عابد معز بحیثیت کالم نگار

حکیم نازش احتشام اعظمی

عابد معز(سید خواجہ معزالدین، پیدائش1955)اردو، ہندی، عربی، انگریزی اور تیلگو زبان میں مہارت رکھنے کے ساتھ ساتھ وہ ایک اچھے طبیب کی حیثیت سے مشہور و معروف ہیں۔  ان کی کتابوں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ طب کی باریکیوں سے واقفیت کے ساتھ ساتھ زبان و ادب سے غیر معمولی لگاؤ ہے۔ طنز و مزاح نگار کی حیثیت سے اردو دنیا میں عابد معز کی ایک شناخت ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے ایک کالم نگار کی حیثیت سے بھی میدان صحافت میں اپنا پرچم لہرایا۔ ان کے کالم کو قارئین نے خوب سراہا۔ ان کے کالموں کا ایک مجموعہ’بات سے بات‘کے نام سے 2012میں منظر عام پر آیا۔ دوسرا مجموعہ’پھر چھڑی بات‘ دوسال بعد(2014) شائع ہوا۔ سر دست موضوع گفتگو آخر الذکر کتا ب ہے۔

  عابد معز نے کالم لکھنے کی شروعات عرب دنیا کے ہفت روزہ ’اردو میگزین‘سے1999میں کی۔ ’بات سے بات‘عنوان کے تحت وہ تواتر کے ساتھ کالم لکھتے رہے۔ ان کے کالم کی مقبولیت کے سبب روزنامہ’اعتماد‘ (حیدرآباد) کے ذمہ داران نے خواہش ظاہر کی کہ ’اعتماد ‘کے لیے بھی کالم لکھیں۔  لہذا عابد معز نے ’پھر چھڑی بات‘ کے عنوان کے تحت وہ ہر ہفتہ پابندی کے ساتھ کالم لکھتے رہے۔ یہ سلسلہ 2008کے اوائل تک جاری رہا۔ بعض وجوہات کی بنا پر اس کے بعد انھوں نے اعتماد کے لیے کالم لکھنا چھوڑ دیا۔

عابد معز کے لیے یہ یقیناً بہت مشکل کام تھا کہ ہر ہفتے دو کالم لکھا جائے۔ لہذا انھوں نے کبھی کبھی ایک ہی کالم دونوں جگہ اشاعت کے لیے بھیج دیتے تھے۔لیکن ایسا کم ہوتا تھا جب دونوں جگہ ایک ہی کالم چھپتا تھا۔ ’پھر چھڑی بات‘ میں کل گیارہ حصوں میں 68کالم کو یکجا کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ عرض مصنف کے عنوان سے عابد معز کا تین صفحے پر مشتمل ایک چھوٹا سا مضمون ہے۔ جس کوپڑھ کر کتاب سے قارئین کسی حد تک متعارف ہو جاتے ہیں۔  اس کے بعد ڈاکٹر محسن جلگانوی کا ایک مضمون’عابد معز کی کالم نگاری‘شامل کتاب ہے۔ عابد معز نے اس مجموعہ میں اپنے کالموں کو موضوع کے لحاظ سے منقسم کیا ہے۔انھوں نے ہر موضوع پر مشتمل کالموں کی ابتدا میں چند سطروں میں موضوع کی وضاحت کر دی ہے۔ جیسے انھوں نے ’شخصیات‘ کے تحت اپنے کالموں کوایک حصے میں رکھا ہے۔ اور ابتدا میں لکھا ہے’شخصیات مختلف ہوتی ہیں۔  شخصیات عام اور خاص ہوتی ہیں۔ بعض شخصیات ہمیں پسند آتی ہیں اور بعض شخصیات سے ہم دور رہنا پسند کرتے ہیں۔  شخصیات ادیبوں کا محبوب موضوع بھی رہا ہے۔ ادیبوں نے شخصیات پر خاکے لکھے، ان کا تعارف کروایا اور ان پر بھر پور مضامین بھی قلمبند کیے ہیں۔ میں نے بھی عام اور خاص شخصیات پر اپنے انداز سے چند مرتبہ کالم لکھا ہے۔‘(25)عابد معز نے جند جملوں میں شخصیات کا تعارف پیش کیا ہے۔اس موضوع کے تحت کل سات کالم ہیں۔  جن میں ’وی آئی پی وقت برباد کرتے ہیں ‘ کئی اعتبار سے کافی اہم ہے۔ کیونکہ یہ ایک بہت تلخ حقیقت ہے، لیکن عام طور پر لوگ مصلحت کا شکار ہو جاتے ہیں اور اپنے خیالات کو اظہار کرنے میں کوتاہی برتتے ہیں،  لیکن عابد معز کے کالموں کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مصلحت کا شکار نہیں ہوتے، بلکہ جو بھی وہ محسوس کرتے ہیں اسے صفحۂ قرطاس پر اتار دیتے ہیں۔ شاید یہی ان کی صاف گوئی ہے، جس کے سبب لوگ ان کے کالم کو پسند کرتے ہیں۔  اس کالم کے ابتدا میں ہی لکھتے ہیں :

