طلاق بل مسلمانوں کے گلے میں صرف پھندہ ہے

حفیظ نعمانی

ایک نشست میں تین طلاق بل راجیہ سبھا میں پیش تو ہوا مگر پاس اس لئے نہ ہوسکا کہ بی جے پی کی مخالف تمام پارٹیوں نے اس بل کو سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیجنے کا مشورہ دیا۔ یہ بل جسے تین طلاق بل کے غلط نام سے پکارا جارہا ہے اس کے بارے میں وزیر قانون روی شنکر پرشاد کی عجلت سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے۔ انہوں نے منھ بگاڑکر کہا کہ لوک سبھا میں کانگریس کا رویہ یہ نہیں تھا تو راجیہ سبھا میں دوسرا چہرہ اس نے کیوں دکھایا؟ ہم نہیں جانتے کہ جس کانگریس کو ان کے آقا ملک سے باہر کرنے کا نعرہ دے کر میدان میں آئے تھے انہیں اس کی کیا فکر ہے کہ کانگریس کے دو چہرے ہوگئے یا چار ان کی بلا سے۔

لوک سبھا میں اگر حزب مخالف مخالفت کرتے تب بھی اسے پاس ہونا تھا اور نہیں کی تب بھی وہ پاس ہوگیا۔ ہم حیران ہیں کہ اگر دس بیس یا پچاس عورتوں کو اور ایک وقت میں تین طلاق دے دی جائے گی تو ملک کا کیا نقصان ہوجائے گا؟

حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی گجرات کے زخموں پر مرہم رکھ رہی ہے وہ گجرات میں حکومت بچانے میں تو کامیاب ہوگئی لیکن مودی جی اور امت شاہ کی عزت آبرو نہ بچا سکی 2012ء میں مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی تو مودی کو 115  سیٹیں ملی تھیں اور کانگریس کو 61 اور مسلمان صرف دو تھے آج بی جے پی کی نہیں مودی کی حکومت ہے تو مودی کو 99  کانگریس کو 80  اور مسلمان دوگنے یعنی چار اور اگر ایمانداری کا گلا نہ گھونٹا جاتا تو پانچ ہوتے۔ مودی جی کے سامنے اہم مسئلہ یہ ہے کہ گجرات میں راہل گاندھی نے مسلمانوں کے علاقہ میں ایک بھی ایسی ریلی نہیں کی جو ٹی وی پر دکھائی گئی ہو حد یہ ہے کہ یہ بھی خبر نہیں ہوئی کہ کانگریس نے کتنے ٹکٹ دیئے اور کس کو دیئے؟ اور یہ بات بھی مشہور تھی کہ گجرات میں مسلمان ووٹ دینے میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہیں لیتے پھر یہ کیا ہوا کہ کانگریس نے ووٹ کے لئے جھولی بھی نہیں پھیلائی اور اس کے پانچ ممبر جیت گئے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔

جو بل لوک سبھا میں پاس ہوگیا اور راجیہ سبھا میں اس وقت تک رُکا ہوا ہے وہ کیسا عجیب بل ہے کہ اگر کسی نے ایک ہی وقت میں طلاق طلاق طلاق کہہ دیا تو طلاق تو اس لئے نہیں ہوگی کہ سپریم کورٹ نے کہہ دیا کہ نہیں ہوگی۔ لیکن تین سال کی سزا اور جرمانہ صرف اس بات پر ہوگا کہ اس نے تین بار طلاق کیوں کہا اور صرف یہ کہنا ہی سنگین جرم بنے گا جس کی ضمانت بھی نہیں ہوگی۔ اور ضروری نہیں کہ جسے طلاق دی گئی ہے وہ شکایت کرے یا کوئی اور جس نے سنا ہو پولیس کو اطلاع دے بلکہ پولیس کو ہی یہ اختیار ہوگا کہ وہ اپنی معلومات پر کسی کو بھی پکڑ لائے اور اسے جیل بھیج دے۔

