ظاہر یا مبہم رہتا ہے
سحر محمود
ظاہر یا مبہم رہتا ہے
دل میں لیکن غم رہتا ہے
…
تجھ سے ملوں تو کم رہتا ہے
جو بھی دل میں غم رہتا ہے
…
اس سے تعلق کم ہی رکھیے
لب پر جس کے “ہم” رہتا ہے
…
مجھ کو خبر ہے زیست میں سب کی
اکثر زیر و بم رہتا ہے
…
زخم ہوں کیسے بھر جاتے ہیں
وقت میں وہ مرہم رہتا ہے
…
دل جانے یا رب ہی جانے
دل کا جو عالم رہتا ہے
…
ہو وہ خوشی کا یا ہو غم کا
عارضی ہر موسم رہتا ہے
…
اب بھی تمھاری فکر میں جاناں
ایک ابنِ آدم رہتا ہے
…
کس سے سحر دنیا میں ہمیشہ
رشتہ کوئی پیہم رہتا ہے
تبصرے بند ہیں۔