عالمی یوم بچیاں

ڈاکٹر سیّد احمدقادری

ان دنوں اپنے ملک اور بیرون ممالک میں بے زبان، معصوم بچیوں کے ساتھ جیسے جیسے گھناونے، وحشیانہ اور غیر انسانی فعل ہو رہے ہیں، ایسے میں ہر حساس ذہن یہ سوچنے پر مجبور ہو رہا ہے کہ ہم کس سماجی عہد میں جی رہے ہیں۔ کیا ہم پھر اس دور میں پہنچ گئے، جب حیوان اور انسان میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ راجستھان میں چھہ ماہ کی بچی سے زنا ہو رہا ہے؟ گجرات میں چودہ ماہ کی بچی کو ہوس کا نشانہ بنایا گیا۔ مظفر پور کے شیلٹر ہوم میں معصوم بچیوں کے ساتھ سیاست داں عیاشیاں کر رہے تھے، انکار کئے جانے پر ان بچیوں کی بے رحمانہ پٹائی بلکہ قتل تک کرنے سے بھی گریز نہیں کیااور قتل کرنے کے بعد رات کے اندھیرے میں ان بچیوں کو دفن کر دیا۔ ابھی ابھی اس جگہ دفن کی گئی بچیوں کے جسم کے باقیات سی بی آئی نے برآمد ا  کئے ہیں۔ بہار ہی کے ہی تروینی (سپول)  میں چھیڑ خانی کی مخالفت کئے جانے کی پاداش میں  بے گناہ اور معصوم بچیوں کواس بے دردی سے انھیں پیٹا گیا، کہ کئی بچیوں کو علاج کے لئے اسپتال میں داخل کرانا پڑا۔ ایسے بڑھتے جرائم اور ظلم و تشدد پر ابھی ابھی ہمارے ملک  کے سپریم کورٹ نے حکومت کو سخت پھٹکار لگاتے ہوئے ان سے یہ سوال کیا ہے کہ’ ملک میں یہ کیا ہو رہا ہے ؟  آپ اس طرح بچوں کے ساتھ ایسا سلوک کیسے کر سکتے ہیں۔ یہ آجکل روزانہ کا مسئلہ بن گیا ہے۔ ‘

ایسے ظالمانہ پر تشدد واقعات اور سانحات  کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر بچیوں کو بااختیار بنانے  اور ان کے مسئلوں کے تدارک کے لئے ترکی، کینیڈا اور پیرو کی کوششوں سے اقوام متحدہ کی جنرل کونسل نے 2012 ء میں بین الاقوامی سطح پر ہر سال 11 ؍اکتوبر کو عالمی یوم بچیاں منانے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن افسوس کہ جن مقاصد کے حصول  اور مسئلہ کے تدارک کے لئے اقوام متحدہ نے اتنا اہم فیصلہ کیا تھا، وہ مقاصد پورا ہونا تو دور بچیوں کے ساتھ ظالمانہ رویئے میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ اتفاق سے اقوام متحدہ کا سال 2018ء کا موضوع ہے ’ لڑکیوں کو با اختیار بنانے کے لئے ہنگامی اور عملی اقدامات کی ضرورت ‘۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس موضوع سے متعلق کس قدر کامیابی ملتی ہے۔

