طلاق کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ 

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

اگرچہ حکومت نے تین طلاق کو قا بل سزا جرم قرار دینے والا آرڈیننس بنا کر اس کو منظور کروادیا ہے، در اصل اس قانون کے بہت سارے پہلو ایسے ہیں جو خود پیچیدہ ہیں کہ شوہر کو تین سال کی جیل ہوگی تو وہ بیوی اور بچوں کا نان ونفقہ کہاں سے دے گااور کیا تین طلاق طلاق نہیں قرار دیتے ہیں تو جس بیوی نے اسے تین سال تک جیل میں سڑایا کیا شوہر جیل سے نکلنے کے بعد اس کے ساتھ رہنا گوارا کرے، یہ سارے پہلو ہیں، جو خود عورت کے لئے اور اس کے بچوں کے مستقبل کو تاریک کردیتے ہیں، اسلئے ہر مرد کو چاہئے کہ وہ ہوش کے دامن کو تھامے، طلاق شریعت میں کوئی مباح عمل نہیں ہے، شریعت اس کی بھی اجازت نہیں دیتی ہے کہ بیوی کو دھڑلے سے بغیر کسی سوچے سمجھے یوں ہی طلاق دی جائے، بلکہ شریعت نے طلاق کا طریقہ کار بتا یا ہے، در اصل مسلمان خود اپنی مذہب میں در اندازی کا موقع فراہم کرتے ہیں، جہاں اس میں مرد بھی مجرم ہیں کہ بیوی اور بچوں کا خیال نہیں رکھتے، ان کی نان ونفقہ اور ان کی ضروریات کی عدم تکمیل یا غیر شرعی عورتوں کی طرف ان کا رحجان یہ عورت کے طلاق کا باعث ہوتا ہے، یہ سب چیزیں شریعت میں ممنوع اور مذموم ہیں، بیوی رفیقِ حیات ہوتی ہے، اسی طرح چند نام ونہاد، عصری تعلیم یافتہ، دین سے بے بہرہ خواتین بھی ہیں، جو خود شوہر کو خاطر میں لانا نہیں چاہتی، مرد کے مقابلہ کے ٹھان لیتی ہیں اور خود کے اپنے بل پر کھڑا ہونے اور کمائی میں خود کفیل ہونے کے زعم میں شوہر کی نافرمانی پر اتر آتی ہیں، حکومت جو کام کرنے جارہی ہے، شریعت نے تو اس تین طلاق کی نوبت آنے سے پہلے کے تمام راہوں کو مسدود کرنے کی مکمل کوشش کی ہے، ہر مسلمان وعورت کو چاہئے کہ وہ شریعت کے دائرہ میں رہ کر اپنی زندگی کو ڈھالنے اور خود طلاق کے میں شریعت کے احکام کو پیش نظر رکھ طلاق کا فیصلہ کرنے سے پہلے اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کریں، طلاق کا طریقہ یہ بھی نہیں ہے ڈھڑلے سے تین طلاق دے دیئے جائیں ؛ بلکہ شریعت یہ ملحوظ رکھا ہے، میاں بیوی کا رشتہ یہ پاکیزہ اور دائمی رشتہ ہوتا ہے، یہ کوئی چوہے اور بلی کا کھیل نہیں ہے، بس شوہر طلاق کہہ دے، یہ الگ بات ہے کہ طلاق کہہ دینے سے شریعت میں طلاق واقع ہوجاتی ہے، عقل مند بیوی شوہر جو حقیقت میں ایک دوسرے کو اپنا رفیقِ حیات زندگی کا ہمد م ورفیق تصورکرتے ہیں، وہ ایسے نازیبا حرکت کر ہی نہیں سکتے، وہ شریعت کو ترک کر کے غضب خدا وندی کے مستحق نہیں ہوسکتے، دوش حکومت کو نہ دیں یا قانون کو نہ دیں، مسلمان دوش اپنے کو دیں کہ وہ چند مٹھی بھر لوگ اللہ کے سامنے کیا جواب دیں ہوں گے خواہ وہ مرد ہو یاعورتیں جو شریعت میں حکومت کی مداخلت کی وجہ او رسبب بن رہے ہیں۔

