محمدؐ بن عبداللہ کی فتح

سید قطب شہید

زمین کے گوشہ گوشہ میں روز وشب لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ کی کروڑوں آوازیں گونجتی ہیں۔ یہ آوازیں چودہ صدیوں سے نہ خاموش ہوتی ہیں اور نہ کم ہوتی ہیں۔سلطنتیں بدل گئیں، حالات متغیر ہوگئے۔ لیکن زمانہ کے دل میں پیوست یہ ابدی گونج بلند ہوتی رہتی ہے۔
یہ آوازیں محمد بن عبداللہ کی فتح کی جیتی جاگتی دلیل ہیں۔ آپ کی یہ فتح کسی غزوہ یا معرکہ کی فوجی کامیابی نہیں۔ جزیرہ عرب کو مغلوب کرلینے کی تاریخی حقیقت بھی نہیں۔ قیصر وکسریٰ کو سرنگوں کرلینے کا مہتم بالشان واقعہ بھی نہیں بلکہ یہ وہ فتح ہے جس نے مسرت کی سرشت میں اپنا مقام پیدا کرلیا جو تاریخ کا دھارا موڑنے والی ہے، دنیا کی قیمت پر متصرف ہے اور زمانہ کے قلب میں متمکن ہے۔
یہ وہ فتح ہے جو امت مسلمہ کو پہونچ جانے والی کی ضعف سے ختم نہیں ہوتی نئے نئے مذاہب اور فلسفے اس کی قدروقیمت کم نہیں کرسکتے۔ زمین کے کسی گوشہ میں ایک فریق کا دوسرے فریق پر غلبہ اس کا نور بجھا نہیں سکتا۔ اس لئے کہ اس کے بیچ کائنات کی گہرائی میں دفن ہیں اور انسان کے ضمیر اس پر گواہ ہیں۔
یہ فتح آپ اپنی دلیل ہے اس کے لئے کسی دوسری دلیل یا برہان کی ضرورت نہیں۔
آئیے! ہم اس کے اسباب اور وسائل کا پتہ لگانے کی کوشش کریں تاکہ آج ہم وہی ذرائع ورسائل اختیار کرسکیں اور انہیں اسباب کے مطابق کام کرسکیں۔
اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی وحی یہ تھی کہ محمدؐ بن عبداللہ کامیاب وکامران ہوں اور دین مستقیم کو غلبہ نصیب ہو لیکن اللہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کامیابی کو آسان اور سہل بنادے۔ اور نہ یہ چاہتا تھا کہ اسے معجزہ بنادے کہ کوئی انسانی کوشش اور ذریعہ اسے حاصل نہ کرسکے اس نے اسے رسول اللہؐ کی جدوجہد کا شیریں پھل اور آپؐ اور آپؐ کے اصحاب کی قربانیوں کا منطقی نتیجہ بنایا۔
چنانچہ جو شخص معلوم کرنا چاہتا ہے کہ رسول اللہ نے کامیابی کیسے حاصل کی اور اسلام کی فتح کیسے حاصل ہوئی اسے آپ کی شخصیت ، سلوک، سیریت اور جدوجہد کے مطالعہ سے معلوم کرنا چاہئے۔ اسے معلوم ہوجائے گا کہ کامرانی کا طریقہ مقرر ہے اس کے وسائل موجود ہیں۔ اسباب حاضر ہیں اور کوئی بھی شخص اگر کامیاب ہونا چاہے تو اسے رسولؐ اللہ کو اپنے لئے نمونہ بنانا چاہئے۔محمدؐ بن عبداللہ کی کامیابی کی تین بنیادی مراحل ہیں اس میں سارے حل پوشیدہ ہیں۔ محمد بن عبداللہ نے کامیابی کا پہلا مرحلہ اس دن طے کیا جس دن قریش کے سردار ابوطالب سے یہ مطالبہ کرنے آئے کہ اپنے اس بھتیجے کو روکو جس نے ان کے دین ، ان کی رسومات اور ان کے اعتقادات میں مداخلت کرکے ان کو ہلاکر رکھ دیا۔ اسے ان کے معبودوں کے بارے میں بولنے سے روک دو اور اس کے بدلہ میں اگروہ چاہے تو وہ اسے مالا مال کردیں گے۔ اگر سردار بننا چاہے تو سرداری عطاکریں اور اس کے بعد اسے ان پر پورا اختیار ہوگا۔
محمدؐ بن عبداللہ کامران رہے جب آپ نے ان لوگوں کے اور زمانہ کے کانوں میں ایمان کے منبع سے پھوٹنے والی ابدی بات کہی، خدا کی قسم چچاجان! اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں تاکہ میں چھوڑ دوں تو میں یہ ہرگز نہیں چھوڑوں گا۔ یہاں تک کہ مجھے موت آجائے، ’’خدا کی قسم کیا ہی زلزلہ خیز شان وشکوہ ہے، کتنی پرشکوہ تصویر ہے۔
