو کیا آج سے بیس سال قبل ہم زیادہ باشعور فعال اور بیدار تهے ؟  میڈیا کی اہمیت افادیت اور ضرورت کو زیادہ سمجتے تهے ؟ اگر نہیں تو کیوں آج جبکہ لیتهو پریس کتابت اور پروف ریڈنگ کی مشکلات کی بنسبت کمپیوٹر پر کمپوزنگ ایڈیٹنگ اور محفوظ کرنے کے آپشن کی وجہ سے  زیادہ سہولیات میسر ہیں ہم نے اس اہم ذریعہ ابلاغ سے کنارہ کشی کرلی ؟  اخبارات نیوز پورٹل اور چینلز کی طاقت اور سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ ثابت کرنے کی صلاحیت اور روزانے کا  معمول ہم ہر روز دیکهتے ہیں ایسے میں ہم نے میڈیا کو شجر ممنوعہ کیوں قرار دے رکها ہے؟

میڈیا کے ذریعے ہم جهوٹے پروپیگنڈے کا مسکت اور مدلل جواب سے دفاع کر سکتے ہیں۔ میڈیا کے توسط سے  ہماری آواز ایوان اقتدار تک پہنچتی تهی بعض اوقات وزیراعظم ، پی ایم او یا دیگر وزراء   اخبارات کے ایڈیٹرز کو بلا کر حالات کو سمجهنے کی کوشش کرتے تهے آج اس سے محروم کیوں؟  ملک کے کسی حصے میں ایڈمنسٹریشن اور پولیس کی زیادتی روکنے کے لئے ان مدیروں اور ملی تنظیموں کے سربراہان کے پاس وزراء اور متعلقہ محکموں کے ہاٹ لائن  رابطہ کے نمبرات ہوتے تهے۔ ان کے توسط سے ان ریاستوں کے ذمے داروں کو تنبیہ کرایا جاتا تها۔۔۔۔ آج ہم ان وسائل  سے محروم کیوں ہیں ؟ آج مرکزی دفاتر میں بیٹهے ہماری ملی تنظیمیں عوام کے احساسات سے عاری کیوں ہیں؟ ۔۔ ۔ ۔۔۔۔ آج کیوں عام مسلمان اپنے آپ کو یتیم محسوس کر رہا ہے ؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


2 تبصرے
  1. حامد حسین شیخ کہتے ہیں

    جماعتِ اسلامی کا دعوت بند نہیں ہوا ہے پہلے سہ روزہ تھا اب ہفتہ روزہ شائع ہوگا انشاء اللہ

    1. مضامین ڈیسک کہتے ہیں

      بالکل درست فرمایا آپ نے۔ ہفت روزہ دعوت عنقریب منظر عام پر آئے گا۔
      جزاکم اللہ خیرا۔

تبصرے بند ہیں۔