نکاح ایک پاکیزہ رشتہ

اسلام کی نگاہ میں نکاح کا رشتہ ایک پاکیزہ، پائیدار اور مضبوط رشتہ ہے، اسلام یہ چاہتا ہے کہ مرد وعورت جب نکاح کے اس پاکیزہ بندھن میں بندھ جائیں تو پھر یہ رشتہ ابدی اور دائمی طور پر باقی وبرقرار رہے، معمولی نااتفاقیوں اور معمولی ناچاقیوں کی وجہ سے اس رشتہ میں دراڑ واقع نہ ہو، کیوں کہ اس اثرات دیر پااور دور پا ہوتے ہیں، چونکہ معمولی نااتفاقی کی وجہ سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے تو کے اثرات نہ صرف مرد وعورت پر پڑتے ہیں، بلکہ اولاد کی تباہی وبربادی ؛ بلکہ بسااوقات خاندانوں اور قبیلوں میں اس کی وجہ سے دشمنی اور عداوت کی نوبت آجاتی ہے، اس لئے کبھی کبھار فریقین میں سے کسی کو طبعی طورپر ایک دوسرے کی جانب سے کچھ ناگواری ہوجائے تو نفس کو سمجھا بجھا کر درگذر کردینا چاہئے، نباہنے کیلئے حضور ا نے مردوں کو کئی ایک طرح سے سمجھایا ہے اور نباہنے کا حکم دیاہے، ایک حدیث میں حضور اکا ارشادِ گرامی ہے : ’’ لا یفرک مؤمن مؤمنۃ ان کرہ منھا خلقاً رضی منھا اخر‘‘(مسلم: باب الوصیۃ بالنساء، حدیث:۱۴۶۹)

      یعنی کوئی مرد کسی مومن عورت سے بغض نہ رکھے ؛ کیونکہ اگر اس کی کوئی خصلت ناگوار ہوگی تو دوسری خصلت پسند آجائے گی اور عورتوں کو یہ بھی تعلیم دی کہ طلاق کا سوال ہرگز نہ اٹھائیں،  نباہنے کی کوشش کریں، جہاں کہیں کچھ برتن ہوتے ہیں تو آپس میں کھٹ پٹ ضرور ہوتی ہے، ایسے ہی جب دوآدمی ایک ساتھ رہتے ہیں تو کبھی کبھی کچھ ناگواری کی صورت سامنے آہی جاتی ہے،  اگر صبر سے کام نہ لیا جائے اور آپس میں ناگواری کے سہنے کا مزاج نہ بنایا جائے گا تو آپس میں نباہ نہیں ہوسکتا اور آئے دن طلاق کا سوال ہوتا رہے گا۔ اس لئے صبر وتحمل کے دامن کو تھامے رہیں، اور اس مقدس رشتہ کو داغدار ہونے نہ دیں۔

طلاق غیر مباح عمل

شریعت نے طلاق کو حلال قرار تو دیا ہے ؛ لیکن اس کو سب سے زیادہ مبغوض اور غیر پسندیدہ حلال اور مباح عمل کہا ہے :

حضرت ثوبان صسے مروی ہے کہ آپ انے فرمایا :جو عورت بلا وجہ شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے  :  أیما امراۃ سالت زوجھا طلاقا فی غیر ما باس فحرام علیہ رائحۃ الجنۃ  (ترمذی:المختلعات،حدیث:۱۱۸۶)

آپ ا نے نکاح کا حکم دیا اور طلاق سے منع فرمایا ؛ اس لئے کہ اللہ تعالی اس طرح مزہ چکھنے اور ایک عورت یا مرد کی لذت اٹھا کر پھراس سے جدائیگی اختیار کرنے والے مردوں اور عورتوں کو پسند نہیں کرتا  ’’انّ اللّٰہ لا یحبّ الذوّاقین والذوّاقات‘‘ (مجمع الزوائد : باب فیمن یکفر الطلاق، حدیث : ۷۷۶۲)

 اور ایک روایت میں ہے کہ آپ انے فرمایا : اللہ عزوجل کے نزدیک حلال چیزوں میں طلاق سے زیادہ کوئی چیز مبغوض نہیں ’’ما أحلّ اللّٰہ شیئا أبغض الیہ من الطلاق‘‘(ابوداؤد: باب کراھیۃ الطلاق، حدیث : ۲۱۷۷)

حضرت ابوہریرہ صسے روایت ہے کہ سرکارِ دوعالم انے ارشاد فرمایا کہ : شوہروں سے علیحدگی چاہنے والی اور خلع کا مطالبہ کرنے والی عورتیں نفاق والی عورتیں ہیں ’’المنتزعات والمختلعات ھنّ المنافقات‘‘ (السسن الکبریٰ للبیھقی:باب ما یکرہ للمرأۃ من مسألتھا،حدیث:۶۳۹)

مشہور حنفی عالم علامہ سرخسی ؒفرماتے ہیں :

