طلاق ثلاثہ پر عدلیہ کا ریمارک

مسلمانوں کے درمیان تفریق کی دیوار کھڑی کرنے کی کوشش!
ڈاکٹر اسلم جاوید
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وطن عزیز میں دیگر ممالک کی طرح مسلمانوں کے مختلف فرقے اور مسالک پائے جاتے ہیں ،جن میں سے حضرات غیر مقلدین کو چھوڑ کر لگ بھگ سبھی مسلمان فقہاء ائمۂ کرام کی تقلید کرتے ہیں اور فقہائے کرام کے یہاں ڈھیر سارے مسائل میں اختلافات موجود ہیں۔مگران اختلافات کی وجہ سے نہ تو ائمہ کرام کی ذات کو سب وشتم کا نشانہ بنانے کی اجازت دی جاسکتی ہے اور نہ ان اہل اللہ کی نیت پر ہمیں شک کرنے کی اجازت حاصل ہے۔اس لئے تمام کے تمام فقہائے کرام خوف الہی کا مجسمہ تھے اور فرامین آسمانی کے کسی بھی گوشہ کو صرف نظر کرنے کوزندگی کے کسی بھی مرحلے میں ائمہ فقہ نے جائز نہیں سمجھا تھا۔پنجگانہ نمازوں کی ادائیگی سے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معمولی سے معمولی سنت پر مواظبت کے ساتھ عمل ائمہ فقہ کی زندگی کا اٹوٹ حصہ تھا۔اپنے ہادی ومرشدﷺ کے اسوۂ حسنہ سے انہیں کس درجہ محبت و عقیدت تھی اور اپنی عملی زندگی میں اللہ کا خوف ہر خوف پر ان کے یہاں کتنافائق تھااس کا ثبوت سوانح حیات لکھنے والے ان کے ہم زمانہ مؤرخین وتذکرہ نگاروں کی تحریروں میں تفصیل کے ساتھ ملتا ہے۔مذکورہ بالا تمہید بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے سبھی ائمہ مطہرین علم حدیث و قرآن کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ چکے تھے اورانہیں علم وفہم کی سربلندی نے مقام اجتہاد پر فائز کیاتھا۔لہذا سبھی ائمہ کرام نے صدق دلی اور خلوص نیت کے ساتھ اجتہاد طلب مسائل کے استنباط میں قرآن و سنت کو پیش پیش رکھا ۔استنباط مسائل کے عمل میں ائمہ اسلام نے اپنی ذاتی منفعت کوکبھی کوئی اہمیت نہیں دی،اس لئے کہ ان کے سینے علوم الہی کے ساتھ ورع وتقویٰ سے معمور تھے۔تدوین فقہ کے اس دور میں ائمہ کرام کے درمیان بعض اجتہادی مسائل میں اختلاف بھی پیدا ہوئے۔یہی وجہ ہے کئی مسائل میں ائمہ فقہ کے درمیان اختلافات بھی رہے ہیں ۔مگران تمام کے باوجود بیسویں صدی ہجری میں جنم لینے والے ایک فتین مذہب کی طرح ائمہ کرام کے یہاں اپنے مخالف پر طنز کرنے یا ان کی نیتوں پر شک کرنے یا انتہائی جنگلی اور بدوی انداز میں گالیاں دینے کا کوئی تذکرہ کہیں بھی نہیں ملتا۔شدید علمی اور اجتہادی اختلافات کے باوجود ائمہ کرام ایک دوسرے کے ادب و احترام کو اپنے اوپر فرض تصور کرتے تھے۔
بدقسمتی سے انگریزی تسلط سے آزادی کے بعدہندوستان میں ایک منظم سازش کے تحت فقہائے اسلام کے اسی اختلاف کو ہوا دینے کی ناپاک کوشش کی گئی اوراسی راستے سے مسلمانوں کے درمیان تفریق کی دیوار مضبوط کرنے میں اسلام دشمن قوتوں کو بھرپورکامیابی حاصل ہوئی۔ امت مسلمہ ہند کیلئے سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی کہ2014میں ایک منظم سازش کے تحت سیکولر جماعتوں نے ملک کی سیکولر فورس کے تانے بانے کو منتشر کرنے میں دیدہ ونادیدہ طریقے سے کلیدی رول ادا کیا اور اس طرح آ سانی کے ساتھ یرقانی گروہ کوہندوستان کی زمام اقتدار پر قابض ہونے کا موقع مل گیا۔