جانور بھی نہیں کرتے جو بشر کرتے ہیں!

ڈاکٹر سلیم خان

فرد کی موت ایک بار ہوتی ہے مگر داعش کے رہنما ابوبکر بغدادی کے فوت ہونے کی خبر کئی بار ذرائع ابلاغ کی زینت بنی اس لیے کہ وہ علامت ہے۔ اسی طرح شمبھو محض ایک درندہ صفت انسان نہیں بلکہ ایک ذہنیت کا نمائندہ ہے۔ افرازل کی ویڈیو اپنی طرح کی پہلی ویڈیو نہیں ہے۔ اس سے قبل داعش کے ذریعہ اس طرح کی کئی ویڈیوز ذرائع ابلاغ میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ جانور اپنی ضرورت کے لیے دوسرے جانور کا شکار ضرور کرتے ہیں مگر اسکی ویڈیو بناکر نہیں پھیلاتے۔ یہ مطابقت وی ایچ پی اور بجرنگ دل کو داعش کا ہم پلہّ ضرور بناتی ہیں لیکن ان کچھ فرق بھی ہے۔ داعش عراق اور شام کے  لوگوں پر مشتمل  مقامی گروہ نہیں بلکہ ایک مشکوک گروہ ہے۔  اس میں شامل لوگ اپنے لب و لہجے اور رنگ روپ سے غیر ملکی معلوم ہوتے ہیں۔ ان کا تعلق مسلم ممالک سے نہیں بلکہ یوروپ و امریکہ سے نظر آتا ہے جہاں مسلمان نہیں بلکہ عیسائیوں کی اکثریت ہے۔ اس لیے مسلمانوں کے بجائے اجنبیوں کی خلافت کے قیام غیر معمولی دلچسپی ان کے اغراض و مقاصد کی بابت شکوک و شبہات پیدا کرتی  ہے۔

اپنی انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کا اوبامہ اورہیلری  کو داعش کا بانی قرار دینا بھی قابل ِ توجہ ہے۔ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد بہ آسانی داعش کا خاتمہ اس بیان کی تائید ہے کیونکہ دہشت گردوں کی رسد رک جائے تو وہ  اپنی موت آپ مرجاتے ہیں۔ داعشجس دین کے قیام کا  دعویٰ کرتاہےاس کی حکمت عملی اس مذہب کے مزاج سے میل نہیں کھاتی ہیں۔ اسلام نہ صرف اس طرح کی سفاکی ممنوع ہے  بلکہ مسلمانوں کی تاریخ میں بگڑے ہوئے مسلمانوں نے بھی اس کا مظاہرہ نہیں کیا۔

اس کے برعکس ہندو احیاء پرستوں کی شناخت سے متعلق کسی قسم کا شک و شبہ نہیں پایا جاتا۔ وہ ہندوستان کی سرزمین میں رہنے بسنے والے مقامی لوگوں پر مشتمل ہے۔ ان کی رگ رگ میں فسطائیت کا زہر بھرا ہوا ہے جس کا اظہار ببانگ دہل ہوتا ہے۔ یہ جن کے اشارے پر کام کرتے ہیں اورانہیں جس جماعت نے اپنے سیاسی مقاصدکے حصول کی خاطر  بنایا  ہےیہ  بھی جگ ظاہر ہے۔ ان  کا پراچین طریقہ کار ۵ ہزار سالہ  ہندو تہذیب و ثقافت  سے بالکل ہم آہنگ ہے۔ شودروں کے ساتھاس طرح کی سفاکی یہ لوگ پہلے سے  کرتے رہے ہیں اب مسلمانوں کو بھی نشانہ بنایا جارہاہے۔ ان کا تعلق چونکہ اکثریتی فرقہ سے ہے اس لیے جمہوری  مجبوری کے تحت کوئی سیاسی جماعت ان کے ساتھ سختی سے پیش آنے کا خطرہ مول نہیں لیتی۔ سیکولر جماعتوں سے وہ کسی قدر خائف تھے لیکن بی جے پی کو تو وہ اپنا بھائی بند سمجھتے ہیں۔

اپنے تمام ترآپسی  اختلافات کے باوجود کسی مسلم   حکومت نے داعش کی حمایت نہیں کی۔ ان کے مظالم کا جواز فراہم نہیں کیا۔ مسلم علماء نے ہمیشہ ہی اسے دشمن کا ایجنٹ قرار دیا۔ عالم ِ اسلام کے اندر داعش کی حمایت میں ایک بھی مظاہرہ نہیں ہوا۔ اس کے برعکس راجستھان میں ظالمانہ قتل کے بعد شمبھو لال کی گرفتاری کے خلاف ہندو تنظیموں نے احتجاجی مظاہرہ کرنے کا اعلان کردیا۔ ہنگامہ اس قدر شدید تھاکہ اس کے سبب انتطامیہ  انٹرنیٹ کی  خدمات بند کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ راج سمند میں ہونے والے افرازل کےظالمانہ قتل کے بعد ہندو احیاء پرستوں  کی ریلیوں ا ور سوشل میڈیا پر مشتعل کرنے والے بیانوں کی وجہ سے اودے پور شہر میں کرفیو لگانا پڑا۔ اس کے باوجود وشو ہند وپریشد،  بجرنگ دل اور مختلف تنظیموں کے کارکنان نے پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جلوس نکالا اور کورٹ پر بھگوا پرچم لہرادیا۔ ۔ پولیس نے تقریباً دو سو افراد کودنگا  کے بعد حراست میں تو لیا مگر پانچ کلو میٹر دور لے جاکر چھوڑ دیا۔ انتظامیہ کی اسی نرمی سے ان دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں۔ ان دہشت گردوں کے تشدد کو ہندو مذہب سے نہیں جوڑا جاتا۔ اس کے باوجود ہندو دھرم کوعدم تشدد کا مذہب قرار دینااور اسلام کو خونخوار بنا کر پیش کرنا اگر منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