محض ضرورت ہی کی بناء پر طلاق دینا جائز ہے کہ حضور اکرم ا کا ارشادِ گرامی ہے : ’’اللہ کی لعنت ہے ذائقہ چکھنے والے اور بہت زیادہ طلاق دینے والے پر اور اس عورت پر جس نے اپنے شوہر سے نا واجبی خلع کا مطالبہ کیا اس پر خدا اور تمام فرشتوں اورتمام لوگوں کی لعنت ہے اور اس طرح کے الفاظ اس مرد کے بارے میں بھی مروی ہیں جو اپنی بیوی سے خلع کرے کہ یہ نعمت ِخداوندی کی ناشکری ہے’’لعن اللّٰـہ کلّ ذوّاق مطلاق وقال: ایّما امراۃ اختلعت من زوجھا من غیر نشوز فعلیھا لعنۃ اللّٰـہ والملئکۃ والناس أجمعین‘‘ (المبسوط:کتاب الطلاق:۵؍۳)

طلاق سے پہلے کے مختلف مراحل :

طلاق باوجودیکہ ایک ناپسندیدہ فعل ہے ؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر ازدواجی زندگی میں ناخوش گواری اور تلخی پیدا ہوجائے تو مرد وعورت دونوں ہی کیلئے طلاق ایک ضرورت بن جاتی ہے، یہ دوا کا کڑوا گھونٹ طلاق ازدواجی ناخوشگواریوں کا ابتدائی حل نہیں ؛ بلکہ اصلاحِ حال کا آخری مرحلہ ہے، اگر بیوی واقعی نافرمان ہو اور وہ شوہر کو اس کا جائز حق دینے سے گریزاں ہو تو اوّلاً وعظ وتذکیر اورپند ونصیحت سے کام لیا جائے، اس کے باوجود اصلاحِ حال نہ ہوسکے تو گھر سے نکالے بغیر چند دن کیلئے بستر سے علیحدہ کردے

’’فَعِظُوْھُنَّ وَاھْجُرُوْھُنَّ فِیْ الْمَضَاجِعِ فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْھِنَّ سَبِیْلاً‘‘(النساء:۳۴)

جن عورتوں سے تم کو نافرمانی کا اندیشہ ہو ان کو سمجھاؤ اور بستروں پر ان کو علیحدہ کردو، پھر اگر وہ تمہاری فرمانبردار ہوجائیں تو ان پر سختی کیلئے بہانہ نہ ڈھونڈو۔

پھر اگر یہ بھی طریقۂ کار اس کی اصلاحِ حال نہ کرسکے تو مناسب حدوں میں رہ کر اس کی فطری نزاکتوں اور کمزوری کو دھیا ن میں رکھتے ہوئے تھوڑی سی مار پیٹ بھی کرسکتے ہیں، اب اگر اصلاحِ حال ہوجائے تو بھی ایک بہتر رفیق ِزندگی کی طرح اس کے ساتھ رہا جائے، اگر یہ طریقۂ کار بھی کارآمد اور نفع بخش ثابت نہ ہو تو اس سے یہ پتہ چلا کہ وہ دونوں بذاتِ خود آپس کے اس فساد وبگاڑ کو دور نہیں کرسکتے، ایسی صورت میں حکم دیا :

 وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَینِھِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِنْ اَھْلِہٖ وَحَکَمًا مِنْ اَھْلِھَا، اِنْ یُرِیْدَا اِصْلَاحًا یُوَفِّقُ اللّٰہُ بَیْنَھُمَا، اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًا(النساء :۳۵)

 اگر ان دونوں میں اختلاف کا شدید اندیشہ ہوتو مرد وعورت دونوں کی طرف سے ایک پنچ (حکم )بھیجو، اگر یہ دونوں واقعی اصلاح چاہیں گے تواللہ ضرور ان دونوں کے درمیان موافقت پیدا کردے گا، بے شک اللہ علیم وخبیر ہے۔

یعنی دونوں خاندان کے سمجھدار، دیندار اور ہمدرد اور بہی خواہ حضرات باہم مصالحت کے ذریعہ دونوں کے درمیان نباہ اور جوڑ پیدا کرنے کی کوشش کریں، آپسی ناچاقیوں اورخلش کو حتی الامکان پاٹنے کی تگ ودو ان کی جانب سے ہو ؛ لیکن یہ ثالثی اور مصالحت کا عمل بھی کار گر نہ ہو اور وہ دونوں ایک دوسرے سے یوں ہی نفرت کرتے ہوں تو پھر ایسی صورت میں شریعت نے طلاق کی اجازت دی ہے۔

