ظلمت کو ضیا صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

عالم نقوی

بھائی زین شمسی ہم سے کم ازکم ربع صدی تو ضرور چھوٹے ہیں۔ ایک پندرہ روزہ اخبار مسلم دنیا کے ایڈیٹر ہیں۔ ہم اگر چالیس سال سے  میڈیا کے اِس صحرا کی خاک چھان رہےہیں تو اُن کا صحافتی  تجربہ بھی پچیس سال سے  کم تو نہیں ہونا چائیے۔ لیکن۲۷ فروری کو انہوں نے اپنی دماغی کیفیت کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اسے پڑھ کے  یہی محسوس ہوا کہ جیسے وہ ہمارے احساسات  کی ترجمانی کر رہے ہوں۔ انہوں نے لکھا ہے  کہ  پچھلے تین مہینوں سے اُنہیں ایسا لگنے لگا ہے جیسے  وہ لکھنا بھولتے جارہے ہیں!

کیا ایسا ممکن ہے کہ کوئی لکھاری لکھنا بھول جائے؟ کاس گنج کا خونی کھیل، نیرو مودیکی بینک ڈکیتی اور فرار، سلمان ندوی کا سودا، یوم مادری زبان  کے موقع پر اردو کے ایسے استادوں کی دوسروں کو اردو پڑھنے کی تلقین جنہوں نے خود اپنے بچوں کو اردو سے دور رکھا ہے، اورنگ ّباد میں تبلیغی جماعت کا ازدہام اور اس پر بے لگام تبصرے، ایس آئی کے پروگرام میں مشاعرہ، اور سری دیوی کی موت پر غیر ضروری ہائے واویلا وغیرہ ان سب پر کچھ نہ کچھ لکھا جا سکتا تھا لیکن کچھ بھی تو نہیں لکھا  جا سکا !

 زَین نے لکھا ہے کہ جس طرح لکھنا سکھایا نہیں جا سکتا اسی طرح لکھنا بھلایا بھی تو نہیں جا سکتا۔ کیا لکھنا سکھا یا جا سکتا ہے ؟ تو شکسپئیر کو کس نے لکھنا سکھا یا ؟غالب نے کری اے ٹِو رائٹنگ کی کس درسگاہ میں شعر کہنا سیکھا ؟ مشہور، مغربی مفکرین  کافکا، سارتر، کامو، مارکیز اور کنڈیرا وغیرہ کیا یو نیورسٹیوں سے لکھنا سیکھ کر آئے تھے ؟ پریم چند، منٹو، اور کرشن چند نے افسانے لکھنے کا فن کن اسکولوں میں حاصل کیا تھا ؟ کیا جون ایلیا نے شاعری امروہے کے کسی اسکول میں سیکھی تھی ؟۔۔

تو جب لکھنا ’آگہی ‘ کا معاملہ ٹھہرا تو بقول حبیب جالب پھر

ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا !

لیکن پھر وہی کہ پہلے لکھنا تو آئے۔۔ !  لکھنے کی دنیا ئیں  اپنی طرف بلا رہی ہیں اور میں ایک بیمار بوڑھے کی طرح  اس کی طرف کھنچا چلا جاتا ہوں۔ ۔ میں تو بس کوئی ایسی بات ہی لکھنا چاہتا ہوں جو پرھنے والوں کی سمجھ میں آجائے ! کیا زندگی اور لکھنا ایک ہی سکے کے دو رُخ نہیں ؟جب تک انسان لکھنے کے عمل سے واقف نہ ہو وہ زندگی کے نہاں خانوں سے بھی کب آشنا ہو سکتا ہے ! کہیں ایسا تو نہیں کہ میں لکھنے کی کوشش میں خود سے جھوٹ بول رہا ہوتا ہوں ؟سچ کی دیوار سے لپٹ کر روتے ہوئے نوشتہ دیوار لکھنے کی کوشش ! کہیں یہ  تقدیر سے بہتر اور تعبیر سے گہرا فن پارہ لکھ سکنے کی احمقانہ کوشش تو نہیں ؟ یہ ذہنی کرب ہے یا سماجی ٹنشن ؟ کیا یہ گھریلو پریشانیوں اور مالی تنگیوں کا نتیجہ ہے ؟ لیکن۔۔ میں تو پوری طرح فٹ ہوں۔ ذہنی اور جسمانی ہر اعتبار سے۔ پھر لکھنا وبال ِجان کیوں ہو گیا ہے ؟ کہیں  اس کا سبب نیوٹن کے وہ قوانین  تو نہیں  جنہیں وہ خود اپنی کتابوں میں لکھنا بھول گیا تھا ! مثلاً۔۔

انتظاری قطاروں کا قانون :اگر کسی جگہ ایک سے زیادہ انتظاری قطاریں ہوں اور آپ اپنی قطار چھوڑ کر دوسری میں لگ جائیں تو پہلی تیزی سے آگے بڑھنا شروع ہو جاتی ہے گویا اسے بس میرے قطار چھوڑنے ہی کا انتظار تھا !

