منہ سے جو لفظ نکلا، وہ تھا کتاب جیسا
مجاہد ہادؔی ایلولوی
منہ سے جو لفظ نکلا، وہ تھا کتاب جیسا
مجھ کو سمجھتے کیسے، میں تھا نصاب جیسا
۔
کل مشکلیں بہت تھی، لیکن سکون بھی تھا
لوٹا دو ہم کو اپنا، اک پل شباب جیسا
۔
کیوں اشکبار آنکھیں، ہوتی نہیں ہیں میری
کچھ تو پڑا ہوا ہے، دل پر حجاب جیسا
۔
میری نظر سے ظالم، اتنا سمجھ چکا ہے
دریا میں اب بھی باقی، ہے اضطراب جیسا
۔
محسن سمجھنا اس کو، محسن ہو جو حقیقی
اس پر تو خار نکلے، تھا جو گلاب جیسا
۔
ظلمت کدے سے ہادؔی نکلو زمانہ دیکھو
سب ہی بنا رہے ہیں، رستہ عُقاب جیسا
تبصرے بند ہیں۔