طلاق کیسے دیں ؟

شریعت نے مرد کو تین درجے تین طلاق کی شکل میں دئے ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تینوں کو بیک جست عبور کرلیا جائے ؛ بلکہ شریعت نے اوّلاً طلاق کو مبغوض قرار دیا ہے، پھر اگر مجبوری کی حالت میں اس کیلئے اقدام کرنا ہی پڑے تو اس حوالے سے سب سے بہتر طریقہ یہ بتلایا ہے کہ پاکی کی حالت میں جس میں بیوی سے مباشرت نہ ہوئی ہو لفظ ِ ’’طلاق ‘‘ کے ذریعہ صرف ایک طلاق دی جائے، اس طلاق کے بعد مرد کو یہ حق رہے گا کہ عدت گذرنے سے پہلے پہلے اگر اپنے ا س فیصلہ پر ندامت وشرمندگی ہوتو بیوی کو اپنی زوجیت میں لوٹالے اور اگر اپنے علیحدگی کے فیصلے پر یوں ہی قائم رہے تو اسے یوں ہی چھوڑ دے، عدت گذرنے کے بعد یہ رشتہ خود بخود ختم ہوجائیگا؛ لیکن اب بھی یہ گنجائش رہے گی کہ اگر دونوں میں مصالحت ہوجائے اور وہ دونوں یہ سوچ لیں کہ ا س رشتہ کو باقی رکھ نا ہے تو ازسرِ نو نکاح کر سکتے ہیں۔

لیکن اگر کوئی شخص اس ’’طلاق احسن ‘‘پر اکتفا نہ کرے، بلکہ دورانِ عدت مزید ایک اور طلاق صریح اور صاف لفظوں میں دے دے تو اس نے نکاح کو ختم کرنے کے دو درجے طے کرلئے ؛ حالانکہ اس کی ضرورت نہ تھی اور ایسا کرنا شرعاً پسندیدہ بھی نہ تھا، مگر طلاق کے ان دو درجوں کے طے کرنے کے بعد بھی بات وہی رہے گی کہ عدت میں اسے بیوی کو اپنی زوجیت میں لوٹالینے کا اختیار رہے گا اور عدت کے ختم ہونے پر بھی دونوں باہم رضااور خوشی سے دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں،  فرق صرف اس قدر ہوگا کہ دو طلاق کو اختیار کرنے میں شوہر نے اپنے اختیارات کی ایک اور کڑی توڑلی اور اب اس سرحد پر پہنچ گیا ہے کہ اب اگر وہ ایک اور طلاق دے تو معاملہ ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائیگا، اسی کو فرمایا :  اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ فَاِمْسٰکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاحْسٰنْ(البقرۃ: ۳۲۹     ) طلاق دو مرتبہ کی ہے پھر (دو مرتبہ طلاق دینے کے بعد دو اختیار ہیں )خواہ یہ کہ رجعت کر کے عورت کو قاعدہ کے مطابق رکھ لے، خواہ (یہ کہ رجعت نہ کرے، عدت پوری ہونے دے اور اس طرح )اچھے طریقے سے اسے چھوڑدے۔

مطلب یہ ہے کہ عدت کے دوران لوٹالینے سے نئے نکاح کی ضرورت نہیں ؛ بلکہ صرف روک لینا لوٹانے کے عمل کیلئے کافی ہے، اگر ایسا کرلیا تو پہلے نکاح ہی کی بنیاد پر رشتۂ نکاح قائم رہے گا ؛ لیکن شوہر کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ اگر اس کا ارادہ اصلاحِ حال اور صلح وصفائی اورایک ساتھ زندگی گذارنے کا ہوتو رجعت کیلئے اقدام کرے، ورنہ چھوڑدے کہ عدت گذر کر زوجیت ختم ہوجائے اور وہ عورت کوئی دوسرا نکاح کرلے۔

اور اگر اس نے اس پر بھی بس نہیں کیا ؛ بلکہ تیسری طلاق دے ڈالی تو اب اس نے اپنے سارے اختیارات ختم کرڈالے تو اب اس کی سزا یہ ہوگی کہ وہ اسے دوبارہ نہیں لوٹا سکتا اور نہ بغیر دوسری شادی کے ان کے درمیان نکاح ہوسکتا ہے، اسی کو فرمایا : فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَـہٗ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہْ (نسائی:کتاب الطلاق الثلاث المجموعۃ وما فیہ،حدیث:۳۴۰۱)پھر اگر دو طلاقوں کے بعد تیسری طلاق بھی دے دے تو پھر وہ عورت اس تیسری طلاق دینے کے بعد حلا ل نہ ہوگی جب تک کہ اس خاوند کے سوا دوسرے شخص کے ساتھ عدت کے بعد نکاح کرے۔

