قرآن مجید کا فلسفئہ "اعتدی”  

قمر فلاحی

اللہ سبحانہ تعالی نے حرام اور حلال کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ دی ہے ،دین کو جاننے اور سیکھنے کا مطلب اسی لائن کو جاننا اور سیکھنا ہوتا ہے ۔اسی لائن کو کراس کرنا اور پھلانگنا اعتدی کہلاتا ہے ،قرآن مجید میں اس جرم کو بڑا سنگین بتایا گیا ہےاس لئے اسے جاننا بیحد ضروری ہے۔

اعتدی میں شامل امور

غیراللہ کو گالیاں نہ دو کہ یہ حدود اللہ کو پھلانگنا ہے ،اس کی وجہ سے غیر اللہ کے پرستار بھی اللہ کو گالیاں دیں گےحد کو پھلانگتے ہوئے ان جانے میں ۔

وَلا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ كَذَلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ مَرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (الانعام ۱۰۸۔)

اللہ تعالی کی آیات کے بدلے تھوڑی قیمت قبول کر لینا،اللہ تعالی کے راستے سے روکنا،مومن کےمعاملے میں قرابت کا خیال نہ رکھنا،اور عہد و پیماں کا خیال نہ کرنا یہ سب اعتدی میں شامل ہیں ۔

التوبہ ۱۰: اشْتَرَوْا بِآيَاتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلا فَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِهِ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (9) لا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلا وَلا ذِمَّةً وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُعْتَدُونَ (10)

جس چیز کو اللہ تعالی نے حلال کر رکھا ہے اسے اپنے اوپر حرام کر لینا یہ بھی حدوداللہ کو پھلانگنا ہے۔ المائدہ ۸۷۔يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ وَلا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ

اپنی نگاہوں کو نہ پھیلائو دنیا کی خوبصورتی کی خواہش میں ۔ یعنی جتنی خوبصورتی تمہارا مقدر ہے وہ تمہیں مل کر رہنے والی ہے،اور جتنی خوبصورتی تمہیں حاصل کرنی ہے وہ تمہیں بتایا جاچکا ہے اب اس سے زیادہ کی طلب کرنا اعتدی یعنی لائن کراس کرنا ہے ۔ الکھف ۲۸۔

اور ہم نے یہود سے کہا کہ’ سبت ‘یعنی سنیچر کو عبادت کے دن کے طور پر بنانے سے متعلق لائن مت کراس کرو۔ ہم  نے عبادت کیلئے کوئ مخصوص دن نہیں بنایا ہے لہذا تم ایسا نہ کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر یہودیوں نے لائن کراس کیا اور ایک دن عبادت کیلئے خاص کرلیا مگر اسے نبھا نہ سکے ۔

النساء ۱۵۴۔ وَرَفَعْنَا فَوْقَهُمُ الطُّورَ بِمِيثَاقِهِمْ وَقُلْنَا لَهُمُ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُلْنَا لَهُمْ لا تَعْدُوا فِي السَّبْتِ وَأَخَذْنَا مِنْهُمْ مِيثَاقًا غَلِيظًا

عادیتم کے معنی دشمنی بھی ہے اس لئے کہ اگر جانبین اللہ کی بتائ ہوئ حد میں رہیں تو دشمنی پیدا ہی نہ ہوگی۔ الممتحنہ ۷۔

اللہ کی حدوں کو پھلانگنے والا ظالم ہے [ظلم شرک کو کہتے ہیں ] البقرہ ۲۲۹۔

معتدین سے مومن کا رویہ

اگر کوئ ظلم کرے [اعتدی] کرے تو اتنا ہی بدلہ لیا جاسکتاہے اس سے زیادہ نہیں ۔ورنہ یہ بھی ایک ظلم ہوجائیگا۔البقرہ ۱۹۴۔

کسی شخص کا اپنی بیوی کو تکلیف پہونچانے کی وجہ سے روک رکھنا یہ اعتدی ہے ۔البقرہ ۲۳۱۔

کسی قوم کی دشمنی اس حد تک کہ ہو کہ وہ تمہیں مسجد حرام سے بھی روک دے، تمہیں غصہ نہ دلا دے کہ تم اللہ کی حد کو کراس کر جائو ۔اس وقت بھی حدود اللہ کا خیال مومنوں کیلئے لازم ہے۔

المائدہ ۲۔وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَنْ صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَنْ تَعْتَدُوا وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ

معتدین کی سزا

اللہ تعالی معتدین سے خوب واقف ہے۔الانعام ۱۱۹۔

اللہ تعالی معتدین کے دلوں پہ مہر لگادیتا ہے۔

یونس ۷۴۔ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِهِ رُسُلا إِلَى قَوْمِهِمْ فَجَاءُوهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا بِمَا كَذَّبُوا بِهِ مِنْ قَبْلُ كَذَلِكَ نَطْبَعُ عَلَى قُلُوبِ الْمُعْتَدِينَ

اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور آہستگی سے یقینا اللہ تعالی معتدین کو محبوب نہیں رکھتا۔ البقرہ ۱۹۰۔

اللہ اور اسکے رسول کی نافرمانی کرنے والے،اور اللہ کی حدود کو پھلانگنے والے جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ النساء ۱۴۔[یہاں سے بھی اعتدی بمعنی شرک اور ظلم  کا مفہوم نکلتاہے کیوں کہ ہمیشگی کا جہنم مشرکین کیلئے ہی ہے]

اعتدی کرنے والوں کیلئے ‘عذاب الیم ‘ دردناک عذاب ہے ۔البقرہ ۱۷۸۔

اللہ تعالی کی آیات کا انکار،نبیوں کو قتل کرنا،اس وجہ سے تھا کیوں کہ وہ انکاری اور حدوں کو پھلانگنے والے تھے ۔[یہود] اور اس کی سزا انہیں یہ ملی کہ ذلت ومسکنت ان کے ساتھ چپکا دی گئ اور انہیں اللہ کا غضب ملا۔

البقرہ ۶۱۔ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ (61)

تبصرے بند ہیں۔