مکینکی قانون : کوئی مشین مرمت کرتے ہوئے جب آپ کے ہاتھ تیل اور گریس سے بھرے ہوں تو ناک پر کھجلی ہونے لگے !یا ٹیلی فون کا قانون کہ جب بھی غلطی سے رانگ نمبر ڈائل ہوجائے تو لائن فوراً مل جائے یعنی اُس رُوٹ کی کوئی لائن ’وِیَست‘ نہ ہو !یقین نہ آئے تو آزما کے دیکھ لیں !ایک قانون ورکشاپ کا بھی ہے۔ یعنی اگر آپ نے ایک سے زیادہ چیزیں اپنے ہاتھ میں اٹھا رکھی ہوں تو سب سے قیمتی اور سب سے نازک شے سب سے پہلے ہاتھ سے چھوٹ کے زمین کا راستہ لے ! نیوٹن کا ایک غیر تحریری ’دفتری قانون ‘ بھی ہے۔ یعنی اگر آپ دفتر دیر سے پہونچنے پر  باس کو ٹائر پنکچر ہو جانے کے بہانے سے مطمئن کر دیں تو اگلے دو ہی تین دن میں آپ کی گاڑی  کا ٹائر لازماً پنکچر ہو جائے ! اور باتھ روم کا قانون یہ ہے کہ جب صابن لگا چکے ہوں تو باہر ٹیلی فون کی گھنٹی بجنے لگے! ایک قانون خفیہ ملاقات کا بھی ہے اگر آپ کسی خفیہ ڈیٹ پر  ہوں تو آپ کی ہزار احتیاط کے باوجود کوئی نہ کوئی جاننے والا آپ کو ضرور دیکھ لے !نیوٹن کے دس غیر کتابی غیر تحریری قوانین میں سے آٹھواں قانون دودھ اُبالنے کا قانون ہے کہ آپ چاہے جتنی دیر کھڑے رہیں دودھ نہیں اُبلے گا لیکن جیسے ہی چند سکنڈ کے لیے بھی آپ غافل ہوں گے دودھ اُبل کے چولھے اور کچن کے پلیٹ فارم کا ستیاناس کر چکا ہوگا !نواں قانون چائے کا ہے کہ کام کرتے ہوئے اگر آپ کا دل چاہے کہ ایک کپ گرما گرم چائے مل جائے اور طلب کرنے پر وہ چائے آپ کی میز پر آبھی چکی ہو تو آپ کا باس عین اسی وقت آپ کو ضرور طلب کر لےگا اور جب آپ پلٹ کر اپنی میز پر آئین گے تو وہ چائے برف ہو چکی ہو گی۔

نیوٹن کا دسواں اور آخری غیر تحریری دنیوی قانون یہ ہے کہ دیانت داری اور محنت سے حل کیے ہوئے سوال کے نمبر  نقل کر کے لکھے ہوئے جواب سے کم ہی ملتے ہیں !

ایک صاحب نے فرمایا کہ وہ ویب سائٹس پر بلاگ لکھ کر مہینے میں پچاس ہزار کما لیتے ہیں۔ ایک اور ہم عصر لکھاری نے حاضرین پر رعب جمایا کہ وہ ڈائجسٹوں میں کہانیاں لکھ کر لاکھ روپئے کما لیتے ہیں۔ ایک اور آواز آئی کہ ’میں تو  ٹی وی ڈرامے لکھ کر دو لاکھ روپئے ماہانہ کما لیتا ہوں ! ایک اور صاحب نے دون کی ہانکی۔ بولے : مجھے تو  صرف ایک ویکلی کالم کے کے پچاس ہزار ملتے ہیں یعنی دو لاکھ روپئے مہینہ۔ وہیں ایک ’مولی صاحب ‘ بھی تشریف فرما تھے۔ بولے مجھے تو ایک مہینے میں پانچ لاکھ تک مل جا تے ہیں !جب اُن سے پوچھا گیا کہ وہ لکھتے کیاہیں ،۔ تو بولے۔ جی تعویذ !

تو کیا میں بھی تعویز لکھنا شروع کردوں ؟ ‘‘

ہمارا  اورہمارے جیسے سارے  زین شمسیوں کا معاملہ یہی ہے کہ  ہمیں لکھنے کے سوا اور کچھ آتا ہی نہیں۔ اور ہم وہی ’لکھنا ‘بھولتے جا رہے ہیں ! کوئی بتلائے کہ ہم  بتلائیں کیا  !

برادر کشی، جھوٹ، ظلم اور دہشت گردی کے اس سیاہ و تاریک دور میں ہم ظلم کو انصاف، جہالت کو علم اور دہشت گردی کو جہاد تو نہیں لکھ سکتے !ہر گز نہیں۔ ہم یمن و سیریا اور بحرین و رخائن میں تفریق نہیں کر سکتے۔ ہم کربلائے  وقت میں کسی شمر، کسی  حرملا اور کسی یزید کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ کبھی نہیں۔ فرعونوں ، قارونوں ، نمرودوں اور یزیدوں کی حمایت ہم سے نہیں ہونے والی۔ کربلا کوئی بھی ہو اور کہیں بھی ہو ہم کل بھی حسین کے ساتھ تھے، آج بھی حسین  کے ساتھ ہیں اور کل بھی انشا اللہ حسین ہی کے ساتھ رہیں گے !

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