ایک ہی دفعہ تین طلاقیں دینا سخت گناہ اور معصیت ہے، رسول اللہ ا کو ایک شخص کی بیک وقت تین طلاق دینے کی اطلاع دی گئی تو آپ اجوشِ غضب میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ : اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل کیا جاتا ہے ؛ حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں ’’ ثُمّ قال: ایلعب بکتاب اللّٰـہ وانا بین اظھرکم‘‘(۱) اتنے میں ایک شخص کھڑے ہوئے اور کہنے لگے :  اے اللہ کے رسول ا! کیا میں اس کو قتل کردو ں ؟

بہر حال دو طلاقوں تک قرآنِ حکیم سے ثابت ہے ؛ اس لئے باتفاق ائمہ وفقہاء یہ طلاقِ سنت میں داخل ہے، یعنی بدعت نہیں۔

تیسری طلاق کے وجود کی طرف خود اسلوبِ قرآن میں واضح اشارہ پایا جاتا ہے، اسی بناء پر حضرت امام مالکؒ اور بعض ائمہ فقہاء نے تیسری طلاق کو مطلقاً ناجائز اور طلاقِ بدعت قرار دیا ہے، دوسرے ائمہ نے تین طہروں میں تین طلاقوں کو اگرچہ طلاقِ سنت میں داخل کہہ کر بدعت سے نکال دیا ہے، مگر اس کے غیر مستحسن ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں۔

جن حالات میں طلاق دینا منع ہے :

پھر شریعت نے ہر حالت میں طلاق دینے کو جائز قرار نہیں دیا ؛ بلکہ بعض احوال میں جن میں طلاق دینے میں انسان کے غصے کا دخل ہوسکتا ہے، یاعورت کو تکلیف ہوسکتی ہے، طلاق دینا ممنوع قرار دیا، یہ پابندیاں بھی بتلائی ہیں کہ طلاق کوئی محمود فعل نہیں ؛ بلکہ مذموم عمل ہے۔

شریعت نے تو سب سے پہلے یہ کہا کہ طلاق کا استعمال کرنا یہ اللہ کے نزدیک بہت ہی مبغوض ومکروہ عمل ہے، صرف مجبوری کی حالت میں اس کی اجازت دی۔

دوسری پابندی یہ لگا ئی کہ حالت ِغیض وغضب یا کسی وقتی اور ہنگامی ناگواری میں بھی طلاق کا استعمال نہ ہو ؛ اس لئے حالت ِحیض میں طلاق دینے کو ممنوع قراردیا اورحالت ِطہر میں جس میں عورت سے ہم بستری ہوچکی ہو، اس میں بھی طلاق دینے کو مکروہ کیا؛ چونکہ اس کی وجہ سے عورت کی عدت لمبی ہوجائے گی، اس کو تکلیف ہوگی، فرمایا : ’’ وَطَلِّقُوْھُنَّ لِعِدَّتِھِنَّ‘‘(الطلاق:۱)  یعنی طلاق دینا ہو تو ایسے وقت میں دوکہ بلا وجہ عورت کی عدت طویل نہ ہوجائے۔

حالت ِحیض میں بھی طلاق ایسے وقت میں دے کہ بلا وجہ عورت کی عدت طویل نہ ہوجائے۔

حالت ِحیض میں بھی طلاق دینے پر حضور انے سخت تنبیہ کی ؛ اس لئے کہ اس زمانے میں عورتوں کے مزاج میں فطری طور پر تیزی اور چڑچڑاہٹ ہوتی ہے، ایسا ہوسکتا ہے اسی وقتی نزاع کی وجہ سے طلاق دی گئی ہو، یہ مدت گذر جائے اور تعلقات درست ہوجائیں، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے اپنی بیوی کو حیض کے زمانے میں طلاق دی، آپ اکو اطلاع ہوئی تو برہم ہوئے اور لوٹالینے کو کہا کہ وہ جب حیض سے پا ک ہوجائے تو طلاق دے۔

طلاق کے تین درجے :

شریعت نے گر چہ طلاق کو آخری حل کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت دی ہے ؛ لیکن طلاق دینے کے مختلف درجات اور طریقے متعین کئے ہیں جس طریقۂ طلاق میں بآسانی نکاح کو دوبارہ بحال کیا جاسکتا ہو اور عورت پر سے مرد کا اختیار کم سے کم ختم ہوتا ہو اس کو ’’احسن ‘‘پھر اس سے کم درجے کو ’’حسن ‘‘اور اس کے بعد والے درجے کو’’ طلاقِ بائن ‘‘یا بدعی کہا جاتا ہے۔

