طلاق زحمت نہیں رحمت ہے! (آخری قسط )

ڈاکٹر محمد واسع ظفر

 اللہ اور اس کے رسولؐ کے ان فرمودات کو سمجھنے کے بعد کیا کوئی مخلص مومن اس کی جرأت کرسکتا ہے کہ وہ شریعت کے احکام میں کیڑے نکالے اور اس پر تنقید کرے؟ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کا دل اللہ کے احکام سے مطمئن نہیں ، اسے اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے۔ اب اس بات پر بھی غور کیجئے کہ کیا ملکی عدالتوں سے آپ اس کی توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے فرمان کے مطابق آپ کو فیصلے دیں گی؟

پرسنل لاء موجود ہونے کے باوجود آئے دن عدالتیں شریعت مخالف فیصلہ دے رہی ہیں ۔اگر پرسنل لاء ہی نہ رہے یا اس میں حکومت ترامیم کردے تو پھر نہ جانے عدالتوں کا اور کیا رخ ہوگا؟ ایسے حالات میں جبکہ عدالتیں منتظر ہیں کہ وہ ہمارے شرعی معاملات میں مداخلت کریں اور اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکام کا مذاق بنائیں ، اپنے نزاعات کا حل کرانے کے لئے ملکی عدالتوں سے رجوع کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟ کیا ہماری حالت اس شخص جیسی نہیں ہوگئی جس کی کیفیت کو قرآن نے یوں بیان کیا ہے۔(أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُونَ أَنَّہُمْ آمَنُواْ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْکَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِکَ یُرِیْدُونَ أَن یَتَحَاکَمُواْ إِلَی الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُواْ أَن یَکْفُرُواْ بِہِ وَیُرِیْدُ الشَّیْطَانُ أَن یُضِلَّہُمْ ضَلاَلاً بَعِیْداً)۔ترجمہ: ”کیا تم نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ جو (کتاب) تم پر نازل ہوئی اور جو (کتابیں ) تم سے پہلے نازل ہوئیں اُن سب پر ایمان رکھتے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ ایک سرکش کے پاس لیجا کر فیصلہ کرائیں حالانکہ اُن کو حکم دیا گیا تھا کہ اُس سے اعتقادنہ رکھیں اور شیطان (تو یہ) چاہتا ہے کہ اُن کو بہکا کر رستے سے دُور ڈال دے“۔ (النسآء:60)۔

یقیناشرعی عدالتوں (دارالقضاء) کو چھوڑکر ایسی عدالتوں سے رجوع کرنا جو طاغوتی نظام کا حصہ ہیں اور خلاف شرع فیصلے دے رہی ہیں ،شیطان ہی کی تلقین سے ممکن ہوسکتا ہے اور ایسا کرنے والا گویا شیطان ہی کے پاس اپنا مقدمہ لے جاتاہے۔ایمان کا تقاضہ تو یہ تھاکہ ہم ایسے نظام کے قیام کے لئے کوشاں رہتے جس میں صدفی صد فیصلے اللہ کے قوانین کے مطابق ہوں لیکن ہم صرف عائلی قانون یعنی پرسنل لاء لے کرہی مطمئن ہوگئے جسے بھی سلب کرنے کی آج سازش کی جارہی ہے اور ہم نادانی میں اس کے آلۂ کار بن رہے ہیں ۔کہاں تو ہمیں حکم ملا تھا ”اُدْخُلُواْ فِیْ السِّلْمِ کَآفَّۃ“(اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔البقرہ:208)  کا اور کہاں ہم مصداق ٹھہرے”أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْکِتَابِ وَتَکْفُرُونَ بِبَعْضٍ“(کیا تم کتابِ الٰہی کے بعض احکام کو تو مانتے ہو اور بعض سے انکار کر دیتے ہو۔البقرہ:85) کے۔