اس دن محمدؐ بن عبداللہ نے کامیابی حاصل کرلی اور قریش کے اجتماعی ضمیر کو اس طرح ڈگمگادیا کہ پھر وہ کبھی قرار نہ پا سکا۔ یہ ایمان تھا یہی وہ قوت ہے کہ جب انسان کے شعور میں جاگزیں ہوجائے تو پھر اسے کوئی چیز مغلوب نہیں کرسکتی۔
اور پھر محمد بن عبداللہ کی کامیابی کا دوسرا مرحلہ اس وقت طے ہوا جب آپ نے اپنے اصحاب کو ایمان کی زندہ چلتی پھرتی تصویریں بنادیا۔ ان میں سے ہر ایک کو زمین پر چلنے پھرنے والا زندہ قرآن اور مجسم اسلام بنادیا۔
خالی نصوص کچھ نہیں کرسکتے صرف مصحف سے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اگر ان پر عمل کرنے والا انسان نہ ہو نظریات زندہ نہیں رہ سکتے۔ اگر عملاً اپنائے نہ جائیں۔ محمد ؐ کا مقصد تھا کہ انسان تیار کریں۔ صرف وعظ ونصیحت نہ کریں۔ دلوں اور خمیروں کو ڈھائیں صرف تقریریں نہ کریں۔ ایک امت کی تعمیر کریں صرف فلسفہ پیش نہ کریں۔ نظریہ تو قرآن نے پیش کردیا تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن یہ تھا کہ اس مجردفکر کو، اس نظریہ کو انسانوں کے قالب میں ڈھال دیں اور ایسی زندہ حقیقت بنادیں جنہیں ہاتھ چھوسکیں اور آنکھیں دیکھ سکیں۔جب یہ لوگ زمین کے مشرق ومغرب میں گئے تو لوگوں نے دیکھا کہ یہ تو کوئی بالکل نئی مخلوق ہے۔
انسانیت اس سے پہلے آشنا نہ تھی۔ اس لئے کہ وہ اس نظریہ کے زندہ نمونہ تھے۔ جو اس وقت کی انسانیت کے لئے اجنبی ہوگیاتھا۔ اس وقت لوگ اس نظریہ پر ایمان لے آئے۔ اس لئے کہ وہ ان لوگوں پر ایمان لے آئے تھے جن میں یہ نظریہ جلوہ گر تھا۔
یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی تھی کہ آپ نے اسلامی فکر کو انسانی شکل میں ڈھال دیا۔ مصحف کے سینکڑوں اور ہزاروں نسخے لکھے۔ لیکن یہ روشنائی کے ذریعہ کاغذ کے صفحات پر نہیں لکھے گئے تھے بلکہ نور کے ذریعہ دلوں پر لکھے گئے تھے۔ لوگوں کو عمل یہ ظاہر کرتا تھا کہ وہ اسلام کیا ہے جو اللہ کے پاس سے محمدؐ بن عبداللہ لے کر آئے ہیں۔
اور محمدؐ بن عبداللہ کی آخری کامیابی یہ تھی کہ شریعت اسلامیہ کو زندگی کا بنیادی مرکز اور لوگوں کے معاملات کا حقیقی منظم بنادیا۔
اسلام ایک عقیدہ ہے جس کی بیج سے شریعت کی کونپل پھوٹتی ہے۔ اس شریعت پر ایک نظام قائم ہوتا ہے۔ اگر ہم اسلام کو ایک درخت سے تشبیہ دیں تو عقیدہ اس کا بیج شریعت اس کا تنا اور نظام شرعی اس کا پھل ہے۔
تنا بیج کے بغیر جڑ نہیں پکڑ سکتا۔ اور اس بیج کی کوئی قیمت نہیں جس سے تنا نہ ملے۔ اس تنے کا کوئی فائدہ نہیں جو پھل نہ دے۔ اس لئے اسلام نے ضروری قرار دیا کہ اس کی شریعت ہی زندگی کی حاکم ہے۔
اس وقت سے اسلام ایک اجتماعی نظام ہوگیا۔ یہ مسلمانوں کے تعلقات کا مرکزی سررشتہ تھا وہ ان کے لئے ایسا نظام حکومت بن گیا جس کی بنیاد پر غیروں سے معاملات کرتے تھے۔ پھر اسلام زمین کے دوسرے گوشوں میں پھیلنے لگا جہاں بھی اس کا عقیدہ پہونچا ، اس کی شریعت اس کا نظام بھی پہونچا۔ جس نے چاہا اسے قبول کرلیا اور جس نے چاہاقبول نہیں کیا ’’دین میں اکراہ نہیں ہے۔‘‘

تبصرے بند ہیں۔