طلاقِ احسن: 

یہ ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق نہ دی جائے؛ بلکہ صریح لفظوں میں صرف ایک طلاق دی جائے، یہ طلاق حیض کی حالت میں نہ ہو ؛ بلکہ ایسی پاکی (طہر )کی حالت میں ہو جس میں ایک دفعہ بھی بیوی سے صحبت نہ کی ہو، اب ایک طلاق دینے کے بعد اگر وہ بیوی کو چھوڑنا چاہتا ہے تو اپنے حال پرچھوڑے، یہا ں تک کہ عدت گذر جائے، اس طلاق کو احسن یعنی طلاق کا سب سے بہتر طریقہ اس لئے کہا کہ اس صورت میں عدت گذرنے تک بیوی کو لوٹانے کی گنجائش ہے اور عدت کے بعد بھی بغیر حلالہ (نکاحِ ثانی ) کے دوبارہ نکاح کیا جاسکتاہے  نیز اس صورت میں عدت طویل نہیں ہوتی اور عورت کے حاملہ نہ ہونے کا اطمینان ہوجاتا ہے ؛ نیز حالت ِحیض میں ایک طلاق بھی ایک ’’طلاقِ احسن ‘‘ہی شمار ہوگی۔

طلاقِ حسن :

طلاقِ حسن یہ ہے کہ ایسی عورت جس سے صحبت ہوچکی ہو، اگر حائضہ ہوتو تین طہرمیں اور حائضہ نہ ہویا اب عمرکی زیادتی کی وجہ سے حیض آنا بند ہوگیا ہو تو تین ماہ میں ایک ایک حیض اور ایک ایک طہر کے وقفہ سے طلاق دی جائے، اس میں بھی طہر کا صحبت سے خالی ہونا ضروری ہے، البتہ نا بالغہ، عمر رسیدہ اور حاملہ کو صحبت کے بعد بھی تین طلاق دے سکتے ہیں، یہ بیک وقت تین طلاق دینے سے بہترہے ؛ کیونکہ اس میں شوہر کو پہلی اور دوسری طلاق کے بعد مزید غور وفکر کا موقعہ مل جاتاہے اور رجعت کی گنجائش رہتی ہے، یہ طلاق اپنی اصل کے اعتبار سے خلافِ سنت اور بدعت ہی ہے ؛ لیکن بیک وقت تین طلاق دینے کے مقابلے میں یہ صورت نسبتاً بہترہے ؛ اس لئے اس کو طلاقِ حسن سے تعبیر کیا۔

طلاقِ بدعی :

طلاقِ بدعی یہ ہے کہ ایک ہی دفعہ یا ایک ہی پاکی میں دو یا تین طلاقیں دی جائیں یا حالت ِحیض میں یا ایسی پاکی میں طلاق دے جس میں صحبت کرچکا ہے، طلاق کی یہ تینوں صورتیں سخت گناہ ہیں، ان کا ارتکاب جائز نہیں اور ان سے بچنا واجب ہے ؛ لیکن ا س طرح اگر طلاق دے دی جائے تو طلاق واقع ہوجائے گی۔ (رد المحتا ر:۲؍۴۱۸)

مذاق اور دھمکی کی طلاق 

بعض لوگوں کا معمول یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو مزاحا ًلفظ صریح کے ذریعے طلاق دے بیٹھتے ہیں، یا بطور دھمکی اور ڈرانے کیلئے کہہ دیتے ہیں کہ میں نے تجھ کو طلاق دے دیا، تو جان لینا چاہئے کہ مذاق اور دھمکی کی طلاق بھی واقع ہوجاتی ہے ؛ اس لئے اس سے بہت احتیاط کی ضرورت ہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے کر جب پچھتاوا ہو تو یہ کہنے لگیں کہ میں نے طلاق کی نیت سے طلاق نہیں دی، یا میں بہت غصہ میں تھا یا عورت حمل سے تھی یا اس کی ناپاکی کا زمانہ تھا اور یہ باتیں اس لئے کریں کہ ان کے نزدیک غصہ میں یا حالت حمل وحیض میں طلاق نہیں ہوتی ؛ حالانکہ طلاق کا تعلق زبان سے ہوتا ہے، جب زبان سے نکلے گی تو واقع ہوجائیگی، شوہر غصہ میں ہو یا رضامندی میں اور عورت حمل سے ہو یا ناپاکی کے ایام میں ہو، بہر صورت طلاق دینے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے، بلکہ طلاق تو وہ چیز ہے جو شوہر کی زبان سے مذاق سے نکل جائے تو بھی اثر کرتی ہے، حضوراکا ارشاد ِ گرامی ہے : ’’ثلاث جدّھنّ جدّ وھزلھنّ جدّ‘‘ تین چیزیں ایسی ہیں جن میں اصلی نیت اورمذاق دونوں برابر ہیں یعنی بلا نیت زبان سے نکالنے سے بھی اثر کرتی ہیں :

