طالوت کا قصہ

اختر سلطان اصلاحی

کئی روز سے چچا جان قرآنی قصّے سنا رہے تھے اس لئے تمام بچے عشاء پڑھ کر دادای اماں کے کمرے میں جمع ہو جاتے تھے، کل قارون کا قصہ تمام بچوں کو بہت پسند آیا تھا، آج سب سوچ رہے تھے کہ چچا سے کون سا قصہ سنا جائے ، نمرہ بولی’’آج ہم لوگ یوسف علیہ السلام کا قصہ سنیں گے ‘‘ ساریہ جلدی سے بول پڑی ’’ابھی چچا نے جمعرات کو ہی یہ قصہ سنایا تھا اب دوبارہ نہیں سنائیں گے ‘‘۔
بچے شاید ہی کسی ایک فیصلے پر پہنچتے اچھا ہوا دادی نے مسئلہ حل کردیا، ’’تم لوگ آج قصہ طالوت سنو وہ ایک دلچسپ قصہ ہے ‘‘۔
چچا کے آتے ہی بچوں نے چلانا شروع کیا آج ہم لوگ طالوتؑ کا قصہ سنیں گے ۔ چچا میاں نے گلا کھنکھارا اور کہانی کہناشروع کی ۔
بچو تم لوگ بنی اسرائیل سے واقف ہو ان کے کئی واقعات میں تم کو سنا چکا ہوں ، طالوت ؑ بھی بنی اسرائیل کے ایک آدمی تھے۔ ہوا یہ کہ موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل پر ایک ظالم بادشاہ جالوت نے حملہ کیا اور ان کے بہت سے علاقوں پر قابض ہوگیا۔ وہ بنی اسرائیل کو طرح طرح کی تکلیفیں دیتا، ان کو ذلیل کرتا آخر بنی اسرائیل نے محبور ہوکر اس وقت کے پیغمبر سے کہا ’’ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کردیجئے ‘‘ پیغمبر بنی اسرائیل کی عادتوں اور بزدلی کو جانتے تھے اس لئے انہوں نے کہا ’’کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں جہاد کا حکم دیا جائے اور تم جہاد کے لئے تیار نہ ہو‘‘ عفیفہ بول پڑی ’’ابو جہاد کسے کہتے ہیں‘‘؟
جہاد لڑائی کو کہتے ہیں۔ نمرہ نے جواب دیا۔
چچا مسکرائے ۔ نمرہ کی بات پوری طرح درست نہیں ہے، جہاد کا مطلب ہوتا ہے اللہ کے راستے میں کوشش کرنا، اب کبھی کبھی بُرے لوگوں سے لڑنا بھی پڑتا ہے ۔ چچا آپ کہانی آگے سنائیے ۔ عمار جلدی سے بول پڑا۔ چچا نے پھر کہانی شروع کی ۔ بنی اسرائیل کے لوگوں نے کہا ہم جہاد کیوں نہ کریں گے جب کہ ہمارے گھر بار چھین لئے گئے ہیں۔
مگر جب جہاد کا حکم دیا گیا تو بہت کم لوگ اس کے لئے تیار ہوئے ، زیادہ تر گھر میں بیٹھ رہے ، وقت کے نبی نے ان سے کہا اللہ نے طالوت کو تمہارا بادشاہ بنایا ہے اس کے ساتھ جہاد کے لئے نکلو۔
بنی اسرائیل کہنے لگے طالوت کیسے ہمارا بادشاہ ہوسکتا ہے ، ہم اس کے مقابلے میں بادشاہ بنائے جانے کے لائق ہیں اس کے پاس تو مال بھی نہیں ہے ۔
وقت کے نبی ؑ نے ان سے کہا اللہ نے اسے پسند کیاہے اور اسے علم اور جسمانی طاقت تم سے زیادہ دی ہے ۔ بنی اسرائیل کے لوگ کہنے لگے طالوت کے بادشاہ ہونے کی کوئی اور نشانی بتائیے ؟
پیغمبر نے ان سے کہا کہ اس کے بادشاہ ہونے کی ایک نشانی یہ بھی ہوگی کہ وہ تابوت تم کو مل جائے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے تسلی کا سامان اور موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کی کچھ بچی ہوئی چیزیں ہیں جس کو فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے۔
پھر جب طالوت علیہ السلام لشکر لے کر نکلے تو ان کو ایک نہر کے ذریعہ آزمایا گیا۔ طالوت نے کہا ’’جس نے اس نہر کا پانی پیا وہ میرے ساتھ نہیں ہے اور جو نہیں پیئے گا وہ میرا ساتھی ہوگا ہاں دو چار گھونٹ پینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ مگر جب بنی اسرائیل نہر کے پاس پہنچے تو انہوں نے خوب پانی پیا، بہت کم لوگوں نے طالوت کی بات مانی۔ جب وہ نہر پار کرکے آگے بڑھے تو کہنے لگے ہم میں جالوت اور اس کے لشکر سے مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں ہے ۔ مگر ان میں جو صحیح مومن تھے وہ کہنے لگے بارہا ایسا ہوا کہ اللہ کے حکم سے ایک چھوٹا گروہ بڑے گروہ پر غالب آگیا۔ انہوں نے دعا کی اے ہمارے رب ہم کو صبر عطا کر، ہمارے قدموں کو جمادے اور کافر لوگوں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔
آخر اللہ کی مدد آئی اور مومنوں نے کافروں کو شکست دی ، طالوت کی قوم کے ایک بہادر داؤد نے کافروں کے سردار جالوت کو قتل کردیااور اللہ نے داؤد کو بے مثال حکومت عطا کی، انہیں حکمت و عقلمندی سے نوازا اور بہت سا علم بخشا۔
بچے ابھی غور سے سن رہے تھے کہ چچا جان نے کہا ’’کہانی ختم ہوگئی ‘‘ اب ایک سوال اس پر سو روپے انعام بھی ملے گا؟ چچا نے سوال کیا طالوت کا قصہ قرآن کی کس سورہ میں بیان کیا گیاہے ؟
صفوان نے کہا ’’سورۂ مریم ‘‘ میں عمار نے کہا ’’سورۂ رحمن ‘‘میں عفیفہ بولی ’’سورۃ البقرۃ ‘‘میں چچا نے عفیفہ کو شاباشی دی اور سو روپے کا کڑکڑاتا نوٹ پکڑا دیا۔

تبصرے بند ہیں۔