اس تناظر میں نابالغ بچیوں پر ہونے ظلم و ستم پر ایک نظر ڈالیں تو ہمیں بے حد چونکا دینے والے حقائق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم اس امر سے انکار نہیں کر سکتے کہ افراد سے خاندان بنتا ہے اور خاندان سے سماج کی تشکیل ہوتی ہے اور کسی بھی خاندان میں کوئی بھی برائی خواہ اس کی وجہ،جو بھی ہو، جگہ پاتی ہے تو اس کے منفی اثٖرات پورے سماج پر پڑتے ہیں، جس سے قوم و ملک کو دیر پا نقصان ہوتا ہے۔ زمانہ قدیم سے دور جدید تک ایسی بہت ساری سماجی برائیاں رہی ہیں، جن سے ہمارے معاشرے کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا  پڑاہے اور مذید ہم ابھی بھی ان سے نبرد آزما ہیں۔ ایسی برائیاں عام طور جہالت کی دین ہوتی ہیں اور جیسے جیسے تعلیم کا فروغ ہوتا ہے، فہم و فراست پیدا ہوتاہے اور شعور بے دار ہوتا ہے، ایسی برائیاں ختم یا کم ہوتی چلی جاتی ہیں۔ خواہ وہ بچیوں کی پیدائش کے بعد زندہ دفن کر نے کی روایت ہو یا پھر شوہر کی وفات کے بعد بیوی کو زندہ، شوہر کی چتا پر جلا دینے پر مجبور کئے جانے کا رسم و رواج ہو۔ لیکن دھیرے دھیرے بعض سماجی کارکنوں اور ان کی تحریک سے ایسے لوگوں کو یہ بات سمجھ میں آئی کہ ایسے غیر انسانی عمل کسی بھی طرح مذہبی نہیں ہو سکتے ہیں، اس لئے ایسی برائیاں  بتدریج دور ہوتی گئیں۔ ختم ہو گئیں، میں اس لئے نہیں کہونگا کہ اب بھی کبھی کبھار کہیں نہ کہیں سے دور جہالت کی یاد دلا دینے والے سانحات سامنے آہی جاتے ہیں۔

ایسی ہی چند سماجی برائیوں میں ایک برائی دور جہالت سے چلی آ رہی ہے، وہ ہے نابالغ بچوں کی شادی کی رسم و رواج  یا روایت۔ یہ ایسی سماجی برائی ہے، جس کی بہت ساری وجوہات ہیں اور یہ برائی صرف ہمارے ملک میں ہی نہیں بلکہ یہ مسئلہ بین الاقوامی بنا ہو اہے۔ اقوام متحدہ کے، بچوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنے والے ادارہ یونیسیف نے جہاں ایک طرف اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ ایک دہائی کے اندر عالمی سطح پر تقریباََ  25 ملین کم عمر کی شادیات کو روکا گیا ہے، جن میں سب سے زیادہ جنوبی ایشیأ میں ایسی شادیوں کو روکا گیا، یہاں  18 برس سے کم عمر کی شادیوں کی شرح 50 فی صد سے کم ہو کر اب 30 فی صد تک رہ گئی ہے۔ وہیں کم عمری کی شادی کے خلاف کام کرنے والی ایک امریکن تنظیم  تھامسن روئٹر ز فاؤندیشن نے اپنے ایک تجزیہ میں یہ بتایا ہے کہ عالمی سطح پر تقریباََ  12ملین تک 12 سال سے کم عمر کی لڑکیوں کی شادی کر دی جاتی ہے۔ ایسی سماجی تنظیموں اور دیگر اداروں کے مسلسل مطالبہ پر اقوام متحدہ نے بھی کمسنی کی شادیات سے ان نابالغ، ناداراور معصوم  بچوں پر پڑنے والے دیر پا مضر اور منفی اثرات کے باعث ایسی شادیوں کے مکمل خاتمے کے لئے 2030 ء تک ہدف رکھا ہے۔ اس کے لئے کئی پروگرام مرتب کئے گئے ہیں۔ کوالمپور میں اس مسئلہ کے تدارک کے لئے 70 ممالک میں تقریباََ پانچ سو مندوبین نے شرکت کی ہے۔ گزشتہ  2مئی  2018 ء  کو  اندونیشیا  میں شرعی عدالت کی اجازت لے کر ہونے والی دو جوڑی کمسنوں کی شادی پر یہاں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کافی مذمت کی جا رہی ہے۔ یہاں تک کہ اس ملک میں بھی  ’’ چائلڈ میرج‘‘ پر پابندی  لگانے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔

