طلاق ثلاثہ پر مسلم ممبران پارلیمنٹ کی مجرمانہ خاموشی!  

نثار احمد

28 دسمبر کی تاریخ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے ایک منحوس تاریخ تھی، جب جمہوریت کے ایوان سے طلاق ثلاثہ کے خلاف قرار  داد پاس ہوئی، اور ہم صرف خاموش تماشائی بنے رہے، ہمیں غیروں سے کیسا شکوہ جب اپنوں نے ہی ہمارا ساتھ چھوڑ دیا، ایوان میں 23 مسلم ممبران پارلیمنٹ ہیں، جن میں سے ایک دو کو چھوڑ کر کسی نے اس مسئلے پر لب کشائی کی ہمت نہیں کی۔ آخر ان کی کیا مجبوری تھی، کیا اپنے سیاسی آقاؤں کا ان پر دباؤ تھا؟ اگر بالفرض ایسا تھا بھی تو کیا ان کے اندر اتنی حمیت بھی نہیں تھی کہ کم از کم بل کو اسٹینڈنگ کمیٹی کے حوالے کرنے کی سفارش کردیتے، یا اس بل کے خلاف قرار داد پیش کرنے والے کی ہاں میں ہاں ملاتے۔ مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ کیونکہ پولیٹیکل پارٹی نے ان کے ضمیر کا سودا کرلیا تھا، کاش ان تک کوئی یہ پیغام پہنچا دے کہ آپ نے بہت ہی گھاٹے کا سودا کیا ہے۔ جس کے منفی اثرات دور رس ہونگے۔

طلاق ثلاثہ پر روک لگنا اتنا اہم نہیں ہے، یہ آج نہیں تو کل ہونا ہی تھا، لیکن جس طرح سے اسے آنا فانا قانونی شکل دی گئی اور اس کی خلاف ورزی پر تین سال کی سزا مقرر کر دی گئی،اس سے حکومت کی نیت پر سوالیہ نشان قائم ہوتا ہے۔

 شادی ایک سوشل کنٹریکٹ ہے، اور اس کنٹریکٹ کو توڑنے والوں کو کریمنل افینس کے زمرے میں رکھا جارہا ہے، جس کی سزا تین سال ہوگی۔ جو ملک سے غداری کرنے والوں کو دی جاتی ہے، یہ سراسر زیادتی ہے، مسلم دشمنی پر مبنی یہ قانون دفعہ 14 اور دفعہ 15 کے خلاف ہے۔ تعزیرات ہند کے یہ دونوں دفعے سماج، ذات، علاقہ اور مذہب کی بنیاد پر قانون بنانے کے خلاف ہیں ، لیکن جس طرح سے طلاق ثلاثہ کی قانون سازی میں آئین کو نظر انداز کیا گیا اور زبردستی ایک مخصوص مذہب کو نشانہ بنایا گیا اس پر سیکولر لوگوں کو کم از کم ضرور کان دھرنا چاہئے۔

 اصلاح معاشرہ اور ریفارم کے نام پر جس من مانہ طریقے سے پارلیمنٹ میں یہ بل پاس کیا گیا اور مباحثے کے نام پر صرف سوال وجواب کا تبادلہ ہوا اس پر صرف چند ایک ممبر پارلیمنٹ کو چھوڑ کر سبھی مسلم ممبران خاموش ہی رہے، اگر آپ کو کبھی ان مہان مسلم نمائندوں سے ملنے کا اتفاق ہو جائے تو ایک عام شہری ہونے کے ناطے ان سے ایک سوال ضرور کیجئے گا کہ آخر وہ کون سی سیاسی مجبوری تھی جس کی بنا پر آپ نے اس موضوع پر اظہار خیال کرنا مناسب نہیں سمجھا، ان کو یہ باور کرانے کی کوشش کیجئے گا کہ آپ نے ایک بھاری بھول کردی ہے، ہوسکتا ہے اگلے الیکشن میں پارٹی آپ کو پھر سے اپنا امید وار بنائے اور عین ممکن ہے آپ الیکشن جیت بھی جائیں جس کی مدت کار صرف پانچ سال کی ہوگی، لیکن تاریخ کے صفحات میں جب بھی ہندوستان میں شریعہ میں دخل اندازی کا ذکر آئیگا آپ کا تذکرہ سنہرے الفاظ میں نہیں ہوگا۔

 یہ کوئی بڑا المیہ نہیں ہے کہ طلاق ثلاثہ کا خاتمہ ہوگیا، بلکہ یہ تو پہلے سے ہی ایک ناپسندیدہ عمل تھا، اور اسے ختم ہونا چاہیے تھا، دکھ اس بات کا ہے کہ اس بل کے پاس ہونے سے شریعہ میں دخل اندازی کے راستے ہموار ہونگے ، اب تو ڈھکے چھپے لفظوں میں یونیفارم سول کوڈ کی بھی بات ہونے لگی ہے۔ بات یہیں رکنے والی نہیں ہے، اگلا نمبر حلالہ کا ہے، پھر اس کے بعد پردہ کا جن بھی بوتل سے باہر آئیگا، بس آپ انتظار کیجئے اور خاموش تماشائی بنے رہئیے، آپ کی یہ خاموشی خود آپ کے وجود کے لئے سوالیہ نشان بن جائیگی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