ظلم شباب پر ہو اور ہر طرف کفر بکا جارہا ہو تو……

عمیر کوٹی ندوی

معروف سیاسی کارکن نیرجا گوپال جیال  نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ "مجھے ایسا نظر آتا ہے کہ آج کے دور میں جو کوئی بھی اپنے مذہب، زبان یا غریبی کے سبب دوسرے درجہ کا شہری بنا ہوا ہے اب اس کو دوسرے درجہ کے شہری کے فرضی وقار و احترام سے بھی محروم کردینے کی کوشش کی جارہی ہے ……انسانوں کو انسانی وقار سے محروم کیا جارہا ہے اور ان افراد کے ساتھ کسی سیاسی کھیل میں ان پیادہ مہروں جیسا سلوک کیا جارہا ہے جن کی کوئی قدر و قیمت ہی نہیں ہے۔ مزید براں مذہب کو بھی اس کشیدگی میں شامل کردیا گیا ہے تو وہ اور بھی خطرناک زہر بن گئی ہے……اب وہ رحم دل اور ہمدرد ہندوستان نہیں رہا …… کوئی بھی کوشش خود ہماری طرف سے روہنگیا جیسا نیا مسئلہ پیدا کرلینے کے مترادف ہوگی……اب سماجی ٹھیکہ داروں کے نام نہاد نگراں ہجوموں کی طرف سے سڑکوں پر برسرعام شہریت ثابت کرنے کا مطالبہ کئے جانے پر شائد ہی کوئی حیرت ہوگی……دہلی، ممبئی اور دیگر مقامات پر بھی بی جے پی قائدین بیک آواز ہوکر آسام جیسے این آر سی کے لئے مطالبے کرنے لگے ہیں”۔ یہ باتیں اپنے آپ میں بہت اہم ہیں اور اس وقت ملک کی جو صورت حال ہے اورملک گیر سطح پر  جس فضاء کو عام کرنے کی کوشش زوروں پر جاری ہے اس کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ ایک طرف فرقہ پرست سیاست اور فرقہ پرست طاقتوں کی طرف  سےانجام دی جانے والی پرتشدد کارروائیاں ہیں۔ ان سب کے نشانے پر اسلام اور مسلمان ہیں۔

دوسری طرف مسلمان ہیں جو ان کاموں میں مصروف ہیں جو انہیں ان حالات میں  نہیں کرنا چاہئے تھا۔ خود مسلمانوں کی صفوں میں ایک تعداد ایسی پیدا ہوگئی ہے جو  ظلم وجبر پر آمادہ اور اسلام ومسلمانوں پر اعتراضات، الزامات اورتمسخر میں مصروف لوگوں کی باتوں سے متاثر ہو کر یا مفادات کو سامنے رکھ کر ان کی باتوں میں ہاں میں ہاں ملارہی ہے اور ان کی طرف سے مسلمانوں سے برسرپیکار ہے۔ ایک تعداد ایسی بھی ہے جو اسلام دشمنی پر آمادہ لوگوں کے ساتھ ہم پیالہ اور ہم نوالہ ہے۔ وہ  ان کی ہاں میں ہاں تو نہیں ملارہی ہے لیکن شرماحضوری میں خاموش ہے۔ اس  عمل سے غلط کام کرنے والوں کو اپنی غلطی کا احساس ہونے کے بجائے انہیں حوصلہ مل رہا ہے۔ وہ اہل ایمان کی اس تعداد کی خاموشی کو اپنے لئے تائید تصور کر رہے ہیں۔ اس کے برخلاف اہل ایمان میں سے کچھ لوگ اس موقع پر ظلم وجبر پر آمادہ اور اسلام ومسلمانوں پر اعتراضات، الزامات اورتمسخر میں مصروف لوگوں کی باتوں کا ترکی بہ ترکی جواب دے رہے ہیں جس سے اس طرح کی باتیں مزید پھیل رہی ہیں، ماحول خراب ہو رہا، دوریوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور ظلم وجبر پر آمادہ لوگوں کے کام آسان ہو رہے ہیں۔ اس عمل سے اصلاح کے بجائے خرابی کو ہوا مل رہی ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ اگر یہ سلسلہ نہیں رکا تو بات بڑھ کر فتنہ وفساد کی شکل اختیار کرجائے، بلکہ بہت دور مسلمانوں کو دیوار سے لگا دینے تک نکل جائے۔