سنگین جرائم جس میں بغیر وارنٹ کے پولیس کو گرفتار کرنے کا اختیار ہوتا ہے اس میں عدالت کا کوئی دخل نہیں ہوتا ہم نے خود دیکھا ہے کہ مجسٹریٹ کی حیثیت چپراسی کی ہوتی ہے۔ ہمیں جب مسلم یونیورسٹی نمبر ’’ندائے ملت‘‘ نکالنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تو ڈی آئی آر کے تحت کیا گیا۔ اور جب مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا تو صرف یہ کہا گیا کہ انہیں ڈی آئی آر کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ مجسٹریٹ صاحب نے یہ بھی معلوم نہیں کیا کہ انہوں نے کیا کیا ہے؟ بس 14  دن کے لئے جیل بھیج دیا اور 9 مہینے تک صرف یہ ہوتا رہا کہ ہر 14  دن کے بعد ہم عدالت آتے تھے اور مزید 14  دن کے لئے پھر چلے جاتے تھے۔ ہندوستان میں پولیس کو آج بھی وہی اختیارات ہیں جو انگریزوں نے غلام ہندوستانیوں کے لئے دیئے تھے۔ ملک کی آزادی کے بعد سے اب تک جو بھی حکومت پر قابض ہوا اس نے مسلمانوں کی وجہ سے ان اختیارات کو کم نہیں کیا۔ اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج بھی سیکڑوں مسلمان نوجوان جن میں زیادہ تر تعلیم یافتہ ہیں جیل میں ہیں اور ان پر جو سنگین دفعات لگائی گئی ہیں وہ صرف پولیس نے لگائی ہیں ان میں سے آئے دن دس بیس پچیس سال جیل میں گذارکر باعزت بری ہوچکے ہیں جن کے خلاف پولیس کوئی ثبوت نہیں پیش کرسکی اور حکومت کے ڈوب مرنے کی بات یہ ہے کہ ان پولیس والوں کو نہ ایک دن کی سزا دی گئی اور نہ ان کی تنخواہ سے ہرجانہ دلایا گیا۔ وزیر اعظم صرف تین مرتبہ طلاق کا لفظ بولنے کو اس لئے سنگین جرم قرار دے رہے ہیں کہ ہر اس تیز مسلمان لڑکے کو جو بی جے پی کی مخالفت میں سامنے آئے پولیس کے ذریعہ طلاق کہنے کے سنگین جرم میں جیل بھجوا دیں اور الیکشن جیت لیں۔

پاکستان کی دہشت گرد تنظیموں سے رابطہ رکھنے یا بم بنانے یا ریل کی پٹریاں اکھاڑنے یا دھماکہ خیز سامان رکھنے کے جرم کے بجائے اب جس ایک سپاہی کے لئے کسی مسلمان کو پکڑکر جیل بھیجنے کے لئے اتنا کافی ہوگا کہ میں نے خود سنا کہ اس نے تین بار طلاق طلاق طلاق کہا اور یہ سنگین جرم ہے لہٰذا تین سال کیلئے جیل بھیج دیا جائے۔

ہر لیڈر ہر اخبار ہر ٹی وی چینل اس بل کو طلاق ثلاثہ یا تین طلاق بل کہہ رہا ہے۔ اور دلچسپ  بات یہ ہے کہ طلاق اب اس وقت ہوگی جب شریعت کے طریقہ سے دی  جائے گی۔ مسلمانوں میں حکومت کی کوششوں سے غربت اور جہالت سب سے زیادہ ہے شاید پانچ فیصدی مسلمان  جانتے ہوں گے کہ پہلی دوسری اور تیسری طلاق کے درمیان کتنا فرق رکھا جائے گا اور اس میں پاکی اور صحبت کا ہونا نہ ہونا کیا ہے؟ یہ جو ایک نشست میں تین طلاق کا رواج بڑھا وہ اسی وجہ سے کہ کتنے مسلمان جانتے ہیں کہ طلاق کیسے دی جائے؟ ایک وقت میں تین طلاق کے غیرقانونی ہوجانے کے بعد طلاق تو بہرحال ہوگی اور بہت کم طلاق ایسی ہوتی ہیں جو وقتی غصہ میں دے دی جائے۔ ورنہ اکثر وہی ہوتا ہے کہ جب نباہ ناممکن ہوجاتا ہے تو طلاق دی جاتی ہے۔ اور یہ صرف مسلمانوں میں نہیں ہر مذہب میں ہوتا ہے۔ اور یہ مسئلہ شریعت کا ہے حکومت کا نہیں حکومت اس میں صرف ان آزاد خیال مسلمان عورتوں کے ووٹ چاہتی ہے جو سیکولر پارٹیوں کے بجائے اسے مل جائیں مودی جی اور روی شنکر پرشاد اگر گرم توے پر بیٹھ کر بھی کہیں کہ انہیں مسلمان عورتوں کی فکر ہے تب بھی یقین کرنے والے آخری درجہ کے بے وقوف ہوں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