ہمارے تعلیمی ادارے

مدثراحمد

ایک دورے میں سرکاری اسکول ہی تعلیم کا واحد ذریعہ تھے اور انہیں اسکولوں سے فارغ ہونے والے طلبا اپنی زندگیوں کو سنوارا کرتے تھے لیکن وقت کے بدلنے کے ساتھ ساتھ سرکاری اسکولوں سے لوگ دور ہوتے گئے اور آج سب کی پہلی پسند پرائیویٹ اسکول وکالج ہیں جہاں پر 90 فیصد لوگ اپنے بچوں کو تعلیم دلوارہے ہیں اور اس بات سے مطمئن ہیں کہ انکے بچے نجی اسکولوں میں ہی تعلیم حاصل کرتے ہوئے اپنا مستقبل سنوار لینگے۔

 والدین کا یہی بھروسہ آج نجی اسکولوں و کالجوں کے لیے سرمایہ بن گیاہے اور ان کالجوں و اسکولوں میں باقاعدہ تعلیم کا کاروبار جاری ہے۔ ایک طرف غیر مسلم تعلیمی اداروں میں ہزاروں روپئے تعلیم کے نام پر وصول کیے جارہے ہیں اور ان پیسوں کے عوض طلباء کو اچھی تعلیم، بہترین سہولیات، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ کلچرل، اسپورٹس، اینٹرٹینمنٹ سے آراستہ کیا جارہاہے، جیسا پیسہ ویسا مال کی طرح جتنی فیس اتنی ہی سہولت دی جاتی ہے جس کی وجہ سے غیر مسلموں کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی ان تعلیمی اداروں کی جانب مائل ہورہے ہیں اور روزبروز غیروں کے تعلیمی ادارے ترقی کرتے جارہے ہیں۔ وہیں ہمارے مسلم ادارے بھی اچھی تعلیم دینے کا دعویٰ تو کررہے ہیں مگر اس دعوے میں پوری طرح سے کامیاب نہیں ہو پارہے ہیں ۔

 ایسا نہیں ہے کہ ہمارے نجی تعلیمی ادارے فیس و ڈونیشن سے محروم ہوتے ہیں بلکہ وہ بھی دوسرے تعلیمی اداروں کی طرح باقاعدہ فیس و ڈونیشن لیکر ہی تعلیم دیتے ہیں۔ مگر ایک بات دیکھنے میں آئی ہے کہ ہم اپنی تعلیمی اداروں کے معاملے میں جس کنجوسی کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ ناقابل بیان ہیں۔ ابتداء میں ہمارے تعلیمی اداروں کے ذمہدار اسکولوں پر پیسہ خرچ کرتے ہیں اور جو پیسہ طلباء سے وصول ہوتا وہ بھی اسکول و کالج پر خرچ کرتے ہیں یہاں تک کہ اس اسکول و کالج کی شناخت عام ہوجائے اور یہاں تعلیم کی بہتر سے بہتر سہولت ملے، چندسال بعد وہ اپنی محنت اور قربانیوں کاپھل کھاتے ہیں، بعض تعلیمی ادارے تو یونیورسٹی کی سطح پر پہنچ گئے ہیں۔

 ہمارے تعلیمی اداروں کے ذمہ داروں کی سوچ اسکے بالکل برعکس ہے، ہم ادارے شروع کرتے ہی ہیں شارٹ کٹ میں پیسہ کمانے کے لئے، دو سال سرمایہ لگایا اور تیسرے سال سے منافع کے لئے منہ کھول لیتے ہیں ، ہمارے تعلیمی اداروں میں نہ اچھی عمارت ہوتی ہے نہ کھیل کود کا میدان، میدان اچھا ہو تو کھیل کھلانے کے لئے نہیں ہوتا ہے استاد۔ جن اساتذہ کا تقرر کیا جاتا ہے انہیں معمولی تنخواہ دے کر صبح سے شام تک محنت کرنے کہا جاتا ہے جبکہ دوسرے جتنی تنخواہ دیتے ہیں اتنی ہی محنت کرواتے ہیں لیکن ہمارے یہاں اساتذہ کو گدھا بنالیا گیا ہے اور ہم ان پر بوجھ ڈالتے ہیں۔

جیسا بیج بوئینگے ویسا ہی پھل ملتا ہے اور ہم اساتذہ کا منہ مارکر اچھے نتائج کی توقع کرتے ہیں تو یہ ہماری بیوقوفی ہی ہوگی۔ آج ہمارے درمیان ہزاروں مسلم تعلیمی ادارے ہیں لیکن وہ اپنے میعار کو قائم رکھنے میں ناکام ہیں ، بعض تعلیمی اداروں نے تو بچوں کو رٹے ہوئے طوطے بناکر دنیا میں چھوڑ دیتے ہیں اور ایسے طلباء اکثر ناکام ہوجاتے ہیں ۔ ہم بچوں کو ڈاکٹر، انجینئر آئی اے یس آفیسر تو بنانا چاہتے ہیں لیکن ان بچوں کو کبھی ایسی شخصیات سے متعارف کروانا ضروری نہیں سمجھتے۔ جب بچے اپنے سامنے ڈاکٹر، پولیس آفیسر اور انجینیر کو دیکھینگے تو انکے دل میں بھی جذبہ پیدا ہوگا کہ وہ کیا بنیں۔

ہمارے تعلیمی اداروں میں تبدیلی لانے کی اشد ضرورت ہے اور یہ تبھی ممکن ہوسکتا ہے جب تعلیمی اداروں کے ذمہ دار وسیع النظر ہوتے ہوئے اپنے آپ کو تبدیل کریں۔ تعلیمی ماہرین سے رجوع کریں ۔ ورنہ ہمارے تعلیمی ادارے یونیورسٹی تو کیا گریجویٹ لیول کے کالج بھی نہیں بن پائینگے۔

 آج قوم مسلم کو بہترین و میعاری تعلیمی اداروں کی ضرورت ہے نہ کہ محض نام کے کانوینٹ اسکول، پبلک اسکول، اسلامک اسکول، انٹرنیشنل اسکول بنائے جائیں۔ ہم نے کچھ ایسے اسکول بھی دیکھے ہیں ہیں جہاں پر اسلامک اسکول کے نام پر لوگوں کو لوٹا جارہاہے، اگر اسکولوں میں عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامک تعلیم دی جارہی ہے تو اس اسلامی تعلیم کے عوض پیسے لینے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ اسلامک تعلیمات سے آراستہ کرنا ہمارا دینی فرض ہے اور ہاں اسلامی تعلیم کے معلم کے لئے تنخواہ دینی ہوتو اتنی ہی فیس لی جائے نہ کہ معلم کے ساتھ ساتھ اسکول کے مسلم مالک کی ضرورتیں پوری ہونے لگیں۔ تعلیم دینا ایک اسلامی فریضہ ہے نہ کہ کمائی کا ذریعہ، ایسے میں کمائی کا ذریعہ بنالیاجاتا ہے تو اپنے گاہکوں کو وہی مال دیں جتنی قیمت وصولی جارہی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