  یہ تمام باتیں ایسی ہیں جو یہ  انتباہ کرتی ہیں کہ کم عمری کی شادی، خواہ جس وجہ کر ہو، غربت و افلاس ہو یا مذہبی رسم ورواج کی بندش ہو یا پھر کوئی بھی دوسری وجہ، بہرحال یہ سماج اور قوم و ملک کے لئے دیر پا مضر اور منفی نتائج مرتب کرنے والا عمل ہے۔ ایک کم عمر کی بچی، جس کے کھیلنے کودنے، پڑھنے لکھنے اور آزاد فضاؤں میں کلکاریاں بھرنے کے دن ہوتے ہیں۔ اسے شادی بیاہ، شوہر اس کی مردانگی، اس کی موت اور اس کی موت کے بعد کے اثرات کا کچھ بھی اندازہ نہیں ہوتا ہے اور اسے شادی کے بندھن میں باندھ دیا جاتا ہے، ساتھ ساتھ ہی اس پر طرح طرح کے پہروں اور قید و بند میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ وہ ٹھیک سے سن بلوغت کو پہنچ بھی نہیں پاتی ہے کہ اس کا عمر دراز شوہر اس کے جسم و جان سے کھیلنا شروع کر دیتا ہے۔ اپنی جنسی بھوک کو مٹانے کے لئے اس بچی کے احساسات وجذبات، اس کے درد و کرب کو بھی سمجھنے کو تیار نہیں ہوتا۔ ایسی کم عمر کی بچیوں سے شادی عام طور پر اب بچی کے والدین اپنی تنگ دستی، غربت و افلاس سے مجبور ہوکر اور اپنی بیٹی کے بظاہر بہتر مستقبل کے لئے ایسے دولت مند یا پھر جنسی ہوس مٹانے والوں کو سونپ دیتے ہیں۔ ایسے بھی واقعات سامنے آئے ہیں کہ ایسی غریب بچّی، جس کی زبردستی دولت کی لالچ میں شادی کر دی جاتی ہے۔ ایسی بچی کے جوان ہونے سے قبل ہی اس کی جوانی اور جنسی لذّت کا سودا شروع ہو جاتا ہے۔ ایسے  ناگزیر حالات سے گزرتے ہوئے اس بچی کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنی زندگی کو دکھ درد و کرب، گھٹن اور استحصال کے آگے سپر ڈال دے۔ مزاحمت اور احتجاج کی اس کے پاس کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور وہ  استحصال کرنے والوں کے رحم وکرم پر یعنی دو وقت کی روٹی کے لئے جینے پر مجبور ہو تی ہے۔ ایسی بچّیوں کے لئے روشنی کے سارے روزن بند ہو جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں گھٹ گھٹ کر مرنے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا  اور آخر کار ایک دن وہ بے وقت موت کے اندھیرے میں گم ہو جاتی ہے۔ اس بچی کی موت ہو جاتی ہے تو ایک طرح سے اچھا یہ ہوتا ہے کہ وہ بہت سارے مصیبتوں اور درد و کرب سے نجات پا جاتی ہے۔ لیکن اگر بچّی کے شوہر کی شادی کے کچھ دنوں بعد کسی بیماری یا کسی حادثہ کی وجہ کر موت واقع ہو جاتی ہے، توآپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اس بچّی کے ساتھ کیسا کیسا  نارواسلوک خود اسکے گھر والے یا سسرال والے اپنے غلط مذہبی رسم و رواج کو پورا کرنے کے لئے کرتے ہیں۔

