ظاہر یا مبہم رہتا ہے

سحر محمود

 ظاہر یا مبہم رہتا ہے

دل میں لیکن غم رہتا ہے

تجھ سے ملوں تو کم رہتا ہے

جو بھی دل میں غم رہتا ہے

اس سے تعلق کم ہی رکھیے

لب پر جس کے “ہم” رہتا ہے

مجھ کو خبر ہے زیست میں سب کی

اکثر زیر و بم رہتا ہے

زخم ہوں کیسے بھر جاتے ہیں

وقت میں وہ مرہم رہتا ہے

دل جانے یا رب ہی جانے

دل کا جو عالم رہتا ہے

ہو وہ خوشی کا یا ہو غم کا

عارضی ہر موسم رہتا ہے

اب بھی تمھاری فکر میں جاناں

ایک ابنِ آدم رہتا ہے

کس سے سحر دنیا میں ہمیشہ

رشتہ کوئی پیہم رہتا ہے

تبصرے بند ہیں۔