عدلیہ کا مسلمانوں کے ساتھ غیرجانبدارانہ رویہ کوئی نیا نہیں

محمد شاہ نواز عالم

خالق کائنات نے جب سے اس کون ومکاں کو پیداکیا ہے اور اس میں انسانوں کو آباد کیاہے اسی وقت سے دومتضاد عنصر، دومتضاد رویے دومتضاد جذبات، اس میں ودیعت کردی ہیں۔ ایک خیر ہے تو دوسرا شراور ان دونوں کے مابین تصادم وٹکراؤازل سے قائم ہے- آج ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مسلمان جن کے پاس خیرکی خیرات ہے، جن کے پاس خیر کا عالمگیر پیغام ہے، جن کے پاس ابدی وسرمدی ہدایت ہے۔ شر کے غلبہ سے حیران پریشان سرگرداں ہے۔ اس کے اسباب پر اگر غورکیا جائے تو یہ بالکل واضح ہے کہ مسلمانوں نے خیر اور خیرکی وسعتوں سے منہ موڑلیاہے۔ شر کو گلے لگاکر اسے خیر سمجھنا شروع کردیاہے، جس کے سبب انتشار، افتراق کا شکار ہوکر ٹکڑیوں میں پوری جمعیت تقسیم ہوچکی ہے۔ زیر نظر تحریر میں میں ان اسباب وعوامل پر بات کرنے کی بجائے حالیہ گرم ترین مسئلہ ’’تین طلاق، مسلم پرسنل لاء بورڈ، یکساں سیول کوڈ‘‘ کے پس منظر کیا کچھ ہے اس طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتاہوں۔

عدلیہ اور حکومت کا رویہ:۔ابھی 8دسمبر کو مسئلہ تین طلاق کے تعلق سے ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کی عدالت عالیہ نے تبصرہ کرتے ہوئے تین طلاق کو غیر آئینی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے مسلم خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ کورٹ نے مسلم پرسنل لاء بورڈ پر بھی تبصرہ کیا ہے اور کہا ہے کہ کوئی بھی پرسنل لاء بورڈ آئین سے اوپر نہیں ہے۔یہ تبصرہ کوئی نیا نہیں ہے اس سے قبل کیرلا ہائی کورٹ کے جسٹس ‘‘بی،کمل پاشا’’ نے خواتین کے حقوق پر بات کرتے ہوئے نہایت بھونڈا،غیر معقول و غیردانشمندانہ قیاس پیش کرتے ہوئے کہاتھاکہ جب مرد چار شادیاں کرسکتے ہیں توعورتیں چار شادیاں کیوں نہیں کرسکتیں، اسی روش پر چلتے ہوئے کانگریس کے سینئرلیڈر و سابق وزیر’’منیش تیواری‘‘نے کہاکہ محمڈن لاء کیابھارت کے آئین سے بڑھ کر ہے جس میں تبدیلی کی گنجائش نہیں؟اول الذکر عدالت عالیہ ہی نے 30ستمبر 2010ء میں 18 سال سے چل رہے بابری مسجد مقدمہ میں بھی مسلمانوں کے خلاف فیصلہ سنایا تھا جو انتہائی غیردانشمندانہ بلکہ تاریخ سے ناواقفیت کی بنیاد پر تھا۔ اس طرح کے ناجانے کتنے مقدمات پر عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کی مخصوص بنچوں کی جانب سے تبصرے اور فیصلے آتے رہے ہیں۔ حکومت خواہ کسی بھی پارٹی کی ہو اس نے بھی مسلم پرسنل لاء میں دخل دینے اور اس میں ترمیم بلکہ تنسیخ کی کوشش میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی ہے۔ 1972 میں راجیہ سبھا میں متبنیٰ بل پیش کیاگیا، اس وقت وزیر قانون نے اعلان کیاکہ یہ قانون یکساں شہری قانون کی حیثیت سے تمام شہریوں پر نافذ ہوگا، ظاہر ہے کہ متبنیٰ بل اسلامی قانون وراثت ونکاح پر براہ راست اثر انداز ہوتاہے۔ تمام شہریوں پر نافذ ہونے کی بات بھی اسی لئے کہی گئی تھی کہ کسی طرح مسلم پرسنل لاء میں دخل اندازی کی جائے۔ جون 1975ء میں پورے ملک میں ایمرجنسی نافذ تھی اور پورا ملک کسمپرسی کے عالم تھا کہ اس وقت حکومت وقت نے جبری نسبندی کی ٹھان لی اور لوگوں کی جبری نسبندی ہونے لگی۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی (نسبندی) شریعت کے منافی ہے- 1973میں حکومت نے پارلیمان میں مطلقہ کو تا حیات یا تا نکاحِ ثانی سابق شوہر سے نفقہ دلائے جانے کا بل پیش کیا، بورڈ نے اس سلسلہ میں ملک گیر مہم چلائی اور حکومت کو آگاہ کیا کہ یہ قانون شریعت سے صاف ٹکراتا ہے، چنانچہ بل کی آخری خواندگی روک دی گئی اور بورڈ کی کوششوں سے دفعہ نمبر127 میں ایک شق کا ا ضافہ یہ کیا گیا کہ اگر طلاق دینے والے شوہر شرعی واجبات ادا کرچکے ہوں یا مطلقہ نے معاف کردیے ہوں تو دفعہ نمبر 125 کے ذریعہ حاصل شدہ ڈگری منسوخ ہوجائے گی، اسی زمانہ میں سپریم کورٹ نے شاہ بانو کیس میں مطلقہ کے لئے تا حیات یا تا نکاحِ ثانی نفقہ لازم کیا اور قرآن وحدیث کی من مانی تفسیر کی، جس پر بورڈ نے کامیاب تحریک چلائی، بالآخر حکومتِ ہند نے6؍مئی1986 کو قانونِ حقوقِ مسلم مطلقہ پاس کرکے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو رد کردیا اور نفقہ کے اسلامی قانون کو رائج کیا۔ 1978 میں الٰہ آباد ہائی کورٹ سے مساجد ومقابر کے سلسلہ میں انتہائی نامناسب فیصلہ صادر ہوا، جس کے تحت لکھنؤ کی دو مسجدوں اور قبرستان، اسی طرح جے پور کی ایک مسجد کو وہاں کے کارپوریشن نے ایکوائر کرلیا اور مساجد ومقابر کی حرمت ختم کردی، اس فیصلہ کے تحت حکومت کو کامل اختیار دیا گیا کہ وہ جس مسجد یا قبرستان کو چاہے مفادِ عامہ کی خاطر اپنے قبضہ میں لے سکتی ہے۔اپریل 1980میں اوقاف کی آمدنی پر انکم ٹیکس لگانے کا نیا قانون جاری کیاگیا۔ 1984 میں مرکزی حکومت نے وقف کے قانون میں ترمیم کے لئے راجیہ سبھا میں ایک بل پیش کیا جس میں وقف بورڈ کی جمہوری حیثیت ختم کردی گئی اور اوقاف کی جائیداد کا قانونی تحفظ ختم کردیا گیا۔ مذکورہ تمام معاملات میں مسلم پرسنل لاء نے حکومت اور عدالت سے براہ راست جنگ کی اور فیصلوں اور بلوں کو واپس لینے پر مجبور کیا۔ بعد ازاں زہرہ خاتون بہ نام محمد ابرہیم الہ آباد،سرلا مدگل بہ نام حکومت ہند، محمد احمد خان بہ نام شاہ بانو بھوپال،دانیال لطیفی بہ نام حکومت ہند اور 6جولائی2015 میں ہندو ماں بنام عیسائی بچہ جیسے فیصلوں میں ہر مرتبہ ججوں نے یکساں سیول کوڈ کی حمایت کی اور دستور کے بنیادی حقوق کی دفعہ 14اور15کا حوالہ دیتے ہوئے آرٹیکل44کے نفاذکا مطالبہ کیا ہے ان میں سے کوئی بھی فیصلہ بادی النظر میں خلاف قانون نہیں ہے لیکن ہر فیصلہ یا تو خلاف شریعت ہے یا اس میں خواتین کے حقوق کی دہائی دے کر شریعت پر حملہ کیا گیا ہے۔