نابالغ بچوں کی شادی ایک سماجی برائی کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے اور اس کا احساس ہمیشہ سے سماج کے تیئں مثبت سوچ اور فکر رکھنے والوں کو رہا ہے ۔ لیکن افسوس کہ بعض خاندان اس طرح  ایسی سماجی برائی اور مذہبی روایت کے (بے جا)اصولوں میں جکڑے ہوتے ہیں کہ انھیں اس کے منفی اثرات کا احساس ہی نہیں ہوتا ہے۔ غربت و افلاس کی مجبوری کے باعث کی جانے والی ایسی شادیات کو استحصال کے زمرے میں رکھتے ہوئے ایسی شادی کے منفی اثرات اور برائیوں کو اجاگر کرنے کے لئے 2005 ء میں پروڈیوسر، ڈائریکٹر دیپا مہتا نے ایک فلم جون ابراہم جیسے معروف ایکٹر کو لے کر بنائی تھی، جس کا نام ’’واٹر‘‘ تھا۔ اس فلم کی شوٹنگ  کے دوران ہی بعض کٹر مذہبی اور دقیانوسی خیالات کے حامل افراد نے کافی شور مچایا تھا، احتجاج اور مظاہرے بھی اس فلم کی کہانی کے خلاف ہوئے تھے۔ پھر بھی دیپا مہتا نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بعض حقائق پر مبنی یہ فلم بنا ئی تھی۔ اتفاق سے میں نے امریکہ میں فرصت کے دوران یہ فلم دیکھی تھی اور یقین جانئے کی اس فلم کو دیکھنے کے بعد میں کئی رات تک چین کی نیند نہیں سو سکا تھا۔ بار بار میرے ذہن کے پردے پر وہ پانچ چھ سال کی نٹ کھٹ، شوخ اور چنچل سی ننھی منّی بچّی آ جاتی اور لگتا کہ وہ ہم سے سوال کر رہی ہے کہ بتاؤ، میرا قصور کیا ہے۔ اس فلم میں ایک غریب ومجبور باپ اپنی بچّی کی شادی اس کی کفالت اور بہتر مستقبل کے لئے ایک بڑی عمر کے جوان سے کر دیتا ہے، لیکن کچھ دنوں بعد ہی وہ نوجوان بیمار پڑتا ہے اور اس کی موت ہو جاتی ہے۔ وہ بچّی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ مرنے والا شخص کون ہے، اس سے اس کا کیا رشتہ ہے اور اس وقت اسے کیا کرنا چاہئے۔ وہ سب کچھ حیرت و استعجاب بھری نطروں سے دیکھتی ہے، اسے کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے۔ مرنے والے نوجوان کے آخری رسومات کے بعد اس  بچّی کا سر مونڈ دیا جاتا ہے، اس کا اچھا کھانا پینا بند کر دیا جاتا ہے اور ایک دن اس کا باپ اس بچّی کو لے کر بنارس آتا ہے، جہاں ایسی بیوہ ( ودھوا)ہونے والی بچّیوں کا ایک آشرم ہے۔ اس آشرم میں، جہاں ہر طرف گندگی،غلا ظت اور تعفن  بھرا پڑاہے۔ یہاں اس کا باپ اسے چھوڑنے آتا ہے۔ وہ بچّی اندر جاتی ہے اور تھوڑی ہی دیر بعد وہ باہر بیٹھے غم اور درد و کرب میں ڈوبے اپنے باپ کے پاس واپس آتی ہے اور کہتی ہے ’’ بابا ہم لوگ اب گھر چلیں ‘‘۔ جواب میں باپ اپنے درد و کرب  میں ڈوبی آواز میں کہتا ہے، نہیں بیٹی، اب تمہیں یہیں رہنا ہے، یہی اب تمہارا گھر ہے۔ اس درمیان ایک عورت اندر سے آتی ہے اور وہ، روتی، چلّاتی بچّی کو اندر لے جاتی ہے۔ یہ نٹ کھٹ، چنچل سی بچّی، جس کا  اب اپنے خاندان اورسماج سے کوئی رشتہ نہیں رہا۔ اسی آشرم میں اب اسے اپنی زندگی گزارنی ہے۔ یہ آشرم بظاہر ودھو ا( بیوہ )  ہونے والی بچّیوں اور عورتوں کے لئے ہے، لیکن دراصل یہ آشرم یہاں آنے والی ودھوا بچّیوں اور جوان لڑکیوں کے استحصال کا مرکز ہے۔ مذہب کے نام پر قائم ہونے والے اس آشرم میں ہر طرح کی برائیاں موجود ہیں۔ یہاں تک کہ بچّیوں کے جوان ہونے کے بعد ان کا جنسی استحصال کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے۔ اس آشرم میں رہنے والی بیواؤں کی کفالت کے نام پر جس طرح جوان لڑکیوں کا جنسی استحصال کو دکھا یاگیا ہے، وہ چونکاتا ضرور ہے، حیرت اس لئے نہیں ہوتی کہ ایسے آشرموں میں مذہب کے پس پردہ یہی سب کچھ ہو رہا ہے۔ اس فلم میں ایسی ہی ایک اداس اور بے جان آنکھوں والی نوجوان لڑکی ہے، جو آشرم کے قریب رہنے والے ایک دولت مند باپ کے، ایک سماج کے تیئں مثبت سوچ اور فکر رکھنے والے، کلکتہ سے لوٹنے والے بیٹے کی چاہت بن جاتی ہے۔ وہ  اسے اس دلدل سے نکال کر اس کی بہتر زندگی کے لئے اس سے شادی کے لئے بھی تیار ہو جاتا ہے۔ لیکن جب وہ لڑکی اس آشرم اور اپنی زندگی کے سچ کو دکھاتی ہے، تو وہ نوجوان حیرت و استعجاب کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے۔ یہ فلم یقینی طور پر سماج اور مذہب کے ٹھیکہ داروں کے کریہہ چہرے پر سے پردہ اٹھاتی ہے۔

