طعنے باز بھکاری

حامد محمود راجہ

تبلیغی جماعت کے کارکنان شاید دنیا کے وہ واحد طلب گار ہیں جو لوگوں سے کچھ مانگتے ہیں، لیکن نہ ملنے پرچہرہ شکن آلود اور دل مکدر نہیں کرتے۔ وہ گھر گھر جا کر لوگوں کو مسجد میں آنے اور نماز پڑھنے کے لیے رضا مند کرتے ہیں اور اُن سے تین، دس، چالیس یا ایک سو بیس دن (تین چلے) مانگتے ہیں کہ اللہ کے راستے میں نکلو۔ جواباً ہر قسم کا رویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ بعض حضرات تو خوش طبعی کے ساتھ مطالبات سن کر حوصلہ افزاءجواب دیتے ہیں جب کہ کچھ لوگ نہ صرف ناگواری کاا ظہار کرتے ہیں بلکہ کڑوی کسیلی باتیں بھی سنادیتے ہیں۔ آفرین ہے ان کارکنان پر کہ ایسی تلخ نوائی کے بعد بھی اپنی کوشش تسلسل کے ساتھ جاری رکھتے ہیں۔ ایک دن آتا ہے کہ ان کو کچھ نہ کچھ وقت مل ہی جاتا ہے۔ بار بار شکوہ کیے بنا خالی ہاتھ لوٹ کر یہ لوگوں کا دِل لے لیتے ہیں اور پھر دِن لے لیتے ہیں۔ جنید جمشید مرحوم خود اپنا واقعہ سنا یا کرتے تھے کہ ہم جماعت والوں کو ملازم کے ذریعے یہ کہہ کر ٹال دیا کرتے تھے کہ صاحب گھر پر نہیں ہیں، لیکن یہ لوگ برا منائے بغیر مسلسل میرے گھر آتے رہے اور ایک دن آیا کہ میں جماعت میں روانہ ہوگیا۔

 جماعت کے کارکنان خالصتاً اصلاحی جذبے کے ساتھ مسلمانوں سے وقت مانگتے ہیں جس میں ان کا اپنا کوئی دنیوی مفاد وابستہ نہیں ہوتا۔ اس کے بر عکس اپنی ذات کے لیے مانگنے والے لوگ شرمندہ کرنے اور طعنہ زنی میںبھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ جدید زمانے کی پیشہ ور اورتجربہ کر بھکارنیں بیچ چوراہے میں شرفاءکی عزت اچھال دیتی ہیں۔ لوگ ا ن سے تعاون غربت اور استحقاق کی وجہ سے کم اور شرپسندی سے بچنے کے لیے زیادہ کرتے ہیں۔ وہ ڈرتے ہیں کہیں یہ ہمارے اوپر کوئی جملہ ہی نہ کس دیں۔ مارکیٹ میں بلٹ پروف اور ہیٹ پروف ہرقسم کی گاڑی موجود ہے لیکن’ جملہ پروف ‘ گاڑی ابھی تک ایجاد نہیں ہوئی۔ گاڑی مالکان اگرچہ ایسے مواقع پر شیشے اوپر چڑھا کررکھتے ہیں لیکن وہ اپنی آنکھیں تو بند نہیں کرسکتے۔ بھکارنوں کے ہلتے ہوئے ہونٹ اور گاڑی کے آگے لیٹنے کی کوشش سب کچھ بیان کردیتی ہے اور عقل مند کے لیے تو اشارہ ہی کافی ہے۔

جین مندر چوک (لاہور) میں پھل فروشوں کی ر یڑھیا ں اور ٹھیلے لگے ہوئے ہوتے ہیں یہاں ایک پاگل بھکارن گاہکوںسے سو روپے مانگتی ہے۔ یہ مطالبہ بہت کم لوگ پورا کرتے ہیں، جواباً یہ بھکارن ان کے منہ پر تھوکنے کی کوشش کرتی ہے۔ ایسی صورت حال میں پھل فروش اپنے گاہکوں کی مدد کے لیے پہنچ کر اُس بھکارن کو وہاں سے دھتکار دیتے ہیں۔ بھیک نہ ملنے پر تلخ نوائی اور طعنہ زنی کے لیے غریب، جاہل اور پاگل ہونا ضروری نہیں بلکہ یہ کام پڑھے لکھے اور صاحب ثروت لوگ بھی بڑی ڈھٹائی اور دیدہ دلیری کے ساتھ کرتے ہیں۔ الیکشن کے موسم میں بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھ کر غریبوں کے درپہ آنے والے سیاست دان بھکاری ووٹ طلب کرتے ہیں۔ ووٹ مانگتے ہوئے یہ ہر طرح کی خوش آمد اور نرم خوئی کا رویہ اپناتے ہیں۔ دروان گفتگو اپنے مخالفین پر الزام، دشنام سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ اپنی پارسائی اور غیروں کی بے وفائی کا تذکرہ لازم ہے۔