ہم چاہے جس خوش فہمی میں مبتلا رہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ملکی عدالتیں غیرشرعی فیصلے دے دے کر ہمارے پرسنل لاء کا خوب مذاق بنا رہی ہیں اور ہم خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں بلکہ انہیں مواقع فراہم کر رہے ہیں کبھی شاہ بانو کی شکل میں تو کبھی سائرہ بانو کی شکل میں ۔حکومت کے اہل کارسیاسی فوائد حاصل کرنے کے لئے خواہ کچھ بھی بول لیں لیکن اگر وہ دور اندیش ہوں گے تو پرسنل لاء میں کوئی مداخلت براہ راست یعنی پارلیمانی طریقہ کار سے نہیں کریں گے بلکہ اس کے لئے عدالت کو ہی استعمال کریں گے۔اس طرح یہ لوگ مسلمانوں کے مختلف حلقوں سے ہونے والی تنقید، اظہارخفگی اور مخالفت سے بھی بچے رہیں گے اور عدالتیں تو ان کے مقاصد کو پورا کر ہی رہی ہیں ، کرتی رہیں گی اور ہمیں عدالتوں کے غلط فیصلوں کا بھی احترام کرنے کا سبق دیا جائے گا۔

ایک مخصوص پارٹی کے سیاسی رہنماؤں کی حالیہ دنوں کی ساری بیان بازی عدلیہ کو متأثر کرنے کے لئے ہی کی گئی جس میں میڈیا نے کلیدی کردار ادا کیا۔گو اس کا ضمنی اور وقتی مقصد کچھ سیاسی فوائد حاصل کرنا بھی تھا اور اسی لئے الیکشن کے بعد ان کے لب و لہجے بھی بدل گئے لیکن حتمی مقصد راقم کے خیال میں یہی تھا اور یہاں عدلیہ کس طرح بیان بازی اور میڈیا کے پروپگنڈے سے متاثر ہوتی ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ۔اس کا مشاہدہ تو ملک کئی بار کرچکا ہے اور حال میں بھی ہوا۔اس بیان بازی کا دوسرا منفی اثر یہ ہوگا کہ بہت سارے جج صاحبان اپنے سیاسی آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے ان کے موقف کے مطابق ہی فیصلے دیں گے کیوں کہ انہیں جائز و ناجائز سے کیا لینا دینا۔ بہرحال ان سب کی سازشوں کو ناکام بنانے کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم ان عدالتوں میں اپنے نزاعات لے کر جائیں ہی نہیں ۔ ہر مسلمان یہ قسم کھالے کہ وہ اپنے آپسی نزاعات کو شرعی عدالتوں سے ہی فیصل کرائے گا لیکن کیا ہم اتنے متحد ہیں اور ہماری ایمانی حس اتنی بیدار ہے،اس پر ہمیں شبہ ہے۔

علاوہ ازیں ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ کسی بھی عدالت سے جار ی ہونے والا غیر شرعی فیصلہ اور اس کے تحت ملنے والی کسی قسم کی رعایت کا قبول کرنا ہمارے لئے جائز نہیں ہوسکتا۔مثلاً ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دے ڈالیں اور معاملہ عدالت میں پہنچا اور عدالت نے یہ فیصلہ سنایا کہ ایک بھی طلاق واقع نہیں ہوئی کیوں کہ قرآنی طریقے کو اختیار نہیں کیا گیا۔اب اگر وہ دونوں عدالت کے فیصلہ کو تسلیم کرلیں اور ساتھ رہنے لگیں تو ظاہر ہے زنا کے ہی مرتکب ہوں گے۔اسی طرح ایک عدالت نے یہ کہا کہ نکاح میاں بیوی کے درمیان ایک معاہدہ (contract)   ہے جو دونوں کے باہمی  رضامندی سے ہی ختم ہوسکتا ہے، لہٰذا شوہر کے ذریعہ یک طرفہ طلاق طلاق کے الفاظ استعمال کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔اس فیصلہ کو بھی اگر کوئی تسلیم کرلے تو ان کا ملنا جائز نہیں ہوجائے گاکیوں کہ شریعت نے مرد کو طلاق کا آزادانہ اختیار دیا ہے، اسے بیوی کی رضامندی کے ساتھ مشروط نہیں کیا۔اب ایک تیسری مثال لیجئے۔ ایک عورت جس کو طلاق بائن ہوچکی ہے اور اس کا کوئی بچہ بھی سابق شوہر سے اس کی پرورش میں نہیں ہے، عدالت جاتی ہے اور سابق شوہر سے گزارہ (Maintenance) بھتہ دلانے کا مطالبہ کرتی ہے اور عدالت اس کے حق میں فیصلہ دے کر اس کے سابق شوہر کو اسے کچھ رقم ماہانہ یا سالانہ دینے کے لئے مجبور کردیتی ہے تو اس رقم کا قبول کرنا اور اسے اپنے استعمال میں لانا اس کے لئے حلال نہیں ہوگا کیوں کہ طلاق بائن کے بعدشرعی طور پر وہ سابق شوہر سے نان و نفقہ کی حقدار نہیں ہے۔یہ ناحق طریقہ پر کسی کا مال کھانا ہوا جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔

