طلاق کا مسئلہ کانگریس کا نہیں، مسلمانوں کا ہے

حفیظ نعمانی

بی جے پی کے تین وزیر اننت کمار، وجے گوئل اور ارجن رام میگھ وال نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس نے مسلم خواتین کے ساتھ بہت بڑا دھوکہ کیا ہے۔ انہوں نے اسے سیاسی جنگ کے بجائے سماجی لڑائی کہا۔ انہوں نے تین طلاق بل کے بارے میں کہا کہ لوک سبھا میں بل پاس ہونے کے بعد کانگریس اور اپوزیشن کے کہنے کے مطابق بل میں ترمیمیں بھی کردیں تب بھی اسے راجیہ سبھا میں پیش نہیں ہونے دیا۔ ان وزیروں کا کہنا تھا کہ کانگریس کی یہ دوہری پالیسی ہے۔

ہم اس بات کو صاف کردینا چاہتے ہیں کہ لوک سبھا میں جب یہ بل وزیر قانون نے پیش کیا تو کانگریس کو معلوم نہیں تھا کہ ملک کے مسلمان اسے قبول کریں گے یا نہیں؟ راہل گاندھی اور پارٹی نے یہ سمجھ کر کہ یہ مسلم خواتین کا مطالبہ ہے لوک سبھا میں اس کی مخالفت نہیں کی۔ یہ تو بل کے سامنے آنے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ تو مسلمانوں کے ساتھ بدترین دشمنی ہے۔

بی جے پی کی مرکزی قیادت جس کی اندھا بل پاس کرنے، پھر اس میں ترمیم کرنے کی پرانی عادت ہے اس نے اس بل میں تین ترمیم کردیں۔ ایسے ہی جیسے وہ ایک سال سے اپنے پیارے جی ایس ٹی بل میں ہر مہینے کرتی ہے۔ اس سلسلہ کی اہم بات تو یہ ہے کہ بی جے پی کانگریس سے بے وجہ الجھی ہوئی ہے۔ تین طلاق بل کے راجیہ سبھا میں ہر مخالف پارٹی کی مخالفت اس لئے ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذمہ داروں نے ہر پارٹی کے لیڈر اور ممبر سے الگ الگ بات کرکے بتایا ہے کہ یہ مسلم خواتین کے ساتھ دشمنی ہے۔

یہ بات بی جے پی کے ناسمجھ لیڈر کیوں نہیں سمجھتے کہ یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا ہے اور ان کی شریعت کا ہے اس کے بارے میں راہل گاندھی یا کسی دوسری پارٹی کا ہندو لیڈر کیا سمجھ سکتا ہے؟ یہ تو وہ مسلمان بھی نہیں سمجھ سکتے جنہوں نے پڑھا نہ ہو۔ اہم بات یہ ہے کہ جب سپریم کورٹ نے فیصلہ کردیا کہ اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو ایک ہی وقت میں تین طلاق دے دے تو وہ طلاق نہیں ہوئی۔ اب وہ سامنے دے یا ٹیلیفون پر دے یا خط میں لکھ کر دے طلاق نہیں ہوئی۔ اب اگر دوچار یا دس عورتیں بی جے پی کے وزیروں کے پاس روتی ہوئی آتی ہیں کہ ہمیں طلاق دے دی تو اسے موضوع کیوں بنایا جاتا ہے ان سے کیوں نہیں کہا جاتا کہ تم شوہر کو بکنے دو طلاق نہیں ہوئی۔ وہ اگر کہے کہ فلاں مولوی صاحب کہہ رہے ہیں کہ ہوگئی تو اس مولوی کے خلاف مقدمہ دائر کردو۔

ہم ہندوستان میں رہتے ہیں ہم اس ملک کے قانون کے پابند ہیں۔ اسلام میں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے۔ قرآن پاک میں صاف صاف ہے کہ ’’السارق و السارقۃ فقطعوا ایدی ہما‘‘ چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں۔ اس سلسلے کی ایک حدیث ہے کہ فاطمہ نام کی ایک عورت نے چوری کی وہ ثابت بھی ہوگئی اس کے حالات کچھ ایسے تھے کہ اس کی سفارش میں چند حضرات سامنے آگئے۔ آخرکار معاملہ آقا مولا حضرت محمدؐ کی عدالت میں آیا اور سفارشی بھی ساتھ تھے حضور اکرمؐ کا چہرہ سرخ ہوگیا اور فرمایا خدا کی قسم فاطمہ بنت محمدؐ بھی اگر چوری کرتی تو میں اس کے ہاتھ کٹواتا۔ اب یہ بتایا جائے کہ ہندوستان میں ہزاروں مسلمان چوری میں پکڑے جاتے ہیں کیوں کوئی فتویٰ نہیںدیتا کہ 5 سال یا سات سال کی سزا نہیں یہ مسلمان ہے اس کے ہاتھ کاٹے جائیں؟