اس کے بعد سے ہی مسلمانوں کے فقہی اختلافات کو نت نئے طریقے سے ہوادینے اور تفریق کی کھائی کو مزید گہری کرنے کی سازشوں کو سرکاری سرپرستی حاصل ہوگئی۔سچ یہ ہے کہ بادل ناخواستہ یہی سچائی ایک مرکزی وزیر اوربی جے پی کے پھوہڑ لیڈر جنہیں مسلمانوں کیخلاف ماحول سازی کی ڈیوٹی دی گئی ہے ان کی زبان پر آگئی اور گزشتہ سال 2015کے آخر میں سبرامنیم سوامی نے ایک اجتماع میں کہا کہ مسلمانوں کے مسلکی اختلاف کو ہوادیکر انہیں آسانی سے منتشر کیا جاسکتا ہے۔آج اگر ملک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ یا طلاق ثلاثہ پر مخالفین کی زبانوں کو طاقت مل رہی ہے تو اس کے پیچھے یہی زعفرانی سازش کا سرمایہ اور دماغ کام کررہا ہے۔گزشتہ ہفتہ طلاق ثلاثہ پر الہ آباد ہائی کورٹ کی جانب سے حدیث مصطفی ﷺ پر جو نازیبا ریمارک سامنے آ یا ہے ،اس سے بھی اسی قسم کی سازش کی بو آ تی ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے اسلام پر ریمارک کرتے ہوئے کہا تھا کہ تین طلاق کا ذکر قرآن میں نہیں ہے۔اب جج صاحب کو یہ کون بتائے کہ اگر تین طلاق کو واضح کرکے بیان نہ کرنے میں منشائے ربانی کیا ہے۔قرآن دوبار طلاق دینے کی ہدایت دیتے ہوئے یہ پیغام دیتا ہے کہ مناسب اور مستحسن طریقہ یہ ہے کہ دوکے بعد خموشی اختیار کرلی جائے، ممکن ہے کہ اس درمیان میاں بیوی کے درمیان صلح کا کوئی مثبت راستہ نکل آئے۔ قرآن مجید میں دوبار طلاق دے کر ٹھہرنے کا اشارہ واضح کررہا ہے کہ اگر تین زبان سے طلاق نام کی گولی چل گئی تو اب صلح کا کوئی راستہ باقی نہیں رہ سکے گا۔حدیث مبارکہ میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں ،چونکہ یہ میرا اخباری کالم ہے جو طوالت برداشت نہیں کرتا ،لہذا ہم جمعیۃ علمائے ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی صاحب کے طلاق ثلاثہ پر ہائی کورٹ کے ریمارک پر دیے گئے بیان کو درج کرناہی کافی سمجھتے ہیں۔مولانا نے کل ہی اس موضوع پر منعقدہ پریس کانفرنس میں اس موضوع پر مدلل بیان دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ’ ایک بار میں ایک ساتھ تین طلاق کا اگرچہ قرآن میں ذ کر نہیں ہے اور رسول کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کوناپسند فرمایا ہے، لیکن ایک نشست میں تین طلاق کو تین ہی مانا ہے۔ اس طرح کے واقعات کئی بار پیش آئے اور بعد میں آنے والے خلفائے راشدین اور علما ء نے بھی اسے اسی بنیاد پر صحیح تسلیم کیا ہے۔ ایسے میں الہ آبادہائی کورٹ کے جج کا یہ ریمارکس کہ ایک ساتھ تین طلاق قرآن سے شاید ثابت نہیں ہے اور یہ غیر آئینی ہے، قطعی صحیح نہیں ہے۔ مولاناسید ارشد مدنی نے کہا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے جج کے حال ہی میں کئے گئے اس تبصرے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ محترم جج صاحب کے ذہن میں یہ بات ہے کہ اسلامی شریعت کے اعتبار سے شریعت کے تمام احکامات کا دارومدار صرف قرآن پر ہی ہے اور قرآن میں تین طلاق کا حکم نہیں ہے‘ ۔ حا لا ں کہ قران کریم کے اشارات کو سمجھنے کیلئے حدیث کو پیش نظر رکھنا ہر مومن کیلئے فرض کا درجہ رکھتا ہے۔یہاں ہم اس مسئلہ پر معروف کالم نگا ر جناب رشیدالدین صاحب کی تحریر کے اہم حصہ کو بطور اقتباس پیش کرنا مناسب سمجھتے تاکہ اس سازش کی تہ میں کون سی فکر کام کررہی ہے اس کی اصلیت سامنے آجائے۔ ’دستور ہند نے ہر شہری کو اپنی پسند کے مذہب کو اختیار کرنے اور اس کے پرچار کا حق دیا ہے ۔ سپریم کورٹ کے بعض ایسے فیصلے موجود ہیں، جن میں شریعت میں مداخلت سے گریز کی بات کہی گئی۔ اس کے باوجود ملک کی مختلف عدالتوں سے شریعت کے برخلاف فیصلوں کا سلسلہ تھمتا دکھائی نہیں دیتا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے مقدمات میں شریعت اسلامی کے حق میں دلائل کی عدم پیشکش اور عدم پیروی اس طرح کے فیصلوں کا سبب بنتی ہے۔ دوسرے یہ ملک گیر سطح پر شریعت اسلامی کو خواتین سے ناانصافی سے جوڑنے کی نفرت انگیز مہم بھی بسااوقات عدلیہ کو متاثر کردیتی ہے۔ شریعت کے تحفظ کے سلسلہ میں صرف زبانی جمع خرچ اور بے حسی نے بھی یہ صورتحال پیدا کی ہے۔ آج ہندوستان میں اس طرح کی بے باک اور بے لوث قیادت کا فقدان ہے، جس نے شاہ بانو کیس میں عدلیہ کے مخالف شریعت فیصلے کے بعد راجیو گاندھی حکومت کو شریعت کے حق میں دستوری ترمیم کیلئے مجبور کیا تھا ۔ طلاق ثلاثہ اور کثرت ازدواج کو بنیاد بناکر شریعت کے خلاف جاری مذموم مہم کے ذریعہ ملک میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ اس کے لئے مسلمانوں کے بعض نام نہاد دانشور اور دین بیزار افراد کو آگے کردیا گیا ہے۔‘
ایسے مسلمان جو دینی شعور سے عاری ہیں، وہ بھی اس پروپگنڈہ کا بآسانی شکار ہوجاتے ہیں ۔ ایسے وقت میں جبکہ طلاق ثلاثہ پر معاملہ سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے اور لاء کمیشن کے ذریعہ یکساں سیول کوڈ کے بارے میں رائے عامہ کے حصول کے نام پر ماحول سازگار بنانے کی مساعی جاری ہے، الہ آباد ہائی کورٹ نے مسلم پرسنل لا کو چیلنج کردیا۔ ایک رکنی بنچ نے طلاق ثلاثہ کو غیر دستوری قرار دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ کوئی بھی پرسنل لا دستور سے بالاتر نہیں ہے۔ یہ ریمارک کئی قانونی ماہرین کیلئے حیرت کا باعث ثابت ہوا کیونکہ دستور ہند نے خود ہر شہری کو مذہبی آزادی فراہم کی ہے ۔ جہاں تک پرسنل لاء کا سوال ہے ، چاہے وہ کسی مذہب کا کیوں نہ ہو ، دستور نے اس کی برتری کو تسلیم کیا ہے، لیکن شریعت کو اس کے تابع قرار دینا ناقابل فہم ہے۔ شریعت اسلامی کوئی دنیا والوں کا تیار کردہ قانون نہیں کہ جس میں ترمیم یا تبدیلی کی جاسکے۔ ہر مسلمان کا یہ ایمان ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بنائے ہوئے اس قانون کا اطلاق صبح قیامت تک رہے گا اور اس میں ترمیم یا مداخلت کی کوئی بھی کوشش ناقابل قبول ہے۔
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