اللہ سبحانہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (وَلَا  تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ  بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا  بِھَآ  اِلَی الْحُکَّامِ  لِتَاْکُلُوْا  فَرِیْقًا  مِّنْ  اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ  وَاَنْتُمْ  تَعْلَمُوْن) ترجمہ: ”اور ایک دوسرے کا مال باطل طریقہ پر نہ کھاؤ اور نہ ان کو (رشو ۃً) حاکموں کے پاس پہنچاؤ تاکہ لوگوں کے مال کا کچھ حصہ ناجائز طور پر کھاجاؤ اور (اسے) تم جانتے بھی ہو“۔(البقرہ: ۱۸۸)۔یہی نہیں بلکہ شرعی عدالت سے بھی اگر کسی نے لفاظی، جھوٹے گواہوں اور فرضی دستاویزات کی بنیاد پر فیصلہ کروا کر دوسرے کی زمین و جائداد پرقبضہ کر لیا تو وہ ان کے لئے کبھی حلال نہیں ہوسکتا۔ حدیث سے بھی اس کا ناجائز ہونا ثابت ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”میں ایک آدمی ہوں ، اس لئے جب کوئی میرے پاس جھگڑا لے کر آتا ہے، تو ہوسکتا ہے کہ تم میں ایک دوسرے سے زیادہ اچھی طرح اپنی دلیل پیش کرے اور میں (اس کے ظاہری بیان پر بھروسہ کرکے) اسے سچا خیال کرتے ہوئے اس کے مطابق فیصلہ کردوں تو اگر میں کسی شخص کو اس کے مسلمان بھائی کے حق میں سے کچھ دینے کا فیصلہ کردوں تو وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے، چاہے تو اسے لے لے اور چاہے تو چھوڑ دے۔(صحیح بخاری، کتاب المظالم و الغصب،اِثمِ مَن خاصَمَ فی باطل و ھو یعلمہٗ بروایت ام سلمہؓ؛ نیز صحیح مسلم، کتاب الأقضیۃ، باب الحکم بالظاہرواللحن بالحجۃ)۔غور کیجئے جب رسول ؐ کے فیصلے کے ذریعہ کسی کا مال ناحق حلال نہیں ہوسکتا تو دوسری عدالتوں کی کیا حیثیت ہے۔

یہ تو تھا ملکی عدالتوں کے غیر شرعی فیصلوں کے ناجائز ہونے کا مسئلہ۔اس کے علاوہ ان عدالتوں میں جانے کے کئی اور نقصانات ہیں ۔مثلاً مال کی بربادی، وقت کی بربادی، عزت کی نیلامی اور زندگیوں کی تباہی وغیرہ اور جیسا کہ راقم نے پہلے ہی عرض کیا ہے کہ وہاں مسئلہ کے حل کے لئےجایابھی نہیں جاتا بلکہ انتقامی جذبہ سے جایا جاتا ہے اور اس میں بیشتر الزامات بھی غلط ہی لگائے جاتے ہیں اس لئے کوئی تشفی بخش شرعی حل تو نہیں ملتاالبتہ انتقامی جذبہ کی کسی حد تک تسکین ضرور ہوجاتی ہے۔اس کے برعکس شرعی عدالتوں سے معاملہ مذکورہ نقصانات کے بغیر تصفیہ پا جاتا ہے اور آگے کی راہیں بھی جلد از جلد کھل جاتی ہیں ۔راقم نے اپنے شناساؤں میں طلاق کے کئی معاملات دیکھے ہیں اور اس کا مشاہدہ کیا ہے کہ جس نے شرعی طریقہ سے مسئلہ کو حل کرنا چاہا اللہ نے کیسے اس کے لئے آسانیاں پیدا کی اور جس نے ملکی عدالت سے ر جوع کیا اسے کیسے بربادیوں کا سامنا ہوا۔چنانچہ ایک صاحب کو دیکھاکہ بیٹی کی شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی جب انہیں یہ پتہ چلاکہ میاں بیوی کے حالات اچھے نہیں چل رہے ہیں اور سسرال والے بچی کے جان کے درپے ہیں تو انہوں نے بلا تاخیر خلع کے لئے دارالقضاء سے رجوع کیا اور خلع کروانے کے کچھ دنوں کے بعد ہی ان کے متعلقین میں سے ہی ایک تعلیم یافتہ گھرانے کے چشم و چراغ نے جو کنوارے تھے اس لڑکی سے شادی کا پیغام دیا اور شادی ہوئی اور آج وہ دونوں میاں بیوی کامیاب اور پر سکون ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں ۔