عدالت عظمیٰ میں مسلم پرسنل لاء کی جانب سے عرضی داخل کی جاچکی ہے، اور عدالت میں اس پورے معاملہ پر غوروخوض ہورہاہے۔ سماعت جاری ہے۔ علاوہ ازیں عدالت عظمیٰ نے 1981ء میں دائر مقدمہ کرشنا سنگھ بمقابلہ متھوراآہر اور 1994 میں مہارشی آویدس بمقابلہ یونین آف انڈیا کے مقدمہ میں اسی طرح 1996 میں مدھوکیشور بمقابلہ ریاست بہار کے مقدمہ میں اور 1997 میں احمد آباد گووند ایکشن گروپ بمقابلہ یونین آف انڈیا کے مقابلہ میں ہندو کوڈ بل کے تعلق سے یہ فیصلہ سنا چکی ہے کہ پرسنل لاء عدالت کے جوڈیشیل اسکوپ میں آتا ہی نہیں ہے- اس کے باوجود عدالت عالیہ الہ آباد کا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے تعلق سے یہ تبصرہ انتہائی غیرجانبدارانہ اور ملکی قوانین سے ناواقفیت کی بنیاد پر مبنی ہے۔ سرکاری عدالتیں نکاح،طلاق اور عدت وغیرہ سے متعلق ایسے فیصلے صادر کررہی ہیں،اور ایسے اقدامات کی کوشش کررہی ہیں جو مسلم پرسنل لاء کے خلاف ہیں،نکاح،طلاق اور عدت وغیرہ سے متعلق سرکاری عدالتوں کے اِس طرح کے فیصلے جہاں مسلم پرسنل لاء میں مداخلت ہیں، وہیں مسلمانوں کو دستورِ ہند میں حاصل حق سے محروم کرنے اور یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی منصوبہ بند سازش کاحصہ ہے۔مگر اِس میں ہم مسلمان بھی برابر کے قصوروار ہیں کہ اپنے اِس طرح کے نزاعات وجھگڑوں کو اپنے مذہبی اداروں (دار الافتاء ، دار القضاء ، شرعی پنچایت) سے حل کرنے کے بجائے سرکاری عدالتوں کا رخ کرتے ہیں ، اور اْنہیں مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کے مواقع فراہم کرتے ہیں، جب کہ کسی سرکاری عدالت کے اس فیصلے سے کہ -طلاق دینے والے پر عورت کی عدت کے بعد بھی اْس کا نفقہ وخرچہ لازم ہے- عورت اور اْس کے سرپرستان کے لئے اس نفقہ کا لینا شرعاً درست نہیں ہے، لہٰذا جو شخص اللہ، رسول اور آخرت کی جزا وسزاپر یقین رکھتا ہے اسے چاہئے کہ وہ اپنے معاشرتی ، تمدنی اور معاملاتی امورکو اپنے مذہبی اداروں سے ہی حل کرائے، اسی میں اس کی دنیوی فلاح اور اخروی نجات ہے۔
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے ’’سو آپ کے پروردگار کی قسم ہے کہ یہ لوگ ایماندار نہ ہونگے جب تک یہ لوگ اس جھگڑے میں جو ان کے آپس میں ہو، آپ کو حکم نہ بنالیں اور پھر جو فیصلہ آپ کردیں اس سے اپنے دلوں میں تنگی نہ پائیں اور اس کو پورا پورا تسلیم کرلیں-‘‘ (سورہ نساء :65) اس آیت نے یہ صاف کردیا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں مقدمات محض لے آنا ہرگز ایمان کے لئے کافی نہیں، عقلی واعتقادی حیثیت سے اطمینان بھی رسول کے فیصلہ پر ہونا چاہیے، ہاں اس کے بعد بھی کوئی طبعی تنگی باقی رہ جائے تو غیر اختیاری ہونے کی بنا پر معاف ہوگی – حتی یحکموک فیما شجر بینہم – آپ کی حیاتِ مبارک میں تو آپ کا حَکَم بننا ظاہرہی تھا، بعد وفات آپ کی شریعت حَکَم بننے کے لئے کافی ہے، فقہاء نے اس آیت سے استنباط کیا ہے کہ جو کوئی اللہ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم میں شک وشبہ کرے یا ماننے سے انکار کرے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے-