’’جی ہاں ! وی آئی پی وقت برباد کرتے ہیں۔  وی آئی پی وہ ہیں جو عوام یعنی عام نہیں ہوتے، خال خال ہوتے ہیں اور جن کی عوام قدر کرتے ہیں۔  ان سے ملنے کی تمنا رکھتے ہیں اور ان کی آؤ بھگت کرتے ہیں،  لیکن بدلے میں وی آئی پی وقت خراب کرتے ہیں۔  اپنا نہیں دوسروں کا۔ وی آئی پی بہت مصروف رہتے ہیں اور ان کے پاس اہم کاموں کے لیے وقت نہیں ہوتا تو بھلا برباد کرنے کے لئے وقت کہاں سے آئے گا۔ اس لیے وہ ہمارے وقت پر ہاتھ صاف کرتے ہیں۔  جو جتنا زیادہ وی آئی پی ہوگا وہ اتنا زیادہ دوسروں کا وقت برباد کرتا ہے۔‘‘(پھرچھڑی بات۔ عابد معز۔ھدی پبلی کیشنز، حیدرآباد۔2014،ص، 25)

عابد معز نے جس پس منظر میں اپنی بات کہی ہے، اگر اس پر غور کیا جائے تو اس سے کتنی باتوں کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ یہ بالکل حقیقت ہے کہ ایک آدمی کا ہزاروں کی تعداد میں لوگ انتظار کرتے ہیں،  لیکن وہ شخص ہزار لوگوں کے وقت کو بے وقعت سمجھتا ہے، اس کابین ثبوت یہ ہے کہ طے شدہ وقت پر یہ ’بڑے‘ لوگ کبھی نہیں آتے، لیکن اس کے بر عکس اگر کسی محفل میں لوگوں کی تعداد کچھ کم ہوگئی تو اس کا انجام کتنا سنگین برآمد ہوتا ہے، اس کا سامنا صرف منتظم ہی کرتا ہے۔ جو عوام منتخب کرتی ہے، اسے ہی قطار میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ کسی شہر میں کسی وی آئی پی کی آمد سے عام لوگوں کو کس مصیبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کا اندازہ وہی کر سکتا ہے، جو کبھی ان مصائب سے دو چار ہوا ہو۔ کئی کئی گھنٹے شہر میں گاڑیوں کی آمد ورفت روک دی جاتی ہے، صرف ایک شخص کی آمد کے لیے۔عابد معز نے بہت ہی خوبصورت پیرائے میں انھیں باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے یا یوں کہیں تو زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی بات کہی ہے۔ اسی طرح سے انھوں نے اپنے ایک کالم’ووٹ بٹورنے کے لیے وعدے ہی وعدے‘میں ان لوگوں پر خوب طنز کیا ہے، جو انتخابات میں امیدوار اپنی تقریروں میں کرتا ہے۔ لکھتے ہیں :

’’ سیاسی جماعتوں اور امید واروں کے درمیان انتخابی وعدوں کا جیسے مقابلہ ہوتا ہے۔ وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے ایک سے بڑھ کر ایک وعدہ کرتے ہیں۔  ایک پارٹی نے تین روپے کلا چاول کا وعدہ کیا تو دوسری پارٹی نے کہا کہ دو روپے کلو چاول فراہم کرنے کا ہمارا سابقہ وعدہ اب بھی بر قرار ہے۔ ایک نئی پارٹی نے جو اس انتخابات سے سیاست میں داخل ہو رہی ہے جدت کی۔ ’ہم پکا پکایا کھانافراہم کریں گے۔‘ ایک جماعت نے رنگین ٹیلی ویژن فراہم کرنے کا وعدہ کیا تو دوسرے نے کہا کہ ہم نہ صرف کمپیوٹر دیں گے بلکہ کمپیوٹر چلانا بھی سکھائیں گے۔ ایک پارٹی نے مفت تعلیم کا وعدہ کیا تو دوسری نے تعلیم کے ساتھ نوکری دینے کا اعلان کیا۔‘‘ (ایضا۔ص، 105)

عابد معز نے درج بالا کالم میں انتخاب سے پہلے جب ہمارے سیاسی لیڈران تیاری میں لوگوں سے خطاب کرتے ہیں،  اس کا بہت خوبصورت منظر پیش کیا ہے۔ سچ بات یہ ہے کہ جب ہم کسی بھی سیاسی جماعت کے لیڈرسے گفتگو سنتے ہیں تو ایسا لگتاہے کہ واقعی ہمارے سماج کا یہ مسیحا ہے، اور وقتی طور پر ان کی اس طرح کی گفتگواچھی بھی لگتی ہیں،  کیونکہ اس میں امکانی صورت نظر آتی ہے۔ لیکن الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے بعد کا جو فرق ہے وہ اتنا ڈراونا ہوتاہے کہ اگر ہم سابقہ کارکردگی کو پیش نظر رکھیں توووٹ دینے کی ہمت نہ کر سکیں۔  لیکن ہر الیکشن میں ایک امید کی کرن ہوتی ہے، اسی کرن سے باغ کو گل وگلزار کرنے کا ایک خواب دیکھا جاتا ہے، اور ہمارے یہ سیاسی لیڈران کس بے دردی سے معصوم لوگوں کے جذبات سے کھلواڑ کر جاتے ہیں۔