اس کے ٹھیک برعکس ایک دوسرے صاحب جو خیر سے ایک بڑے دینی و علمی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ،کی بچی کے ساتھ جب طلاق کا معاملہ ہوا تو انہوں نے ملکی عدالت سے رجوع کیا جس کے نتیجہ میں 11- 12سال مقدمہ چلا پھر صلح ہوئی، طلاق بھی باقی ہی رہی، مال و زر کا زیاں بھی ہوا اور لڑکی کی زندگی بھی تباہ ہوگئی۔ایک تو مطلقہ اور دوسرے عمر زیادہ ہوجانے کی وجہ سے دوسری شادی بھی مشکل ہوگئی جو پہلے قدرے آسانی سے ہوجاتی۔ راقم نے انہیں کورٹ جانے سے روکا اور شرعی طریقہ پر مسئلہ کو حل کرنے کا مشورہ دیا اور وہ تیار بھی تھے لیکن ان کے گھر والوں کی رائے کورٹ جانے کی ہی ہوئی اور انہیں ان کی رائے کے آگے جھکناپڑا،پھر جو نقصانات ہونے تھے وہ ہوئے۔ ان مشاہدات کی  بنا پر بھی راقمکی مومن بھائیوں سے درخواست ہے  کہ وہ باہمی نزاعات کوملکی عدالتوں میں نہ لے جائیں بلکہ شرعی عدالتوں (دارالقضاؤں ) میں کتاب سنت کی روشنی میں حل کرائیں ، اس میں ان کے ایمان و یقین کی بھی حفاظت ہے اور انجام کے اعتبار بھی یہی بہتر ہے۔

 وقت کی ضرورت یہ ہے کہ ہم لوگ خود بھی شریعت کا علم حاصل کریں اور اپنے بچے بچیوں کو بھی سکھائیں تاکہ وہ اسلامی معاشرت کو سمجھ سکیں ۔ اس کے لئے ضروری نہیں کہ بچوں کو مدرسہ ہی بھیجا جائے بلکہ عصری علوم کے ساتھ بھی اس کا نظم کیا جاسکتا ہے شرط یہ کہ ہمیں اسلام سے لگاؤ اور محبت ہو۔علماء کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی تقریر و تحریر کے ذریعہ لوگوں کو اسلامی معاشرت کی تعلیم دیں ۔ نکاح کے شرعی طریقہ کو اپنانے اور مطلقہ اور بیوہ سے شادی کرنے کی ترغیب دیں ، تعدد ازدواج کی حکمتوں اور فوائد کو لوگوں کو سمجھائیں ۔جمعہ کے بیانات میں ائمہ و خطباء منظم ڈھنگ سے معاشرتی فقہی مسائل کے ایک ایک باب کوترتیب وار بیان کریں ۔ عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ ائمہ جمعہ کے دن کچھ بھی بیان کرکے اپنی ذمہ داری سے سبک دوش ہوجاتے ہیں اور بعض توحالات حاضرہ پر تبصرے میں ہی اچھا خاصہ وقت ضائع کرتے ہیں ، مسائل پرگفتگو کرتے ہوئے تو شاید ہی کبھی کسی کو دیکھا ہوکیوں کہ اس کے لئے گہرے مطالعہ کی ضرورت پڑتی ہے جو یا تو وہ کرنا نہیں چاہتے یا ان کے پاس وقت نہیں ہوتا۔تعلیم یافتہ اور حساس لوگ اس طرز عمل سے نالاں بھی ہوتے ہیں لیکن لحاظاً کچھ بول نہیں پاتے۔