 ہمارے سماج کے اندر ایسے غلط رسم و رواج گرچہ دھیرے دھیرے اور جیسے جیسے تعلیم کا فروغ ہو رہا ہے، ویسے ویسے کمی آرہی ہے۔ لیکن ختم نہیں ہو رہی ہے۔ ابھی ابھی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوا ہے۔ جس میں ریاست راجستھان کی ایک سات آٹھ سال کی ایک بچّی کی شادی 35 برس کے جوان کے ساتھ کی جا رہی ہے۔ اس ویڈیو میں یہ صاف نظر آ رہا ہے کہ وہ بچّی سات پھیرے بھی نہیں لے پا رہی ہے اور اسے ایک آدمی دونوں ہاتھوں سے اٹھا کر زبردستی پھیروں کے لئے مجبورکر رہا ہے۔ اب تصور کیجئے کہ اس بچی کو اپنی زندگی کے نشیب و فراز کا کوئی علم نہیں ہے۔ اسے علم کی دولت سے بھی محروم کر دیا جائے گا اور ابھی وہ سن شعور کو بھی نہیں پہنچ پائے گی کہ اس کا عمر دراز شوہر اس کا جسمانی استحصال شروع کر دے گا، جس کے نتیجہ میں اس بچّی کی بیماری، اس کا حاملہ ہونا، بے وقت حاملہ ہونے پراسقاط حمل، اور اسقاط حمل نہ ہو سکا تو پھر زچگی کے دوران موت کا خوف ہے۔

 ایسی سماجی برائی کے خلاف پوری دنیا میں اس وقت وعوام الناس کو بیدار کرنے اور ذہن سازی کی کوششیں مختلف سطحوں پر کی جارہی ہیں۔ مختلف تنظیمیں اور ادارے اس سلسلے میں متحرک ہیں۔ امریکہ کی ایسی ایک تنظیم Tahirih Justice centre کی Casey swegman   کم  عمر میں کی جانے والی شادیوں کے خلاف مسلسل متحرک اور سرگرم ہیں۔ دوسری جانب ’’ گرلز ناٹ برائڈز‘‘ نامی مہم کی ایک کارکن لکشمی سندرم کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ گرچہ ماحولیاتی تبدیلیوں اور دنیا میں بڑھتے ہوئے تنازعات ان کی کوششوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جس کے باعث اقوام متحدہ کے مقررہ حدف کو حاصل کرنے کے لئے  تبدیلیوں کے ایک سمندر کی ضرورت ہے۔ لکشمی سندرم نے یہ بھی کہا ہے کہ ایسی شادی کی ایک بڑی وجہ غربت کے ساتھ ہی ساتھ بین الاقوامی سطح پر بڑھتے تنازعات ہیں۔

 سماج کے اندر کوئی بھی برائی اچانک ختم نہیں کی جا سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کی کو ششوں سے ممکن ہے آج کے’ عالمی یوم بچیاں‘ کے سلسلے میں بچیوں کے مسئلہ کا تدارک ہو سکے اور بچیوں کو بہتر اور با وقار  زندگی  جینے کا حق میسر ہو۔

تبصرے بند ہیں۔