چوری کی سزا، زنا کی سزا، فریب کی سزا، قتل کی سزا غرض کہ اسلامی شریعت میں زندگی کی ہر برائی کی سزا اور اچھائی کا انعام جب موجود ہے تو کوئی نہیں کہتا کہ ملک کی عدالت نے جو سزا دی وہ سزا نہیں ہے ہمیں وہ سزا دو جو اسلامی شریعت میں ہے کیونکہ ہم مسلمان ہیں۔ دہلی میں جو ایک لڑکی کے ساتھ بس میں ہوا جس کے مجرموں کو پھانسی کی سزا دی گئی ہے ان میں ایک لڑکا تھا جس کے بارے میں خبر آئی تھی کہ اس نے سب سے زیادہ بدتمیزی کی اور آخر میں اس لڑکی کو چل سالی کہہ کر چلتی بس سے نیچے ڈھکیلا تھا اس نے بس یہ ثابت کردیا کہ وہ 18  سال کا نہیں ہے اس کی وجہ سے اس ذلیل کو تین سال کے بعد رہا کردیا۔ اگر وہ اسلامی ملک میں ہوتا اور مسلمان ہوتا تو اسے بھی سزائے موت دی جاتی اب اس میںکوئی کیا کہہ سکتا ہے جب قانون یہ ہے کہ 17  سال کا بارہواں مہینہ جس رات کو بارہ بجے ختم ہوتا ہے تو وہ بالغ ہوجاتا ہے۔ جبکہ دیکھنا یہ چاہئے کہ وہ بالغ ہے یا نہیں عمر چاہے سولہ سال ہو۔

بی جے پی کے وزیر قانون نے تین ترمیم کردیں لیکن طلاق طلاق طلاق کہنا پھر بھی قابل سزا جرم رہا۔ سوال یہ ہے کہ جب یہ مہمل بکواس ہے تو اس پر سزا کیسی؟ بی جے پی کی مرکز کے علاوہ ان کے کہنے کے مطابق 21  ریاستوں میں حکومت ہے ہر جگہ کی خبریں وزیرداخلہ کو ملتی ہیں کیا انہیں نہیں معلوم ہوا کہ ہر صوبہ کے ہر بڑے شہر میں مسلم خواتین نے جلوس نکال کر مطالبہ کیا ہے کہ تین طلاق بل ہرگز پاس نہ کیا جائے یہ جلوس کہیں ہزاروں کے تھے اور کہیں لاکھوں کے صرف سو دو سو فیشن ایبل آزاد خیال من مانی زندگی گذارنے کی شوقین بے پردہ اور بے دین صرف اپنے کو مسلمان کہلانے والی اگر اس بل کو پاس کرانے کے حق میں ہیں تو ان کی بات ماننا چاہئے یا ان کروڑوں کی جو پردہ میں شریعت کی پابندی میں رہنے والی ہیں؟ اور وہ سڑکوں پر آکر کہہ رہی ہیں کہ تین طلاق بل مسلم خواتین کے حق میں نہیں ہے۔ اس مسئلہ میں مختار عباس نقوی یا ایم جے اکبر سے مشورہ کرکے فیصلہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ جمعیۃ علماء اور مسلم مسائل کے مسلم وکیلوں سے مشورہ کرنا چاہئے یہ سب اور پرسنل لاء بورڈ سب تین طلاق کے خلاف ہیں۔ لیکن یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ جوان شوہر تین سال کے لئے جیل چلا جائے اور اس کی جوان بیوی جسم فروشی پرمجبور ہوجائے۔ جن فیشن کی ماری خواتین نے حکومت سے سخت بل بنوانے کی فرمائش کی ہے وہ نام کی مسلم خواتین ہیں۔ وزیراعظم ان کے چکر میں اگر پڑے تو سو دو سو ووٹ سے زیادہ نہیں ملیں گے۔ کیونکہ اصلی مسلم خواتین وہ ہیں  جنہوں نے روزہ رکھ کر دھوپ اور سڑی گرمی میں کیرانہ اور نور پور میں دو دن ووٹ دیئے تھے۔ وہ سب بل کے خلاف ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