الفاظ کا سفر

ڈاکٹرمحمد رضی الاسلام ندوی

جس طرح انسانوں کا سفر ایک علاقے سے دوسرے علاقے اور ایک ملک سے دوسرے ملک میں ہوتا ہے، وہ وہاں کی بود و باش اختیار کرلیتے ہیں، وہاں کی زبان بولنے لگتے اور وہاں کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں، اسی طرح الفاظ کا بھی سفر ہوتا ہے۔ وہ ایک علاقے سے دوسرے علاقے، ایک ملک سے دوسرے ملک اور ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل ہوتے ہیں اور وہاں کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ یہ لسانیات  (Linguistics)  کا ایک دل چسپ موضوع ہے۔

ڈاکٹر ف۔ عبد الرحیم کو اس موضوع سے گہری دل چسپی ہے۔ 2003 میں ان کی کتاب ‘پردہ اٹھا دوں اگر چہرۂ الفاظ سے’ اسلامک فاؤنڈیشن ٹرسٹ چنّیی سے منظرِ عام پر آئی تھی تو علمی حلقوں میں اس کی کافی پذیرائی ہوئی تھی۔ بعد میں بیت الحکمت لاہور سے بھی اس کی اشاعت ہوگئی تھی۔ اب اسی طرز کی ان کی دوسری کتاب ‘گلستانِ الفاظ و معانی’ کے نام سے اسلامک بک فاؤنڈیشن نئی دہلی سے شائع ہوئی ہے۔

ڈاکٹر ف۔ عبد الرحیم(ولادت 1933)کا تعلق ہندوستان کی ریاست تامل ناڈو کے شہر وانم باڑی سے ہے۔ انھوں نے اعلٰی تعلیم جامع ازہر قاہرہ کے علاوہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے بھی حاصل کی ہے۔ دروس اللغۃ العربیۃ لغیر الناطقين بھا (3 جلدیں) عربی سکھانے والی ان کی مقبول تصنیف ہے۔ عربی زبان و ادب میں ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں صدرِ جمہوریہ ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔ ان دونوں موصوف کنگ فہد قرآن پرنٹنگ کمپلیکس مدینہ منورہ میں ٹرانسلیشن سینٹر کے ڈائریکٹر ہیں۔ دسمبر 2017 میں اپنے سفرِ عمرہ کے دوران میں راقم کو ان سے ملاقات کرنے اور ان کے گھر پر ان کی ضیافت سے شادکام ہونے کا شرف حاصل ہوا تھا۔

اس کتاب کے شروع میں 40 صفحات پر مشتمل مبسوط مقدمہ ہے، جس میں الفاظ کے مختلف زبانوں میں پہنچنے کی وجہ سے ہونے والی تبدیلیوں سے بحث کی گئی ہے۔ اس کے بعد 62 الفاظ کی تحقیق پیش کی گئی ہے۔ ذیل میں ایک مثال پیش کی جاتی ہے، جس سے ان کے اندازِ تحقیق کا اظہار ہوجائے گا۔ انھوں نے لفظ ‘سمینار’ کی تحقیق کرتے ہوئے لکھا ہے :

” یہ انگریزی لفظ (جس کا املا Seminar ہے) آج کل اردو میں بھی بولا جاتا ہے۔ اس کا معنیٰ علمی مذاکرہ ہے، یعنی کسی موضوع پر سیر حاصل بحث کرنے کے لیے اس فن کے ماہرین کا اجتماع۔

ابتدا میں اس لفظ کا استعمال یورپی یونی ورسٹیوں میں ہوتا تھا اور اس کا اطلاق اونچے درجے کے طلبہ کے ایسے اجتماعی مطالعہ پر ہوتا تھا جو کسی پروفیسر کی نگرانی میں انجام پائے۔

اکثر علمی اصطلاحات کی طرح یہ لفظ بھی لاتینی زبان سے ماخوذ ہے۔ اس زبان میں اس لفظ کا بنیادی معنیٰ ہے نرسری، یعنی باغ کا وہ حصہ جہاں بیج اگائے جاتے ہیں۔ یہ لفظ Semen سے ماخوذ ہے، جس کا معنیٰ ہے بیج۔ انگریزی اور دوسری زبانوں میں یہ لفظ از روئے مجاز ‘منی’ کے لیے بولا جاتا ہے۔ (ص90۔91)

تبصرے بند ہیں۔