اب آئیے تفصیل و تحقیق کے ساتھ یکساں سیول کوڈ کی حقیقت،ازروئیدستور ہند مذہبی آزادی کی حقیقت کو کھنگالیں، نیزایک تنقیدی نگاہ دستور ہند اورموجودہ مسلم پرسنل لاء پرڈالتے ہیں،ملک کے دستور کا دیباچہ بہت واضح ہے ہندوستان ایک آزاد، سماج وادی،سیکولرجمہوریہ ہے جس کے شہریوں کو سیاسی،سماجی اور معاشی انصاف حاصل رہے گا اور عقیدہ وعبادت کے ساتھ ساتھ اظہار رائے کی آزادی حاصل ہوگی نیز معیارو مواقع کے اعتبار سے سب شہری برابر ہوں گے۔اس دیبا چے کے علاوہ دستور میںFundamental Rights کے قبیل سے آرٹیکل 25 و26بھی ہیں جس میں ملک کے تمام شہریوں کواپنے عقائد اور مذہب پرنہ صرف عمل بلکہ ان کی ترویج و تبلیغ کا حق بھی حاصل ہے اور مذہبی اداروں کا قیام بھی ہے، یہ حق بنیادی حق ہے جو نا قابل تنسیخ ہے۔مگر اسی دستور میں آگے چل کر رہنما اصول کو جہاں متعین کیا گیا ہے وہاں آرٹیکل44میں یہ بھی کہہ دیا ہے کہ حکومت ہند کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ایک ایسا ماحول بنانے کی کوشش مسلسل کرتی رہے کہ بالآخر ملک کے تمام طبقات ایک یکساں سیول کوڈ کو قبول کرنے پر آمادہ ہو جائیں 15-14،آرٹیکل25،-26آرٹیکل30اورآرٹیکل44 کو اگر ایک ساتھ سامنے رکھ کر پڑھا جائے اور غور کیا جائے توناسخ ومنسوخ کا فلسفہ سامنے آجاتا ہے۔بلکہ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ مذکورہ تمام قانونی دفعات آرٹیکل44 کوسامنے رکھ کر ہی ترتیب دی گئی ہیں مثلاً دستور کے دیباچہ میں سیاسی، معاشی اور سماجی بنیادوں پر انصاف کو قائم کر نے کی بات کی گئی ہے مگر مذہبی اداروں کے قیام اور ان کے انتظام و انصرام کی آزادی کو بھی مشروط کیا گیا ہے۔ان دونوں کا حوالہ عموماً مذہبی آزادی کے ذیل میں دیا جاتا رہا ہے لیکن یہ آزادی کس قدر مشروط ہے اس کی بات کبھی نہیں کی جا تی۔اس آزادی کو’’ نقض امن کے اندیشہ’’کے تحت سلب کر لینے کی پوری آزادی حکومت ہند کو حاصل ہے نیز اس آزادی کو کسی بھی وقت محدود کر دینے کا اختیار بھی حاصل ہے۔اسے ایسے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر کسی وقت ملک کا کوئی بھی مذہبی طبقہ کسی دوسرے مذہبی طبقہ کی مذہبی آزادی کے خلاف بر سرپیکار ہو جائے تو قیام امن کی خاطر اس دفعہ میں ترمیم کرنے کے لئے حکومت با اختیار ہے۔نیز یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ مذکورہ بالا دفعات15-14 اور دیباچہ دستور کے پیش نظر اگر عدلیہ ہی بر سر پیکار ہو جائے اور حکومت ہند سے مطالبہ کر ے کہ تمام ہندوستانی شہری انصاف کے حصول کی خاطر یکساں ہیں لہٰذا مذہبی بنیادوں پر تفریق کو ختم کیا جائے تو بھی حکومت ہند کے پاس دفعہ 25میں ترمیم یا تنسیخ کا حق حاصل ہے۔ اس پورے پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب اگر قانون کے رہنما اصولوں میں تحریر کی گئی دفعہ 44کا مطالعہ کریں جس میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی بات کی گئی ہے تو صاف محسوس ہو جا تا ہے کہ پورا دستور ہی در اصل اسی دفعہ کو ذہن میں رکھ کر تربیت دیا گیا ہے-واضح رہے کہ اس دستور سازی میں آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا کا کوئی رول نہیں تھا کیوں کہ دستور ساز اسمبلی میں صرف کانگریسی نمائندے ہی موجود تھے- ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈ کر اور کے ایم منشی نے زور دار طریقے سے یکساں سیول کوڈ کی حمایت کی تھی۔خود نہرو بھی1930سے ہی اس طرح کے یکساں قانون کے ہمیشہ حامی رہے اور در اصل ان کے اور’’امبیڈ کر’’ کے اصرار پر ہی یہ دفعہ دستور کے رہنما اصولوں میں شامل کی گئی تھی۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ نہرونے1951میں ہی پارلیمان میں ہندو کوڈ بل پیش کر دیا جسے ہندوؤں کی شدید مخالفت کا سامنا تو ضرور کرنا پڑا مگر1954 سے1956تک وہ پاس بھی ہو گیا۔اس بل کے پاس ہونے کے بعد یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی راہ میں محض مسلمان،عیسائی، اور پارسی ہی رکاوٹ ہیں۔اب جبکہ پارسی اور عیسائی میرج ایکٹ میں بھی ترمیم ہو چکی ہے بودھ،سکھ اور جین پہلے ہی ہندوؤں کے زمرے میں شامل ہیں تو اب بظاہر مسلمان ہی اس راستہ کی تنہا رکاوٹ محسوس ہوتے ہیں-
1950ء میں نرسو مالی اور بمبئی حکومت کے مابین مقدمہ کے فیصلے سے ہی اس یکساں کوڈ کے نفاذ کی جانب قدم بڑھائے جانے شروع کر دیئے گئے تھے- ایک بین الاقوامی ماہنامہ ‘‘جرنل لا ء منترا’’کی دوسری جلد کے پانچویں شمارے میں معروف قانون داں ڈاکٹر پرمندر کور نے اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان تمام مقدمات کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پچھلی کئی دہائیوں سے ایک سوچے سمجھے منصوبہ بند طریقہ سے مگر انتہائی غیر محسوس انداز سے یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی کوشش مسلسل جاری ہے اور ملک کے عوام اور دانشور تک اسے محسوس نہیں کر پا رہے ہیں- جبکہ اگر ہم حکومت سے مطالبہ کریں کہ پہلے یکساں سیول کوڈ کا خاکہ پیش کرو پھر ہم اس پر بحث کریں گے تو یقیناًحکومت ہند دباؤ میں آجائے گی۔ اس لئے کی ایسا کوئی خاکہ پیش کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ 1870میں ہی تاج برطانیہ نے اعلان کر دیا تھا کہ ہندوستانیوں کے مذہبی امور میں کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔ اس قبل ہندو عہد اور مغل عہد میں بھی کوئی مشترکہ سیول کوڈ نہیں رہا اور سب نے اس امر کا اعتراف ہمیشہ سے کیا ہے کہ کسی بھی مذہب کے عائلی قوانین میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے گویا ایک ہزار سال کی ہندو مسلم مشترکہ تہذیب میں کبھی بھی مشترکہ کوڈ کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی اس کے عدم موجودگی میں کسی عوامی نقض امن کا کوئی معاملہ بھی پیش نہیں آیا۔ اسی طرح آزاد ہندوستان کی تقریباً70سالہ تاریخ میں بھی ہم ایک مشترکہ سیول کوڈ کے بغیر بناکسی تنازعہ کے پرامن طور پر جی رہے ہیں۔ چنانچہ جب ہزاروں سال سے بنا کسی مشترکہ سیول کوڈ کے ملک چل رہا ہے تو اب اس بحث کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے یہ مان بھی لیا جائے کہ 1947میں آزادی کے وقت ملک کو ایک سیکولر اور بقائے باہم پر مبنی ریاست کے قیام کے لئے نہرو جیسے کچھ جدت پسند افراد نے مشترکہ سیول کوڈ کی ضرورت محسوس کی ہوگی مگر آزاد ہندوستان کے گذشتہ 70سال کے احوال کی بجائے خود یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ ملک کوکسی مشترکہ کوڈ کی کوئی ضرورت نہیں ہے چنانچہ اب عدلیہ کو بھی اس انداز سے از سرنو غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اپنے تبصروں و فیصلوں میں ایسی باتیں نہ کہیں، جن سے مختلف طبقات کے مابین کشمکش پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔ حکومت ہند کی بھی ذمے داری ہے کہ عدلیہ سے سفارش کرے کہ اس قسم کے منافرت انگیز تبصروں سے گریز کرے۔
ور نہ کم از کم عدلیہ کو ہی حکومت ہند سے براہ راست یہ سوال کرنا چاہئے کہ اس نے دفعہ44کی تنفیذکے لئے کیا کیا اقدامات کئے ہیں۔ ملک میں سیکولر اور مشترکہ سیول کوڈ کی وکالت کرنے والی تنظیموں کو بھی حکومت ہند سے مطالبہ کرنا چاہئے کہ دفعہ 44کی تنفیذکے لئے کئے گئے اقدامات پر قرطاس ابیض جاری کرے۔ اور اگر اس سمت ابھی تک کچھ نہیں ہوا ہے تو پھر اس کا مطلب سمجھنا چاہیئے کہ حالات نے ثابت کر دیا ہے کہ یکساں سیول کوڈ کا نفاذ ایک ملی جلی تہذیب والے ملک میں ناممکن الحصول امر ہے اور حکومتیں خود بھی اس قسم کے کوڈ بنانے اور ان پر عمل پیرائی کرانے سے عاجز ہیں۔چنانچہ مسلم تنظیموں سمیت ملک میں قیام امن اور سماجی انصاف کے لئے کام کرنے والی تمام تنظیموں کو مطالبہ کر نا چاہئے کہ دستور کے رہنما اصولوں کی دفعہ44کو فی الفورحذف کیا جائے۔ حیرت کی بات ہے کہ دستور ہند کی منشاء سے متصادم اس دفعہ کے خاتمے کا مطالبہ آزادی کے بعد کچھ عرصے تک مسلم لیگ توکرتی رہی مگر 1969کے بعد اس نے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا اور شریعت مطہرہ کے تحفظ کے لئے قائم مسلم پرسنل لاء بورڈ کی جانب سے بھی اس سلسلہ میں عموماً خاموشی ہی اختیار کی گئی حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ جب تک دستور میں دفعہ 44موجود ہے اور جب تک دفعہ14 اور15میں ترمیم نہیں کی جاتی اور دفعہ25اور 26کو غیر مشتروط نہیں کیا جاتا تب تک ہندوستان میں مسلمانوں کے عائلی نظام پر تلوارلٹکتی رہے گی۔فعال و متحرک نیز مرکزی تنظیم جمعیۃ علماء ہند ومسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذمہ داران کو چاہئے کہ وہ پتوں کو چھوڑ کر جڑوں کی بیخ کنی کی تحریک کا آغاز کریں۔