میرے ہونے کی خبر مجھ کو سنا دی گئی ہے

شاہدؔکمال

میرے ہونے کی خبر مجھ کو سنا دی گئی ہے

پھر مرے پاؤں کی زنجیر ہلا دی گئی ہے

اُس کو اب خود کے بھی ہونے پہ گماں ہوتا ہے

میرے چہرے سے نقاب اُس کی اٹھا دی گئی ہے

پیش کرنا ہے مجھے اپنے لہو کا میثاق

پھر مجھے عرصۂ مقتل سے صدا دی گئی ہے

روح سے زخم کا ملبوس اُتارا گیاہے

اک نئے زخم کی پوشاک پنہا دی گئی ہے

کاسہ گر اب کوئی صورت نہیں بننے والی

میری مٹی میں ہی کچھ ریت ملا دی گئی ہے

اس میں گنجائش در کی کوئی صورت ہی نہیں

بیچ میں اک نئ دیوار اُٹھا دی گئی ہے

ٹوٹ جاتا ہے جو حیرت کی فراوانی سے

آئینے میں کوئی تمثال بنا دی گئی ہے

شاہدؔ زود فراموش سے کیا پوچھتے ہو؟

زندگی پھر مجھے جینے کی دعا دی گئی ہے

تبصرے بند ہیں۔