۱-  نکاح

  ۲-   طلاق

   ۳-  رجوع کرلینا  (طلاق رجعی کے بعد )۔ (ترمذی:  باب الجد والہزل فی الطلاق)

اور حضوراکا یہ بھی ارشاد گرمی ہے : ’’من طلّق لاعبًا أو نکح لاعباً فقد جاز‘‘(مصنف عبدا لرزاق، باب ما یجوز من اللعب فی الطلاق،حدیث: ۱۰۲۴۴)  جو شخص مذاق میں طلاق دے یا مذاق میں نکاح کرے تو یہ درست ہوجائیں گے۔

اس بارے میں یہ ارشادِ ربانی بھی ہے’’ وَلَا تَـتَّخِذُوْا اٰیَاتِ اللّٰہِ ھُزُوًا ‘‘ ( البقرۃ : ۲۳۱) اللہ کی آیتوں کو مذاق نہ بناؤ۔

بلکہ سبقت ِ لسانی کی وجہ سے کچھ کہنے کے بجائے طلاق کہہ دیا تو بھی طلاق واقع ہوجائیگی   ’’ کلّ طلاق جائز‘‘(ترمذی: طلاق المعتوہ،حدیث:۱۱۹۱)  ہر طلاق جائز اور واقع ہوجاتی ہے۔

تین طلاق کے بغیر حلالہ کے نکاح نہیں ہوسکتا۔

شریعت نے کس قدر آسانی رکھی ہے کہ اوّل تو طلاق دینے ہی سے منع فرمایا، پھر اگر کوئی طلاق دینا ضروری سمجھے تو اسے بتایا کہ ایک طلاق عورت کی پاکی کے زمانے میں دیدے کہ اس میں غصہ ٹھنڈا ہونے اورسوچ وبچار کرنے کا خوب اچھی طرح موقع مل جاتا ہے، کسی نے صاف لفظوں میں ایک ساتھ دو طلاقیں دے دیں توبھی وہ رجعی ہوں گی اوراگر غیر حاملہ عورت کو پاکی کے زمانہ میں ایک طلاق صاف لفظوں میں دیدے اوررجوع نہ کرے اور اس کے بعد جو پاکی کا زمانہ آئے اس میں ایک اور طلاق دے دے تو دوسری طلاق بھی رجعی ہوگی اور اس کا حکم بھی وہی ہو گا جو پہلی طلاق کا تھا، پھر اگر تیسری پاکی کے زمانہ میں ایک اور طلاق دیدے تو طلاقِ مغلّظہ ہو گی یا بیک وقت تین طلاقیں دیدے تو بھی واقع ہوجائیں گی، تین طلاقوں کے بعد آپس میں بغیر حلالہ کے دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا، مطلب یہ ہے کہ جب تین طلاق ملنے والی عورت نے عدت گذار کر دوسرے مرد سے نکاح کرلے اور اس شوہر سے میاں بیوی والا کام بھی ہوجائے، پھر وہ اس کو اپنی مرضی سے طلاق دے دے یا مرجائے تو عدت گذار کر پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے، ارشادِ خداوندی ہے:’’ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہْ‘‘ (البقرۃ:۲۳۰)  یعنی اگر شوہر نے تیسری طلاق دے دی تو اس کیلئے حلال نہ ہوگی جب تک کہ اس کے علاوہ دوسرے شوہر سے نکاح کرلے۔

اگر دوسرے شوہر سے صرف نکاح ہوجائے اور نکاح کرکے طلاق دیدے یا مرجائے تو پہلے شوہر کیلئے حلال نہ ہوگی، اس کے حلا ل ہونے کیلئے یہ شرط ہے کہ دوسرا شوہر اس عورت سے میاں بیوی والا تعلق بھی قائم کرلے، اس کے بعد طلاق دے دے یا وفات پا جائے اور عدت گذرجائے تو پہلے شوہر کیلئے اس سے نکاح کرنا جائز ہوگا، اس شرط کو حضرت عائشہ ؓکی اس روایت میں ذکر کیا گیا ہے۔

حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ رفاعہ قرظی صکی (سابقہ )بیوی حضور اقدس ا کے پا س آئی اور عرض کیا میں (پہلے )رفاعہ صکے پاس تھی (یعنی ان کے نکاح میں تھی) انہوں نے مجھے پکی طلاق دے دی (یعنی تین طلاقیں دے کر جدا کردیا، ان کی عدت گذارنے کے بعد )میں نے عبدا لرحمن بن زبیرص سے نکاح کیا ( میں نے ان کو ازدواجی حقوق ادا کرنے کے قابل نہ پایا )ان کے پا س ایسی چیز ہے جیسے کپڑے کا پلو، حضور انے مذکورہ خاتون کی بات سن کر سوال فرمایا : کیا تم یہ چاہتی ہو کہ (اس سے طلاق لے کر عدت گذرنے کے بعد ) رفاعہ صسے دوبارہ نکاح کرلو ؟ انہوں نے عرض کیا : جی ہاں، یہی میں چاہتی ہوں !آپ انے فرمایا : نہیں ! (ایسا نہیں ہوسکتا )رفاعہ کے نکاح میں دوبارہ آنے کا کوئی راستہ نہیں )جب تک کہ تم اس دوسرے شوہر سے تھوڑی لذت حاصل نہ کرلو اور وہ تم سے تھوڑی لذت حاصل نہ کرلے  ’’ قال:لا حتّی تذوقی عسیلتہ ویذوق عسیلتک‘‘ (بخاری: باب شھادۃ المختبی،حدیث:۲۴۹۶)

حلالہ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی سے یہ معاہد ہ کیا جائے کہ تم اس عورت سے نکاح کرلو اور حلالہ کی شرط پوری کرکے چھوڑ دینا کہ شوہر اول سے نکاح ہوسکے، ایسا معاملہ اور معاہدہ شرعاً ممنوع ہے، گرچہ اس طرح کی شرط لگاکر کسی سے نکاح کرادیا اور حلالہ کی شرطیں پوری ہوگئیں تو شوہرِ اوّل کیلئے حلال ہوجائیگی ؛ لیکن اس طرح کرنا نہایت مبغوض اور عنداللہ ناپسندیدہ چیز ہے۔

حضرت عبد اللہ بن مسعودص سے روایت ہے کہ’’ لعن رسول اللّٰـہ المُحلّل والمحلّل لہ‘‘(بخاری: باب شھادۃ المختبی،حدیث:۲۴۹۶)  یعنی رسول اللہ انے لعنت فرمائی ہے جو حلالہ کرے اور جس کیلئے حلالہ کیا جائے۔

خلاصہ خطاب :

۱۔ شرعا طلاق ایک غیر مباح اور ناپسندہ عمل ہے۔

۲۔ ابتدائی مرحلے میں فہمائش اور صلح صفائی سے کام لیا جائے، فورا طلاق کو اختیار نہ کیا جائے۔ اس فہمائش اور صلح صفائی کے بھی مختلف مراحل ہیں۔

۳۔ طلاق مسنون طریقے پر دیا جائے، جس کے تین درجے ہیں، طلاق احسن، جس میں صریح لفظوں میں صرف ایک طلاق دینا ہوتا ہے، اور یہ طلاق حالت حیض میں نہ ہو، بلکہ پاکی کی حالت میں ہو، اس کو اسی حالت میں چھوڑ دیا جائے یا عدت کے درمیان رجوع کرلے، دوسرے طلاق حسن : یہ ہے کہ تین طہر اور پاکی میں ـتین علاحدہ طلاق دے جس دوران اس کو سونچنے اور رجوع کرنے کا حق ہوسکتا ہے، یہ طلاق اصلا خلاف سنت اور بدعت ہی ہے لیکن بیک وقت تین طلاق دینے کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہے اس لئے ا س کو طلاقِ حسن سے تعبیر کیا گیا۔ تیسری طلاق بدعی : طلاقِ بدعی یہ ہے کہ ایک ہی دفعہ یا ایک ہی پاکی میں دو یا تین طلاقیں دی جائیں یا حالت ِحیض میں یا ایسی پاکی میں طلاق دے جس میں صحبت کرچکا ہے، طلاق کی یہ تینوں صورتیں سخت گناہ ہیں، ان کا ارتکاب جائز نہیں اور ان سے بچنا واجب ہے ؛ لیکن ا س طرح اگر طلاق دے دی جائے تو طلاق واقع ہوجائے گی۔

۴۔ مذاق اور دھمکی میں دی ہوئی بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

۵۔ تین طلاق کے بعد حلالہ کے بغیر نکاح نہیں ہوسکتا۔

تبصرے بند ہیں۔