یہ سمجھتے ہیں کہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے کارکردگی کی نہیں بلکہ چرب لسانی اور لفاظی کی ضرورت ہے۔ اس غلط فہمی کا منطقی اور لازمی نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ اپنی چکنی چپڑی باتوں سے قوم کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرنے والے ناکام ہو جاتے ہیں اور غصے و نفرت کے عالم میں قوم کو بد قسمتی اوربے وقوفی کا تمغہ عطا کردیتے ہیں۔ کسی کو یہ گلہ ہے کہ جس قوم کا پی ایچ ڈی ایک میٹرک پاس کو اپنا لیڈر منتخب کرے اس کو زوال سے کیسے بچایا جاسکتاہے؟ کیا پی ایچ ڈی کرلینا اس بات کی ضمانت ہے کہ آپ قوم کے لیڈر ہیں ؟ اور قوم تمام معامالات میں ایک پی ایچ ڈی کی محتاج ہے؟ اس کا جواب غیر مشروط طور پر نفی میں ہے۔ ہر شعبے کی طرح اس ڈگری کا بھی ایک محدود دائرہ ہے جس کے باہر اس کی کوئی افادیت نہیں۔ اگر کوئیپی ایچ ڈی اپنی گاڑی ٹھیک کروانے کے لیے کسی ان پڑھ مکینک کا محتاج ہوسکتا ہے تو سیاست میں وہ کسی کو اپنا لیڈر کیوں تسلیم نہیں کرسکتا ؟ اعلیٰ تعلیمی سند اگر سیاست میں کام یابی کی ضمانت ہوتی تو جیت کا تناسب سب سے زیادہ جماعت اسلامی کے حق میں ہوتا۔ جماعت اسلامی کے پاس باقی تمام جماعتوں سے زیادہ تعلیم یافتہ کارکنا ن موجود ہیں۔

کسی کو یہ شکوہ ہے کہ ہماری قوم کی بدقسمتی کے لیے اتنا ہی کافی ہے اس نے ایک اعلی تعلیم یافتہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر کو منتخب نہیں کیا۔ حالانکہ توجہ طلب امر یہ ہے کہ قوم نے کسی امید وار کو کیوں منتخب نہیں کیا ؟ یقنیاً اس اجتماعی فیصلے کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ تو ضرور رہی ہو گی۔ اس میں قوم کی بدقسمتی اور بے وقوفی کا طعنہ کہاں سے آگیا؟ بلکہ قوم کا کسی امیدوار کو منتخب نہ کرنا خود اس امید وار کی قسمت اور عقل پر سوالیہ نشان کھڑا کردیتا ہے۔ کسی شخص کا معالج اور طبیب ہونا اس کے بہتر قائد یا کام یاب سیاست دان ہونے کی ضمانت نہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر ہر یونین کونسل اورقومی وصوبائی حلقوں سے ڈاکٹر ز اور نرسز کو سیاسی ذمہ داری سونپ دی جائے اور باقی تمام شعبہ جات کے افراد کونا اہل قرار دے دیا جائے۔ نیز یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ ووٹ نہ دینا ہی اگر بدقسمتی کی علامت ہے تو ہارنے والا ہر سیاست دان قوم کو بدقسمت ٹھہرائے گا اور اس طرح اس قوم کا ہر شخص دوسرے کی نظرمیں بدقسمت اور بے وقوف قرار پائے گا۔

قوم ہوشیاررہے کہ ووٹ مانگنے والے یہ سیاست دان اپنی ناکا می پرکھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق غیر متوازن اور غیر معقول رد عمل کااظہار کرتے ہیں۔ ہارنے والے امید واروں کو چاہیے وہ قوم کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے بجائے اپنے کردار اورکارکردگی پر غور کریں اور اُن نقائص کو دور کریں جن کی وجہ سے وہ ووٹ حاصل نہیں کر پاتے تاکہ آئندہ الیکشن میں اُن کوکسی سے کوئی گلہ نہ رہے۔ بدقسمتی کے طعنے سے قوم سیاست دانوں اور اُن کے حواریوں سے مزید متنفر ہو جائے گی۔ چوک چوراہے پر کھڑی بھکارن اور قومی قیادت کے خواہش مند سیاست دان کی نفسیات میں کچھ تو فرق لازم ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