چاہتِ زیست لیے جیتے ہیں مر جاتے ہیں

احمد نثارؔ

ہم بھی گمنام کسی نام پہ مرجاتے ہیں

اور مر کر بھی تِرا نام ہی کر جاتے ہیں

جانے کس نام سے رشتوں کو نبھانا ہے ہمیں

اور کس نام سے ایام گذر جاتے ہیں

وقت کی شام کسی نے نہیں دیکھی لیکن

شام کا وقت تِرے نام ہی کر جاتے ہیں

جس طرف جاکے کوئی لوٹ کے آیا ہی نہیں

جانے کیوں لوگ اسی راہ گذر جاتے ہیں

اپنی منزل کا پتہ پوچھتے پھرتے پھرتے

جانے کس راہ پہ جانا تھا کدھر جاتے ہیں

زیست کو زیست کی صورت نہیں دیکھی ہم نے

چاہت ِ زیست لیے جیتے ہیں مر جاتے ہیں

میرے اندر بھی کئی موج ابھر تے ہیں نثارؔ

جانے کیوں کر میرے اندر ہی اتر جاتے ہیں

تبصرے بند ہیں۔