کیونکہ کمال پاشا،منیش تیواری،سادھوی اور اس طرح کے ہزاروں اسلام دشمن لوگ آر.ایس.ایس کے’’ہندوراشٹر‘‘ کی تعمیر کے خواب کو پورا کرنیکاذریعہ ہیں جن سے انہیں کی زبان میں نمٹنا ضروری ہے،لیکن دستور کے دائرے میں رہ کر،موجودہ حکومت چونکہ ناگپوری منشاء کو پوراکرنے کیلئے سرگرم ہے،عدلیہ کو بھی اسی نظریہ کا حامل بنادیاگیاہے،اس لئے مسلم پرسنل لاء بورڈ اور جمعیۃ علمائے ہند نیز فقہی اکیڈمیوں کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ محمڈن لاء کے عدالتی دفاع کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے چاروں طبقوں میں سے دوطبقوں ’’1؍وہ حضرات جو قرآن و شریعت سے واقف ہیں،مسلم پرسنل لاء کی اساس اورروح کو جانتے ہیں یعنی علماء و مفتیان – 2؍وہ تعلیم یافتہ لوگ جودین وشریعت سے محبت کرتے ہیں اور اس پر عمل پیرا بھی ہیں،پرسنل لاء کو جانتے اور سمجھتے بھی ہیں، لیکن پرسنل لاء کی کچھ چیزیں دینی علم ناہونے کی وجہ سے ان کو کھٹکتی ہیں یعنی معتدل مزاج عصری تعلیم یافتہ احباب’’ کو ساتھ لے کران کی ذہن سازی کرکے مسلم پرسنل لاء کے متعلق انہیں مطمئن کرکے ان سے کام لیں، کانفرنسوں، عوامی جلسوں، ورکشاپ، سمپوزیم،ہمہ لسان پمفلیٹ،جریدے،اخبارات ورسائل اور مسجدوں کے منبرنیز گاؤں و شہروں میں ان کے ذریعہ- 3؍ تیسرے طبقے کو یعنی عوام الناس کاطبقہ جو مسلم پرسنل لاء کے خلاف ایک لفظ بھی برداشت نہیں کرتے لیکن محمڈن لاء سے بالکل واقف نہیں ہوتے،ہماری تنظیمیں علماء و عصری تعلیم یافتہ حضرات کے ذریعہ ان بھولے بھالے عوام کو مسلم پرسنل لاء سے روشناس کرائیں،انہیں عائلی حقوق و بنیادی حقوق بتلائیں…… اور 4؍چوتھا طبقہ جو ان لوگوں کاہے، جو حقیقت پسندی سے دور،روشن خیالی و خود ساختہ ترقی کے دل دادہ،اپنے اساتذہ مغرب کے پروردہ ہیں،جن کے ضمیر پر عقل کا غلبہ رہتاہے،وہ اسلام کو اپنی ناقص عقل سے تولنے کی کوشش کرتے ہوئے اسلام دشمن بن جاتے ہیں،ہمارے علماء و معتدل دانشوارن ان مالیخولیائی لوگوں کی بیخ کنی کریں،ان کو علمی و تحقیقی طور پر جواب دیں،پھر یاتو وہ راہ ہدایت و صراط مستقیم پر آجائیں، یاروشن خیال ‘‘محبین دجالیت’’ان کواغواء کرلیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ فاشزم کے آقاؤں کو اس ملک میں مسلمانوں کی مذہبی آزادی روز اول سے نہیں بھاتی اسی لئے وقتاً فوقتاً علم احتجاج بلند کرکے اپنی دریدہ ذہنی کاثبوت دیتے رہتے ہیں،اور اس حمام میں بلاتفریق سبھی سیاسی جماعتیں ننگی ہیں، بس ضرورت ہے کہ ہم خود اپنے مسائل اپنے علماء سے حل کروائیں،اور سیکولر بھائیوں کو مسلم پرسنل لاء کی آفاقیت،عالمگیریت،جامعیت اور ہمہ گیریت سے واقف کرائیں اوربذریعہ ڈائیلاگ دعوت دین کافریضہ انجام دیں،کیونکہ ہم نبی رحمت کے امتی ہیں،تحفظ دین و تبلیغ دین ہمارا شیوہ ہے-

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