ہم جنسیت- فطرت سے بغاوت (آخری قسط )

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
سرمایہ دارانہ استعمار کی سازش
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم جنسیت سماج کے لیے اتنی ہی خطرناک ہے اور انسانی آبادی پر اس کے اتنے بھیانک اثرات مرتب ہورہے ہیں تو پوری دنیا میں اسے کیوں بڑھاوا دیا جارہا ہے؟ سو (100) سے زیادہ ممالک میں اسے قابلِ تعزیر جرائم کی فہرست سے خارج کردیا گیا ہے اور ہم جنسیت میں مبتلا افراد کے لیے سہولیات فراہم کرنے کی غرض سے قوانین وضع کیے جارہے ہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ آج کل دنیا پر اصلاً سرمایہ داروں کی حکم رانی ہے۔ ان ہی کے اشارے پر ممالک کی پالیسیاں وضع کی جاتی ہیں۔جن کاموں میں سرمایہ داروں کا فائدہ ہوتا ہے انھیں فروغ دیا جاتا ہے اور جن چیزوں میں جن کا فائدہ نہیں ہوتا ان کی ہمت شکنی کی جاتی ہے۔ ہم جنسیت نے موجودہ دور میں عالمی سطح پر بہت بڑی انڈسٹری کی شکل اختیار کرلی ہے۔ مختلف ممالک میں ہم جنسیت میں مبتلا افراد کے لیے مخصوص بڑے بڑے ہوٹل (Resort) قائم کیے گئے ہیں، ان کے کلب (Gay clubs) چل رہے ہیں، بڑے پیمانے پر ان سے متعلق لٹریچر (Gay Literature) شائع ہورہا ہے، وقتاً فوقتاً ان کے مظاہرے اور ریلیاں منعقد ہوتی ہیں، اسی طرح عیش و مستی کے دیگر پروگرام اور تقریبات ہوتی ہیں۔ اس میں سرمایہ داروں کا اربوں (Billions) ،کھربوں (Trillions) ڈالر کا سرمایہ لگا ہوا ہے ۔اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ ہم جنسیت کو بڑھاوا ملے، تاکہ ان کا کاروبار چمکے اور ان کے سرمایہ میں اضافہ ہو۔
تمام مذاہب ہم جنسیت کے خلاف ہیں
ہم جنسیت کی انہی مضرتوں اورقباحتوں کی وجہ سے دنیا کے تمام مذاہب اس کی مخالفت کرتے ہیں اور اسے انسانیت کے خلاف جرم سمجھتے ہیں۔ یورپی ممالک میں اس وبا کے عام ہونے کی وجہ سے کلیساؤں سے تعلق رکھنے والے مذہبی پیشوا بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہے ہیں، اس بنا پر عیسائیت کے پیروکاروں نے عملی طور پر اس کے معاملے میں کچھ نرمی دکھائی ہے، لیکن مذہبی طور پر اس میں بھی اس کے جواز کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہندوستان کے تمام مذاہب: ہندو مت، جین مت، بدھ مت، سکھ مت وغیرہ بھی اس کے عدم جواز پر متفق ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے چھہتّر (76) ممالک میں ہم جنسیت کو جرم قرار دیا گیا ہے۔ ان میں سے بعض میں اس کی سزا موت ہے۔ ان میں سے بیش تر مسلم ممالک ہیں، یا ان کی آبادی کی اکثریت کسی دوسرے مذہب پر عمل پیرا ہے۔
ہم جنسیت کے بارے میں اسلام کا موقف بالکل واضح ہے۔ اس نے سخت الفاظ میں اس کی مذمت کی ہے، اس کی روک تھام کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیں اور اس کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے عبرت ناک سزا تجویز کی ہے۔ آئندہ سطور میں اس پر کسی قدر تفصیل سے روشنی ڈالی جائے گی۔
اسلام کا نظریۂ جنس
اسلام کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کو جوڑے جوڑے بنایا ہے (ذاریات:49)۔ یہ ’قانونِ زوجیت‘ نباتات، حیوانات اور نوعِ انسانی میں بھی پایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے ہر نوع میں اضافہ ہو اور اس کی نسل پھلے پھولے۔قرآن کریم میں ہے:
سُبْحٰنَ الَّذِیْ خَلَقَ الْأَزْوَاجَ کُلَّہَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ وَمِنْ أَنفُسِہِمْ وَمِمَّا لَا یَعْلَمُونَ۔ (یٰسٓ: 36)

پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کیے، خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود ان کی اپنی جنس (یعنی نوع انسانی) میں سے یا ان اشیاء میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں ہیں۔
فَاطِرُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ جَعَلَ لَکُم مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجاً وَمِنَ الْأَنْعَامِ أَزْوَاجاً یَذْرَؤُکُمْ فِیْہِ۔ (الشوریٰ:11)

آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ، جس نے تمہاری اپنی جنس سے تمھارے لیے جوڑے پیدا کیے اور اسی طرح جانوروں میں بھی (انہی کے ہم جنس) جوڑے بنائے اور اس طریقہ سے وہ تمھاری نسلیں پھیلاتا ہے۔
اسلام جنسی تعلق کا ایک مقصد جہاں یہ قرار دیتا ہے کہ اس سے زوجین ایک دوسرے سے سکون حاصل کریں اور ان کے درمیان محبت و مودت کی فضا قائم ہو، وہیں دوسرا اہم مقصد وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ اس کے ذریعے اولاد کی پیدائش ہو اور نسل چلے۔ قرآن میں بیویوں کے ساتھ جنسی تعلق کے ذیل میں صاف الفاظ میں یہ دوسرا مقصد حاصل کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
بَاشِرُوہُنَّ وَابْتَغُواْ مَا کَتَبَ اللّہُ لَکُمْ۔ (البقرۃ:187)

ان سے مباشرت کرو اور اللہ نے جو چیز تمھارے لیے لکھ رکھی ہے (یعنی اولاد) اس کو طلب کرو۔

اس آیت کی تفسیر میں علامہ زمخشریؒ نے لکھا ہے:
ای لا تباشروا لقضاء الشھوۃوحدھا و لکن لابتغاء ما وضع اللہ لہ النکاح من التناسل1؂

یعنی ان سے محض قضائے شہوت کے لیے مباشرت نہ کرو بلکہ اللہ نے نکاح کو جس لیے مشروع کیا ہے، یعنی تناسل،اس کو پیش نظر رکھو
1؂ الکشاف عن حقائق التنزیل، زمخشری،دار الکتب العلمیۃ بیروت،1؍229۔ حضرت ابن عباسؓ ، مجاہدؒ ، عکرمہؒ ، ضحاکؒ اور سدیؒ سے یہی تفسیر مروی ہے۔ دیگر مفسرین نے بھی یہی بات لکھی ہے۔ ملاحظہ کیجیے ماوردی،رازی، بیضاوی،ابن کثیر کی کتابوں میں مذکورہ آیت کی تفسیر
اور علامہ آلوسیؒ فرماتے ہیں:
’’اس آیت سے اس بات پر دلالت ہوتی ہے کہ جنسی تعلق قائم کرنے والے کو چاہیے کہ اس کے ذریعے نسل کی حفاظت کا ارادہ کرے، نہ کہ صرف قضائے شہوت اس کے پیش نظر ہو۔ اس لیے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمارے اندر جماع کی خواہش ہماری نوع کی بقا کے لیے رکھی ہے، جس طرح اس نے ہمارے اندر کھانے کی خواہش ہمارے جسموں کی بقا کے لیے رکھی ہے‘‘۔

(روح المعانی، آلوسی ،دار الکتب العلمیۃ بیروت،1415ھ،1؍462 )

دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
نِسَآؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ فَأْتُواْ حَرْثَکُمْ أَنَّی شِءْتُمْ وَقَدِّمُواْ لأَنفُسِکُمْ۔ (البقرۃ: 223)