اسی طلاق ثلاثہ کے موضوع پر تبادلہ خیال کے دوران ہمارے ایک مخلص بزرگ نے جو پیشہ سے ڈاکٹر رہے ہیں ایک ایسی بات کہی کہ میں بالکل سکتہ میں آگیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ ان علماء سے معاشرہ کے اصلاح کی کیا امید رکھتے ہیں جو مسجد میں 20-20 سالوں سے امامت کر رہے ہیں اور آج تک اپنے مقتدیوں کی نماز تک درست نہیں کراسکے، نماز تو دور انہیں مسجد میں آنے جانے اور وقت گزارنے کے آداب نہیں سکھا سکے۔بات تو کسی حد تک صحیح تھی کیوں کہ راقم نے بھی کبھی کسی عالم کو ان موضوعات پر بات کرتے نہیں دیکھا لیکن پھر بھی راقم کا خیال یہ ہے کہ امت کے اندر جس درجہ میں بھی دین باقی ہے وہ علماء ہی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے اور مستقبل میں بھی اگر کوئی بڑی تبدیلی واقع ہوگی تو وہ بھی علماء ہی کے ذریعہ ہوسکتی ہے۔مجھ جیسوں کی سنتا بھی کون ہے، میں تو صرف اتمام حجت کے لئے کچھ لکھ دیتا ہوں یا بول دیتا ہوں تاکہ بروز حساب اللہ کے سامنے یہ کہہ سکوں کہ اے میرے رب!  تیرے دین پر جب چوطرفہ یلغار ہو رہاتھا تو اس کے دفاع میں مجھ بے بس سے اتنا ہی ہوسکا اور شاید کسی دیوانے کے دل میں کوئی بات بھی اتر جائے۔اس لئے علماء کو چاہے کہ وہ روایتی بیانات سے پیچھا چھڑائیں اور ایک ایک موضوع پر تفصیلی گفتگو کریں۔

روایتی تقریر کرکے  و ما علینا الا البلاغ کہہ دینا تو بہت آسان ہے لیکن قوموں کی اصلاح اور انہیں امت بنانے کی فکر بہت آسان نہیں ہے۔اس کے لئے دن رات کی فکر اور تگ و دو کی ضرورت ہوتی ہے اور مجھے یقین ہے علماء ہی اس کام کو کرسکتے ہیں ۔ابھی جس ڈھنگ سے علماء عقیدہ اور مسلک سے بالاتر ہوکر اور متحد ہوکرمسلم پرسنل لاء بیداری کے لئے اٹھے ہیں یہ یقیناً قابل تعریف ہے۔امیدہے کہ انشاء اللہ یہ روش جاری رہے گی۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ اس بندہ عاجز کو بھی عمل کی توفیق عطا کرے اور اس کی تمامتر صلاحیتوں کو عافیت کے ساتھ اپنے دین کے احیاء و بقاء اور غلبہ حق کے لئے قبول فرمالے۔آمین!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    ﺧﻠﯿﻔﮧ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﺍﻟﺮﺷﯿﺪ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﮨﻠﯿﮧ ﺯﺑﯿﺪﮦ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﮐﯿﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺍﺧﺘﻼﻑ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ، ﺍﺧﺘﻼﻑ ﻧﮯ ﺟﺐ ﻃﻮﻝ ﭘﮑﮍﺍ ﺗﻮ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﻧﮯ ﻏﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﻗﺴﻢ ﮐﮭﺎ ﻟﯽ ﮐﮧ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺭﺍﺕ ﺗﻢ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﮔﺰﺍﺭﻭ ﻭﺭﻧﮧ ﺗﻤھﯿﮟ ﻃﻼﻕ …
    ﮨﺎﺭﻭﻥ ﺍﻟﺮﺷﯿﺪ ﮐﯽ ﺣﺪﻭﺩ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﻣﺸﺮﻕ ﻣﯿﮟ ﭼﯿﻦ ﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻣﻐﺮﺏ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﺍﻧﺲ ﮐﯽ ﻧﻮﺍﺡ ﺗﮏ ﭘﮭﯿﻠﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ، ﭘﮭﺮ ﺍﯾﺴﯽ ﻭﺳﯿﻊ ﻭ ﻋﺮﯾﺾ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﺍﻟﺮﺷﯿﺪ ﮐﯽ ﺍﮨﻠﯿﮧ ﮐﯿﻮﻧﮑﺮ ﻃﮯ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﯽ ﺗﮭﯽ، ﺟﺒﮑﮧ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻧﻘﻞ ﻭ ﺣﻤﻞ ﮐﮯ ﻭﺳﺎﺋﻞ ﻭ ﺫﺭﺍﺋﻊ ﺑﮭﯽ ﺁﺝ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺗﯿﺰ ﺭﻓﺘﺎﺭ ﻧﮧ ﺗﮭﮯ .

