ابو مسلم خولانی ؒ

افتخارالحسن مظہری

تابعین کے سرخیل ابو مسلم خولانی ؒ اپنے عہد کے نامور عابد و زاہد تھے۔ زمانہ نبویؐ میں ہی مشرف بہ اسلام ہوئے لیکن مدینہ نہ پہنچ سکے۔ اس لیے شرفِ صحابیت سے محروم رہے۔ جب حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی خلافت کا زمانہ آیا تو مدینہ پہنچے اور متعدد صحابہ سے احادیث کا درس لیا۔ حضرات عمر، معاذ، ابو عبیدہ ، ابو ذر اور عبادہ رضی اللہ عنہم سے روایات اخذ کیں۔ عبادت کا ذوق و شوق بے انتہا تھا۔ چنانچہ عبادات کا اہتمام اتنا زیادہ کیاکہ اللہ نے آپ کو مستجاب الدعوات بنا دیا اور آپ کی کوئی دعا باب اجابت سے واپس نہ لوٹی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ’’ جنت اور دوزخ کو اپنی آنکھوں سے اگر دیکھ بھی لوں تو وہ میرے تصور سے بڑھ کر نہ ہو گی۔‘‘ (سیر اعلام النبلاء: 4؍7)
نفس کے خطرات سے ہوشیار رہنا
وہ اپنی تعظیم و تکریم کو ناپسند کرتے تھے کہ کہیں تعلّی کا احساس نہ سر اٹھالے۔ نفس کے ساتھ ان کا رویہ ہمیشہ معاندانہ ہوتا کیونکہ اس کی چاہتیں جنت سے دور کرتی ہیں۔ جو شخص اپنے نفس کے خلاف یہ معاندانہ رویہ اختیار نہیں کرتا وہ سرکش ہوجاتاہے اور دوستوں کو یہی معاندانہ رویہ اپنانے کی تلقین و تاکید کرتے۔ فرماتے ہیں:
میں اپنے نفس کی پذیرائی کروں، اسے آرام و راحت پہنچاؤں تو وہ کل اللہ کے سامنے مجھے رسوا کر دے گا اور اگر اس کی تذلیل کروں ، اس کو مشقت و محنت میں لگاؤں کہ وہ تھک جائے تو وہ مجھے اللہ کے سامنے سرخرو کرے گا۔ (صفۃ الصفوۃ: 4؍212)
وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے کہ اگر نفس کی جانب سے تھوڑی بھی غفلت سرزدہوئی تو وہ ہلاکت سے دوچار کردے گا۔ اس لیے وہ ہمیشہ اس سے ہوشیار رہتے کہ کہیں اللہ سے دور نہکردے۔ حضرت امیرمعاویہؓ کے زمانہ میں سخت قحط پڑا۔ وہ لوگوں کو لے کر نماز استسقاء کے لیے نکلے۔ ابو مسلم خولانی سے کہا:
دیکھئے قحط سے لوگوں کا برا حال ہو رہا ہے۔ آپ اللہ سے دعا فرمائیں۔ انھوں نے کہا: گناہگار ہوں پھر بھی دعا کروں گا۔ چنانچہ وہ کھڑے ہوئے۔ سر پر ایک ٹوپی تھی، ٹوپی ہٹائی اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھایا،عرض کیا:
’’ اے اللہ ہم تجھ سے بارش کی التجا کرتے ہیں۔ میں گناہگار ہوں، یہی گناہ لے کے تیری بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں، مجھے ناکام و نامراد نہ لوٹا۔ ابھی دعا جاری ہی تھی کہ موسلادھار بارش شروع ہوگئی۔ ‘‘
بارش ہونے لگی تو ابو مسلم نے کہا :
اے اللہ معاویہ نے مجھے شہرت کے مقام پر کھڑا کر دیا ۔ اگر تیرے پاس میرے لیے بھلائی ہے تو مجھے اپنے پاس بلا لے۔ یہ دعا جمعرات کے دن مانگی تھی اور اگلی جمعرات کو وہ اللہ کے جوارِ رحمت میں پہنچ گئے۔ (الزھد لاحمد: 392)
ان کو اندیشہ تھا کہ لوگوں میں کہیں یہ بات نہ مشہور ہو جائے کہ ابو مسلم کی دعا کی بدولت بارش ہوئی اور اس شہرت کی وجہ سے نفس میں خود پسندی آئے کہ اس سے بہتر تو موت ہے۔
ابو مسلم کو دنیا کی ہر چیز میں آخرت نظر آتی تھی۔ ان کے احساس و شعور پہ آخرت کا اس قدر غلبہ تھا کہ ہر جگہ اور ہر موقع پر آخرت ان کے سامنے آجاتی۔ ایک بار ان کا گزر کسی ویرانے سے ہوا۔ وہ کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے:
’’ اے ویرانے، اے کھنڈر! تیرے مکیں کہاں گئے؟ وہ تو رخصت ہوگئے، لیکن اپنے اعمال چھوڑ گئے، ان کی خواہشات تو فنا ہوگئیں لیکن گناہوں کے انبار چھوڑ گئیں۔ اے انسانو! سنو، توبہ کرنے سے بہتر ہے کہ گناہ ہی نہ کہاجائے۔‘‘
کاش انسان میری یہ بات سمجھ سکے۔

 

تبصرے بند ہیں۔