عالم اسلام کے انتشار کی بنیاد پر بنے گا اسرائیل عظمیٰ

ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی
صیہونیت کی جب تعریف بیان کی جاتی ہے تو کہاجاتا ہے کہ صیہونیت اس سیاسی تحریک کو کہتے ہیں جو یہودیت کے لئے ایک خود مختار اور آزاد مملکت کے قیام کی جدوجہد کرے اور جب ایسی مملکت عالم وجود میں آجائے تو اس کے تحفظ، بقاء، اور پھیلاؤکی کوشش کرے۔ اسی تعریف کے زمرے میں یہ بھی شامل ہے کہ ہزاروں سال سے یہودی آبادیاں موجودہ فلسطین (سابق کنعان، مصر) میں موجود رہی ہیں اس لئے اسی مقام پر ایک آزاد یہودی ریاست کا قیام عمل میں آنا چاہئے۔ جسے اسرائیل کہا جاسکے۔ یہ نظریہ پہلی بار 1890میں ایک یہودی صحافی ہرزل نے پیش کیا تھا۔ جس کی پذیرائی میں بہت سی یہودی تنظیموں اور تحریکوں کے ساتھ برطانوی استعمار نے بھی بہت زور شور کے ساتھ پیرو ی کی تھی اور نتیجے میں 1948میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے فوراً بعد 15مئی کو ایسی ایک آزاد، خود مختار یہودی ریاست کا قیام عمل میں آگیا جس کا نام اسرائیل رکھا گیا اور جو اسی مقام پر واقع تھا جہاں کبھی ہزاروں سال قبل یہودی آباد تھے اور اب وہاں فلسطینی مسلمان رہ رہے تھے۔ یہاں تینوں مذاہب یہودی، نصرانی اور مسلمانوں کے اہم ترین مقامات مقدسہ موجو د ہیں یعنی ہیکل سلیمانی بیت اللحم اور مسجد اقصیٰ۔
ایسا نہیں ہے کہ جس مقام پر آزاد یہودی ریاست کے قیام کو قبول کیا گیا وہ کوئی وادی غیر ذی زرع یا غیر آباد جنگل ہو یا خالی پڑی زمین ہو۔ بلکہ وہ ایک گنجان آباد مہذب، تاریخی اور معاشرتی اور معاشی اعتبار سے مضبوط ملک فلسطین تھا۔ فلسطین میں اسرائیل کا قیام فلسطینیوں کو وہاں سے بے دخل کئے بغیر ممکن ہی نہیں ہوسکتا تھا توپھر حقوق انسانی میں یقین رکھنے والی مہذب دنیا، جمہوریت اور برابری کی علمبرداردنیانے ایک ملک کے باعزت شہریوں کے قتل عام اور دربدر کی قیمت پر اسرائیل کے قیام کی اجازت کن بنیادوں پر دے دی؟ یہ ایک بڑا سوال ہے۔ اس سے وابستہ ایک دوسرا سوال بھی ہے اکثر کہا جاتا ہے کہ اسرائیل کا مسئلہ کوئی مذہبی مسئلہ نہیں ہے بلکہ حقوق انسانی کا مسئلہ ہے۔ خود فلسطینیوں کے بہت سے رہنما اسے ایک مذہبی معاملہ قرار دینے کی شدت سے مخالفت کرتے ہوئے اسے ایک قومی مسئلہ اور خود ارادیت کی جنگ سے تعبیر کرتے رہے ہیں۔ جب کہ فلسطینیوں کا ایک طبقہ اسے ایک مقامی سیاسی مسئلے کے ساتھ مذہبی مسئلہ بھی مانتا ہے۔ عالم اسلام کے بہت سے ممالک نے بھی اسے قومی مسئلہ ہی مانا ہے۔ مگر عوام کی قلبی جذبات فلسطینیوں کے ساتھ مذہبی طور پر زیادہ جڑے رہے ہیں گو کہ بہت سے کمیونسٹ ممالک نے فلسطینیوں کی حمایت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مگر وہ بھی محض اسی بنیاد پر کہ وہ اسے مذہبی معاملہ ماننے سے انکار کرتے رہے۔ یہیں یہ سوال اٹھتا ہے کہ جب یہودی رہنما خود اسے ایک مذہبی معاملہ قرار دیتے ہیں۔ اور ایک یہودی ریاست کی تشکیل کے لئے جدوجہد اور تحریک کا اعلان کر رہے ہیں تو باقی دنیا اسے مذہبی مسئلہ ماننے سے انکار کیوں کرتی ہے۔ اور اس مسئلے کو” یہودیت کے بجائے صیہونیت کا نام کیوں دیا جارہا ہے “۔ ظاہر ہے کہ دنیا کی دیگر تمام اقوام کی توجہ مبذول کرنے کی ایک کوشش ہے ایک طرف تو صیہونیت کی تعریف میں کھل کر یہ اعلان کیا جارہا ہے کہ صیہونیت کا مطلب ایک خو د مختار یہودی ریاست کی تشکیل ہے دوسری جانب اسے غیر مذہبی مسئلے کے طور پر پیش کیا جارہاہے ظاہر کہ لفظی پردوں میں چھپا کر اس خطے کے مسلمانوں اور اسلامی تحریکوں کے سرخیلوں کی آنکھ میں دھول جھونکنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اور مسلمان بھی آج بہت زور و شور سے پکارتے ہیں کہ فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے لئے یہودیت کو مورد الزام ٹھہرانا ٹھیک نہیں ہے۔ یہودی توبہت انصاف پسند ہیں ان کے اکثر لیڈر فلسطینیوں کے حق میں بیان دیتے رہے ہیں۔ اسرائیل کے مظالم کے خلاف کھل کر بولتے ہیں تو پھر پوری یہودی قوم کوکیوں مجرم کے کٹہرے میں کھڑا کردیا جائے۔ یہ تو صرف اسرائیلی صیہونی ہیں جو فلسطینیوں کا قتل عام کر کے ان کو در بدر کرتے ہیں۔ مگر یہاں ایک اور سوال بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر کیا صہیونیت کا یہودیت سے کوئی تعلق نہیں ہے تو پھر کیوں دنیا بھر کے تقریباً ڈیڑھ کڑوڑ یہودی نقل مکانی کر کے اسرائیل میں آکر اکٹھا ہوگئے۔ آج اسرائیل میں جو یہودی بستیاں بن رہی ہیں وہ بستیاں کن لوگوں کے لئے قائم کی جارہی ہےں؟
1890میں وہاں یہودی بستیاں نہیں تھیں۔ 1948میں بھی نہیں تھیں وہ تو اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد اس اعلان کے نتیجے میں نئی بستیاں بسی ہیں کہ دنیا بھر کے یہودی اسرائیل میں آآکر بس جائیں۔ اور یہی ہوا بھی جیسے جیسے یہودی اسرائیل پہنچتے گئے ویسے ویسے فلسطینی مسلمانوں کو کسی نہ کسی الزام کے بہانے بے گھر کیا جاتا رہا۔ ان کی بستیوں کو بمباری کے ذریعے زمین دوز کیا گیا۔ ان کو قتل عام کے ذریعے ختم کیا گیا۔ ان کو کیمپوں میں بھگایا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پڑوسی ممالک میں بے گھر فلسطینیوں کے بڑے بڑے سلم آباد ہوگئے۔ شام، جارڈن، لبنان وغیرہ ان مظلوم فلسطینیوں کی آبادیوں سے بھر ے پڑے ہیں۔ فلسطینی مسلمانوں کی دربدری اور قتل و غارت گری کی بنیاد پر نئی یہودی بستیاں آباد کی گئیں اور ساری دنیا یہ کہتی رہی اور کہتی ہے کہ یہ کوئی مذہبی معاملہ نہیں۔ فلسطینی قومیت کا مسئلہ ہے۔ خود مسلمان لیڈر ان کا بڑا طبقہ بھی ابھی تک اس خیال کا حامی ہے جب کہ کھلی حقیت یہ ہے کہ خود قرآن حکیم میں واضح الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ یہود و نصاریٰ تمہارے کھلے دشمن ہیں۔ اور ہم قرآن سے متصادم ہوکر کہہ رہے کہ نہیں یہود ی نہیں بلکہ صیہونی ہمارے دشمن ہیں اب کوئی بتائے کہ صیہونیت اور یہودیت میں کیا فرق ہے ہم قرآن کا مانیں یا اس سازشی ٹولے کی مانیں جو الفاظ کی جادوگری کے ذریعے حقائق کو اپنی جانب موڑ رہے ہیں۔