تمھاری عورتیں تمھاری کھیتیاں ہیں۔ تمھیں اختیار ہے، جس طرح چاہو اپنی کھیتی میں جاؤ، مگر اپنے مستقبل کی فکر کرو۔
آیت کے ٹکڑے( وَقَدِّمُواْ لأَنفُسِکُمْ) کے مفسرین نے متعدد مفہوم بیان کیے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس میں جنسی تعلق کے ذریعے اولاد اور نسل چاہنے کا حکم دیا گیا ہے۔

(ملاحظہ کیجیے زمخشری،بغوی، بیضاوی، ابن عطیہ، ابو حیان اور قرطبی کی کتابوں میں متعلقہ آیت کی تفسیر)
قوم لوط سے عبرت پذیری
قرآن کریم میں گزشتہ قوموں میں سے ایک قوم کا تذکرہ کیا گیا ہے، جس کی طرف اللہ کے پیغمبر حضرت لوط علیہ السلام بھیجے گئے تھے۔ یہ قوم شرک اور بت پرستی کے علاوہ دیگر بہت سی برائیوں کا شکار تھی۔ اس کی سب سے بڑی برائی یہ تھی کہ وہ ہم جنسیت میں مبتلا تھی۔ حضرت لوط علیہ السلام نے اس کے سامنے توحید کی دعوت پیش کی، برائیوں سے اجتناب کرنے کی تلقین کی، ساتھ ہی اس گھناؤنی برائی کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی اور اس کے برے انجام سے ڈرایا۔ انھوں نے فرمایا:
أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَۃَ مَا سَبَقَکُم بِہَا مِنْ أَحَدٍ مِّن الْعٰلَمِیْنَ. إِنَّکُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَہْوَۃً مِّن دُونِ النِّسَآء بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُونَ۔ (الاعراف:80۔81)

کیا تم ایسے بے حیا ہوگئے ہو کہ وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا؟ تم عورتوں کو چھوڑکر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم بالکل ہی حد سے گزرجانے والے لوگ ہو۔
دوسری جگہ ان کی تنبیہ ان الفاظ میں مذکور ہے:
أَتَأْتُونَ الذُّکْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِیْنَ. وَتَذَرُونَ مَا خَلَقَ لَکُمْ رَبُّکُمْ مِنْ أَزْوَاجِکُم بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ عٰدُونَ۔ (الشعراء: 165۔166)

کیا تم دنیا کی مخلوق میں سے مردوں کے پاس جاتے ہو اور تمھاری بیویوں میں تمہارے رب نے تمھارے لیے جو کچھ پیدا کیا ہے اسے چھوڑ دیتے ہو؟ بلکہ تم لوگ تو حد سے ہی گزر گئے ہو۔
حضرت لوطؑ کی تنبیہ کا ان کی قوم پر کچھ اثر نہ ہوا۔ وہ حسبِ سابق اس برائی میں لت پت رہی، بلکہ اسے اپنے درمیان حضرت لوطؑ کا وجود شاق گزرنے لگا، اس لیے کہ وہ برابر اس کی سرزنش کرتے رہتے تھے۔ اس نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ لوگ بڑے پاک باز بنتے ہیں، انھیں بستی سے نکال باہر کرو‘‘ (النمل:56)
بالآخر جب ہزارہا تنبیہات کے باوجود ان پر کچھ اثر نہ ہوا، وہ اپنی روش سے باز نہ آئے اور ان پر حجت تمام ہوگئی تو اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آگیا اور انھیں ان کے کرتوتوں کی پاداش میں صفحۂ ہستی سے نیست و نابود کردیا گیا۔ ان پر عذاب کی تفصیل قرآن میں متعدد مقامات پر مذکور ہے۔ سورۂ ہود میں ہے:
فَلَمَّا جَاء أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَأَمْطَرْنَا عَلَیْْہَا حِجَارَۃً مِّن سِجِّیْلٍ مَّنضُودٍ. مُّسَوَّمَۃً عِندَ رَبِّکَ وَمَا ہِیَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ۔ (ہود:82۔83)