    ﺍﺏ ﺑﺎﺕ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ، ﺍﮨﻠﯿﮧ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻌﻤﻮﻟﯽ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ، ﺯﺑﯿﺪﮦ ﺗﮭﯽ ﺟﻮ ﺍﺳﮯ ﺟﺎﻥ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻋﺰﯾﺰ ﺗﮭﯽ ….

    ﻭﻗﺖ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ، ﺍﺩﮬﺮ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﺒﻘﺖ ﻟﺴﺎﻧﯽ ﭘﺮ ﺷﺮﻣﻨﺪﮦ ﻭ ﭘﺸﯿﻤﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ . ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍﺱ ﻣﻌﻤﮧ ﮐﻮ ﺣﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﮍﮮ، ﺑﮍﮮ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﺍﻟﺮﺷﯿﺪ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﻼﺋﮯ ﮔﺌﮯ … ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﻗﺎﺿﯽ ﺍﺑﻮ ﯾﻮﺳﻒ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﮯ، ﺟﺐ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﺱ ﻣﺴﺌﻠﮯ ﮐﻮ ﺭﮐﮭﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺳﺎﺭﮮ ﻏﻮﺭ ﻭ ﺧﻮﺽ ﻣﯿﮟ ﻟﮓ ﮔﺌﮯ، ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻌﻘﻮﻝ ﺣﻞ ﻧﻈﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﮨﺮ ﻃﺮﻑ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﻃﺎﺭﯼ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ، ﮨﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺳﺐ ﮨﯽ ﮐﻮ ﺍﺗﻔﺎﻕ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺷﺮﻉ ﻣﯿﮟ ﻃﻼﻕ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﺍﻟﺮﺷﯿﺪ ﮐﯽ ﺩﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﻃﻼﻕ ﻭﺍﻗﻊ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ …

    ﺍﺏ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﮐﯽ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﻗﺎﺿﯽ ﺍﺑﻮ ﯾﻮﺳﻒ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﭨﮭﯿﮟ ﮐﮧ :
    ” ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﻞ ﮨﮯ … ﺍﺱ ﮐﺎ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮐﯿﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﮨﮯ … ؟ ”
    ﻗﺎﺿﯽ ﺍﺑﻮ ﯾﻮﺳﻒ ﻣﺴﮑﺮﺍﺋﮯ، ﺧﻠﯿﻔﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮔﻮﯾﺎ ﮨﻮﺋﮯ :
    ” ﺁﭖ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ ﺍﯾﮏ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﻗﻊ ﮨﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﭻ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ !… ”
    ﮨﺎﺭﻭﻥ ﺍﻟﺮﺷﯿﺪ :
    ” ﻭﮦ ﮐﻮﻥ ﺳﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﮨﮯ … ؟ ”
    ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮ ﯾﻮﺳﻒ :
    ” ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺳﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺁﺝ ﺭﺍﺕ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺍﺭ ﻟﯿﮟ، ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﮐﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻣﻠﮑﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﮨﮯ ،
    ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﮐﺎ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﮔﺮﺍﻣﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ :
    ﺗﺮﺟﻤﮧ :
    ” ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﮐﮧ ﻣﺴﺎﺟﺪ ﺻﺮﻑ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﯽ ﺧﺎﺹ ﮨﯿﮟ، ﭘﺲ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﻮ ﻧﮧ ﭘﮑﺎﺭﻭ ”
    ‏( ﺍﻟﺠﻦ : 18 ‏) ”

    ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮ ﯾﻮﺳﻒ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻓﺘﻮﯼ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺗﻤﺎﻡ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﻋﺶ، ﻋﺶ ﮐﺮ ﺍﭨﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺫﮨﺎﻧﺖ ﻭ ﻓﻄﺎﻧﺖ ﮐﮯ ﻗﺎﺋﻞ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ …

    ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻗﺎﺿﯽ ﺍﺑﻮ ﯾﻮﺳﻒ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﮯ ﻓﺘﻮﯼ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﺍﻟﺮﺷﯿﺪ ﮐﯽ ﺍﮨﻠﯿﮧ ﺯﺑﯿﺪﮦ ﻧﮯ ﺭﺍﺕ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺍﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﺍﻟﺮﺷﯿﺪ ﮐﯽ ﺍﮨﻠﯿﮧ ﮐﻮ ﻃﻼﻕ ﮨﻮﺗﮯ، ﮨﻮﺗﮯ ﺭﮦ ﮔﺌﯽ ..

تبصرے بند ہیں۔