عقل کا تقاضہ ہے خاص طور پر اہل ایمان کے لئے کہ حالات کی نزاکت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے  اورمسئلہ کے حل کے لئے اسلامی تعلیمات کی طرف رجوع کیا جائے۔ حضور اکرمؐ نے  تاکید فرمائی ہے کہ "عاقل کو اپنے زمانہ سے آگاہ ہونا چاہئے”۔ لہذاعقل وخرد سے آراستگی کا معیار بھی یہی ہونا چاہئے۔ قرآن مجید میں موجودہ حالات کے تعلق سے واضح تعلیمات موجود ہیں اور ان کا بہت ہی آسان حل بتایا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ”اللہ اِس کتاب میں تم کو پہلے ہی حکم دے چکا ہے کہ جہاں تم سنو کہ اللہ کی آیات کے خلاف کفر بکا جا رہا ہے اور ا ن کا مذاق اڑایا جا رہا ہے وہاں نہ بیٹھو جب تک کہ لوگ کسی دوسری بات میں نہ لگ جائیں۔ اب اگر تم ایسا کرتے ہو تو تم بھی ان ہی کی طرح ہو۔ یقین جانو کہ اللہ منافقوں اور کافروں کو جہنم میں ایک جگہ جمع کرنے والا ہے.(النساء-140)

اسی مضمون کو دوسری آیت میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ”جب تم دیکھو کہ لوگ ہماری آیات پر نکتہ چینیاں کر رہے ہیں تو ان کے پاس سے ہٹ جاوٴ یہاں تک کہ وہ اس گفتگو کو چھوڑ کر دُوسری باتوں میں لگ جائیں۔ اور اگر کبھی شیطان تمہیں بھُلاوے میں ڈال دے تو جس وقت تمہیں اس غلطی کا احساس ہوجائے اس کے بعد پھر ایسے ظالم لوگوں کے پاس نہ بیٹھو”۔(سورة الانعام 68)۔ان دونوں ہی آیات سے جو حکم نکل رہا ہے وہ یہ کہ جب اور جہاں اللہ کی آیات کے خلاف کفر بکا جا رہا ہو، ا ن کا مذاق اڑایا جا رہا ہو یا ان پر نکتہ چینیاں کی جارہی ہوں تو وہاں نہ جایا جائے، اگر وہاں پہلے سے موجود ہوں تو ہٹ جایا جائے۔ اگر غلطی سے وہاں پہنچ جائیں یا وہاں سے ہٹنے کی بات ذہن سے نکل جائے تو احساس ہوتے ہی وہاں سے ہٹ جائیں۔

 اگر ایسا نہ کیا بلکہ ان کی باتوں سے متاثر ہوگئے یا مفادات کو سامنے رکھ کر ان کی باتوں میں ہاں میں ہاں ملا دی تو ایساکرنا نفاق ہے اور ایسا  کرنے والے بھی ان ہی کی طرح ہوجائیں گے۔ اس لئے ان دونوں کا انجام بھی ایک جیسا ہوگا۔” اللہ منافقوں اور کافروں کو جہنم میں ایک جگہ جمع کرنے والا ہے”۔ اگران کے ساتھ رہتے ہوئے ان کی ہاں میں ہاں تو نہ ملائی لیکن شرماحضوری میں خاموش رہے تو غلط کام کرنے والوں کو اپنی غلطی کا احساس ہونے کے بجائے انہیں حوصلہ ملے گا۔ وہ اہل ایمان کی خاموشی کو اپنے لئے تائید تصور کریں گے۔ اس کے برخلاف اہل ایمان  کی طرف سے اس موقع پر ترکی بہ ترکی جواب اور احتجاج  سےبات  فتنہ وفساد کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔ ایسی صورت میں اہل ایمان کو حالات سے رنجیدہ ہونے، متاثر ہونے، بے توجہی برتنے کی جگہ اپنی توجہ اور توانائیاں "جب تک کہ لوگ کسی دوسری بات میں نہ لگ جائیں” پر صرف کرنی چاہئے۔ باتوں کے رخ کو بدلنے کی کوشش کرنی چاہئے، اس بات کی کوشش کرنی چاہئےکہ موضوع بدلے۔ موقع کی تلاش میں رہنا چاہئے جب موقع مناسب ہو تو بہت ہی سنجیدگی، مثبت سوچ وعمل کے ساتھ لوگوں کے سامنے سچ اور حق کو پیش کرناچاہئے اور ان کی غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس سے یقیناً حالات بدلیں گے اور ملک کے لوگوں کے دل بدلیں گے، دلوں سے نفرتیں دور ہوں گی اور انسانیت پھلے پھولے گی۔ یہ آیات بتا رہی ہیں کہ  اہل ایمان میں سے ہر ایک  کے لئے یہ کام اختیاری نہیں لازمی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