پھر جب ہمارے فیصلہ کا وقت آپہنچا تو ہم نے اُس بستی کو تل پٹ کردیا اور اس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر تابڑتوڑ برسائے، جن میں سے ہر پتھر تیرے رب کے ہاں نشان زدہ تھا اور ظالموں سے یہ سزا کچھ دور نہیں ہے۔
قومِ لوط بحیرۂ مردار (Dead sea) کے جنوب مشرق میں سدوم، عمورہ، ادمہ،ضبوئیم اور ضغرنامی شہروں میں آبادی تھی۔ ساحلِ سمندر پر یہ بڑا سرسبز و شاداب علاقہ تھا، لیکن عذابِ خداوندی کے نتیجے میں ایسا تباہ و برباد ہوا کہ سیکڑوں سال گزرجانے کے با وجود آج تک وہاں کی ویرانی اور نحوست ختم نہیں ہوئی۔ مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ نے لکھا ہے:
’’اردن کی وہ جانب جہاں آج بحرِ میت یا بحرِ لوط واقع ہے، یہی وہ جگہ ہے جس میں سدوم اور عمارہ کی بستیاں آباد تھیں۔ اس کے قریب بسنے والوں کا یہ اعتقاد ہے کہ پہلے یہ تمام حصہ، جو اب سمندر نظر آتا ہے، کسی زمانہ میں خشک زمین تھی اور اس پر شہر آباد تھے۔ سدوم و عمارہ کی آبادیاں اسی مقام پر تھیں۔ یہ مقام شروع سے سمندر نہیں تھا، بلکہ جب قوم لوط پر عذاب آیا اور اس سرزمین کا تختہ ا لٹ دیا گیا اور سخت زلزلے اور بھونچال آئے تب یہ زمین تقریباً چارسو میٹر سمندر سے نیچے چلی گئی اور پانی ابھر آیا۔ اسی لیے اس کا نام بحرمیت اور بحر لوط ہے‘‘۔

(قصص القرآن، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، دارالاشاعت کراچی، 2002ء،1/595۔596، بہ حو الہ بستانی، 9/53)

آیت کے آخری ٹکڑے (وَمَا ہِیَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ) کے مفسرین کرام نے دو مفہوم بیان کیے ہیں: ایک یہ کہ ہلاک ہونے والی یہ بستیاں اہل مکہ سے (جو ظلم کی روش پر قائم تھے) دوٗر نہیں ہیں۔ دوسرا مفہوم یہ کہ یہ قوم اپنے فعلِ بد کی وجہ سے جس انجام سے دوچار ہوئی، بعید نہیں کہ ویسا ہی انجام ہر اس قوم کا ہو، جو ان کے جیسا کام کرے۔ علامہ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں:
أی وما ہذہ النقمۃ ممّن تشبّہ بہم فی ظلمہم ببعید عنہ۔

(تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر، دارالحدیث القاہرۃ:1426ھ،4/351)

یعنی جو لوگ قوم لوط کی جیسی غلط کاری میں ملوّث ہوں، ان کو بھی اسی طرح کی سزا ملنا بعید نہیں ہے۔
حضرت ابن عباسؓ سے اس کی یہ تشریح مروی ہے:
إن المعنٰی وما عقوبتہم ممّن یعمل عملہم ببعید۔

(روح المعانی، آلوسی،6؍301)

اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ ان کے جیسا کام کریں گے، بعید نہیں کہ ان کو بھی یہی سزا ملے۔
علامہ بیضاویؒ فرماتے ہیں:

وفیہ وعید لکل ظالم۔

اس میں ہر اس شخص کے لیے وعید ہے جو ایسا غلط کام کرے۔

(انوارالتنزیل واسرارالتاویل، بیضاوی،دارالکتب العلمےۃ، بیروت، 1408ھ، 1/465)
رسول اللہ ﷺ کی تنبیہات
اسلام میں ہم جنسیت کو کتنا شنیع عمل سمجھا گیا ہے، اس کا اندازہ درج ذیل احادیثِ نبوی سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ نے چند کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں کا تذکرہ الگ الگ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔ ان میں اس شخص کا بھی ذکر تھا جو ہم جنسیت میں مبتلا ہو۔آپؐ نے فرمایا:
لعن اللہ من عمل عمل قوم لوط۔

(مسند احمد، 1/309، حدیث نمبر 2817، مستدرک حاکم، 4/356۔جامع ترمذی
(1456) میں یہ روایت ان الفاظ میں ہے: ملعون من عمل عمل قوم لوط۔)

اللہ کی لعنت ہے اس شخص پر جو قوم لوط کا سا عمل کرے۔
حدیث میں ہے کہ آپؐ نے یہ جملہ تین بار دہرایا، جب کہ دیگر افراد کے سلسلے میں بارگاہِ الٰہی میں ان کے لعنت زدہ ہونے کا ذکر صرف ایک ایک مرتبہ فرمایا۔
حضرت ابن عباسؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
من وجدتموہ یعمل عمل قوم لوط فاقتلوا الفاعل والمفعول بہ۔

(سنن ابی داؤد: 4464، جامع ترمذی: 1456، سنن ابن ماجہ:2561، مسند احمد، 1/300، حدیث نمبر 2727۔ علامہ البانی نے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے۔)

اگر تم کسی شخص کو عملِ قوم لوط کرتے ہوئے دیکھو تو کرنے والے اور کروانے والے دونوں کو قتل کردو۔
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے عملِ قوم لوط انجام دینے والوں کے بارے میں فرمایا:
ارجموا الأعلی والأسفل ارجموہما جمیعاً۔

(سنن ابن ماجہ: 2562)

جو شخص اوپر ہو اور جو نیچے، دونوں کو سنگ سار کردو۔
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لاینظر اللہ الی رجل أتی رجلاً أو امرأۃ فی الدبر۔

(جامع ترمذی، کتاب الرضاع، 1165)

اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف نظر نہیں اٹھائے گا جو کسی مرد یا عورت کی پیچھے کی شرم گاہ سے اپنی شہوت پوری کرے۔
اسلامی شریعت اس معاملے میں اتنی حسّاس ہے کہ وہ اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتی کہ کوئی مرد کسی دوسرے مرد کا ستر دیکھے، اسی طرح کوئی عورت کسی دوسرے عورت کے ستر کی طرف نگاہ اٹھائے ، یا مرد مرد کے ساتھ اور عورت عورت کے ساتھ، بے لباسی کی حالت میں ایک چادر اوڑھ کر لیٹیں۔ حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لاینظر الرجل الی عورۃ الرجل ولا المرأۃ الی عورۃ المرأۃ ، ولا یفضی الرجل الی الرجل فی ثوب واحد، ولا تفضی المرأۃ الی المرأۃ فی الثوب الواحد۔

(صحیح مسلم، کتاب الحیض، باب تحریم النظر الی العورات، 794)

مرد دوسرے مرد کے قابلِ ستر حصے کو نہ دیکھے اور عورت دوسری عورت کے قابلِ ستر حصے کو نہ دیکھے اور مرد دوسرے مرد کے ساتھ (عریاں حالت میں) ایک چادر اوڑھ کر نہ لیٹے اور عورت دوسری عورت کے ساتھ (عریاں حالت میں) ایک چادر اوڑھ کر نہ لیٹے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اس حدیث کے ذیل میں لکھا ہے:
’’قابلِ ستر حصے کو دیکھنے کی ممانعت اس وجہ سے ہے کہ یہ چیز شہوت کو برانگیختہ کرتی ہے۔ بسااوقات عورتوں کے درمیان آپس میں شہوانی جذبات بیدار ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح بسا اوقات مردوں کے درمیان بھی آپس میں شہوانی جذبات میں ہیجان پیدا ہوجاتا ہے۔ مرد کو مرد کے ساتھ اور عورت کو عورت کے ساتھ ایک چادر اوڑھ کر لیٹنے سے اس وجہ سے منع کیا گیا ہے، کیوں کہ اس سے شہوت اور جنسی خواہش کے برانگیختہ ہونے کا بہت زیادہ امکان ہے۔ اس سے اندیشہ ہے کہ سحاق (عورت کا عورت سے شہوانی تعلق) اور لواطت (مرد کا مرد سے شہوانی تعلق) کی طرف میلان ہوجائے‘‘۔