 عابد معز کے کالم کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی بات کو بہت خوبصورت انداز میں قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔ انھوں نے جس موضوع پر بھی لکھا ہے، وہ نہ صرف اپنے موضوع کے اعتبار سے کافی اہم ہیں،  بلکہ اپنے نظریے اور انداز گفتگو کے اعتبار سے بھی کافی اہم ہیں۔  کیونکہ انھوں نے اپنے کالم کے ذریعے حالات حاضرہ پر بہت غیر جانب دارانہ تبصرہ کیا ہے۔ عابد معز نے ’کرکٹ‘کے موضوع پر جو چند کالم لکھے ہیں،  اس سے اندازہ ہوتا کہ عابد معز نہ صر ف حالات حاضرہ پر گہری نگاہ رکھتے ہیں،  بلکہ دور اندیشی کا عالم یہ ہے کہ کس کا نتیجہ مستقبل میں کتنا نقصاندہ ہے، اس کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔  ظاہر ہے کہ ایک کالم میں اتنی گنجائش نہیں ہوتی ہے کہ سارے پہلو پر تفصیل سے گفتگو کی جائے، اسی لیے بہت سارے حصے پر کالم نگار یوں ہی سرسری گزر جاتا ہے، لیکن اس طرح کے چند جملے کتنے معنی خیز ہوتے ہیں،  اس کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جو اس پس منظر سے واقف ہوگا۔اس کا واضح ثبوت ہمیں ’نئے سال کی مبارکباد‘کے موضوع پرلکھا ہوا ان کا کالم پڑھ کر معلوم ہوتا ہے۔ یہ بالکل سچ ہے کہ نئے سال میں تعداد (گنتی) کے علاوہ کیا نیا ہوتا ہے۔ اس کے لیے لوگ جشن مناتے ہیں،  اور نئے سال کی آمد اپنے لیے خیر وبرکت کا ذریعہ تصور کرتے ہیں،  لیکن یہ تصور نئے سال ہی کے موقع پر کیوں ؟ نئے دن کے ساتھ کیوں نہیں ؟ کیا ہمیں اپنے تعلق سے اچھے خیالات کے لیے،  اچھی امید کے لیے نئے سال کا انتظار کرنا ہوگا۔ اس پورے پس منظر کی ترجمانی عابد معز کا ذکر بالا کالم بخوبی کرتا ہے۔

  بحیثیت مجموعی کہا جا سکتا ہے کہ عابد معز نے اپنے کالم کے ذریعے حالات حاضرہ پر بہت اچھے انداز میں تبصرہ کیا ہے۔ زبان و بیان کے اعتبار سے بھی ان کے کالم بہت دلچسپ ہیں۔  طنز و مزاح سے ان کا جو تعلق ہے، اس کا ثبوت جگہ جگہ عابد معز نے اپنے کالم میں دیا ہے۔ پیشے سے ایک طبیب، جب سماج کی نبض پر گفتگو کرتا ہے تو اندازہ ہوتا ہے، وہ ایک ایسے سماج،  ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کا خواہاں ہے، جہاں لوگ ایک دوسرے سے مل جل کر رہیں،  جہاں لوگ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے جھوٹ نہیں،  سچ کا سہارا لیں۔ زندگی کو خوابوں میں نہیں،  حقیقت میں خوش حال بنا کر زندگی گزر بسر کریں۔  گویا کہ وہ سماج کی تشکیل نو میں لوگوں کابھر پور حصہ چاہتے ہیں۔  سماج کا جو بھی خیر خواہ ہوگا وہ یہی چاہے گا۔ عابد معز نے کالم کے ذریعے اپنی بات لوگوں تک پہنچائی ہے۔ بحیثیت کالم نگار ان کی شناخت نہ صرف ہندوستان میں ہے، بلکہ عرب دنیا بھی ان کے افکار و خیالات سے مستفید ہوتی رہی ہے، اور یہ سلسلہ کسی نہ کسی اعتبار سے اب بھی جاری و ساری ہے۔ اس لیے کہاجا سکتا ہے کہ عابد معز نے اپنے کالم کے ذریعے میدان صحافت میں اپنا غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔جہاں سماج بھی ہے، عوام بھی ہے، اور لوگوں سے جڑی ہوئی وہ ساری باتیں ہیں،  جس سے ہم کسی نہ کسی اعتبار سے آئے دن دوچار ہوتے رہتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