(حجۃ اللہ البالغۃ، شاہ ولی اللہ دہلوی، تحقیق و مراجعہ: سبد سابق، دارالجیل بیروت، طبع اول 1426ھ، 2/194)
فقہاء کا نقطۂ نظر
جمہور فقہاء کہتے ہیں کہ عملِ قومِ لوط کی وہی سزا ہے جو زنا کی ہے۔ شادی شدہ شخص کو رجم کیا جائے گا اور غیر شادی شدہ کو کوڑے لگائے جائیں گے۔ اس لیے کہ قرآن کریم میں زنا کو بھی فاحشہ کہا گیا ہے (بنی اسرائیل:32) اور عملِ قومِ لوط کو بھی (الاعراف:80)۔ البتہ اس کی تفصیلات میں ان کے درمیان اختلاف ہے:
امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں کہ ایسے شخص کو تعزیر کی جائے گی۔ صاحبین (قاضی ابویوسف اور امام محمد) فرماتے ہیں کہ اسے زنا کی سزا دی جائے گی، البتہ اگر وہ بار بار اس فعلِ بد کا ارتکاب کرے تو اسے قتل کردیا جائے گا۔ مالکیہ کہتے ہیں کہ اس فعل کا مرتکب چاہے شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ، اسے رجم کیا جائے گا۔ شوافع کے نزدیک ایسے شخص پر حدِ زنا جاری کی جائے گی۔ ایک قول یہ ہے کہ ایسا شخص چاہے شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ، اسے قتل کردیا جائے گا۔ امام احمدؒ کے نزدیک بھی اس پر حدِ زنا جاری ہوگی۔
یہی حکم سحاق کا بھی ہے۔ فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عورتوں کا ایک دوسرے سے شہوانی لذّت حاصل کرنا حرام ہے، البتہ ایسا کرنے والی عورتوں پر حد نہیں جاری ہوگی، بلکہ ان کی تعزیر کی ہو گی۔

(الموسوعۃ الفقہيۃ، وزارت الاوقاف والشؤن الاسلامےۃ کویت، 24/251۔252،35/340۔341)
متمدّن سماج کی ذمہ داری
گزشتہ تفصیل سے واضح ہوا کہ ہم جنسیت کسی بھی سماج کے لیے سمِّ قاتل ہے۔ یہ انسانی فطرت سے بغاوت اور اس کے خلاف جنگ ہے۔ جو لوگ اس گھناؤنے فعل میں مبتلا رہتے ہیں، صرف وہی مہلک اور لاعلاج امراض کا شکار نہیں ہوتے، بلکہ اس سے صحتِ عامہ کے سنگین مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ مزید برآں اس سے خاندان کی بنیادیں متزلزل ہوجاتی ہیں اور تمدن کا شیرازہ منتشر ہونے لگتا ہے۔ اس لیے سماج کے سوچنے سمجھنے والے اور سنجیدہ افراد کی ذمہ داری ہے کہ اس سیلِ رواں پر بند باندھنے کی کوشش کریں۔ فرد کی ذاتی آزادی، مساوات اور عدمِ تفریق کے بنیادی حقوق کی دہائی دے کر اسے قانونی جواز نہیں فراہم کیا جاسکتا۔ یہ سرمایہ دارانہ استعمار کی منصوبہ بند سازش ہے، جسے سماج کی پاکیزگی قائم رکھنے کے لیے ناکام بنانا ضروری ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