آج ساری دنیا میں اسلام کا خوف اور مسلمانوں سے خو ف بپا کر کے اسلام اور مسلمانوں دونوں کو اقوام عالم کے حاشےے پر کھڑا کیا جا چکا ہے اس غر ض سے دنیا کے مختلف مقامات و ممالک مین مختلف تحریکوں کے ذریعے مختلف اوقات میں مختلف حکمت عملیاں مرتب کی گئی ہیں انہیں میں سے ایک حکمت عملی یہ بھی ہے کہ اصطلاحوں کی بحث میں الجھا کر حقائق کی پردہ پوشی کی جائے چنانچہ یہودیت کے لئے صیہونیت کی اصطلاح، نصاریٰ کے لئے استعمار کی اصطلاح اور ہندوتوا کے لئے فسطائیت کی اصطلاح زبان زد خاص و عام ہے لیکن ان تینوں کا دشمن مشترک ہے اوروہ ہے اسلام اور مسلمان۔
صیہونیت کی اس حکمت عملی کو سمجھنے کے بعد اس پس منظر میں اگر آج کے مغربی ایشیا کے حالات کا تجربہ کریں گے تو صورتحال واضح ہوجائے گی۔ خاص طور پر مغربی ایشیا ءکے مختلفف ممالک میں صورتحال دگرگوں ہے اس کا آغاز تو ایرانی انقلاب کے ساتھ ہی ہوگیا تھا کہ جب اس صدی کا سب سے کامیاب اسلامی تجربہ کر کے شاہ کو ملک بدر ہونے پر مجبور کردیا گیا اور آیت اللہ خمینی کی قیادت میں ایک اسلامی انقلاب کے ذریعے ایران کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے کر اسلام کو عصر حاضر میں نافذ کرنے کی کوشش کی اور صیہونیت اور استعمار دونوں کو ایک ساتھ چیلنچ کردیا۔ عراق کی قیادت میں خلیجی ممالک اور دیگر یوروپی ممالک ایک ساتھ اکٹھا ہو کر ایران پر ٹوٹ پڑے اورایران کو تباہ کرنے کی کوشش میں مسلسل 10سال نوخیزایران پر بمباری کی گئی۔ ایران نے خود کو کسی طرح سنبھال لیا مگر اس کے دو نتائج بہت خراب برآمد ہوئے ایک تو یہ کہ عراق اورایران دونوں کی فوجی قوت انتہائی کمزور پڑ گئی۔ دنیا کی 10بڑی افواج میں سے یہ دونوں ہی سب سے مضبوط افواج تصور کی جاتی تھیں۔ دوسرایہ کہ اسی بہانے عراق کو دیگر خلیجی ممالک کے ذریعے توڑ کے رکھ دیا گیا۔ اس کے شہر مسمار کئے گئے معیشت کو تہہ وبالا کردیاگیا۔ اور بالاخر خطے میں عراق کی سیاسی پوزیشن غیر اہم ہوگئی۔ بعد ازاں افغانستان پرامریکی افواج نے افغانستان کو ریت کے ڈھیر میں تبدیل کردیا۔ تیونس میں بہار عرب کے عنوان سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا پھر مصر سے ایک بہت مضبوط حکمراں جو عرب و افریقہ دونوں برا عظموں کے درمیان پل کی حیثیت سے ایک مضبوط مسلم لیڈر تھا وہاں کے انقلاب کے ذریعے حسنی مبارک کو بے دخل کر کے جمہوری فیصلوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے کٹھ پتلی السیسی کے ہاتھ میں انتظام مصر دے کر مصر کی خطہ جاتی پوزیشن کو ختم کر دیا۔ لیبیا میں کرنل معمر قذافی جیسے زبردست حکمراں کو بہار عرب کے ذریعے ختم کر کے اسے غیر مستحکم کردیا گیا۔ شام میں اسی بہارعرب کے ذریعے بشار الاسد کو ہٹانے کی مہم کے نام پر پورے شام کو ریت کے ڈھیر میں تبدیل کیا جاچکا ہے۔ شام کی آدھی آبادی یاتو قتل کردی گئی یا بے گھر کردی گئی اور جنگ جاری ہے۔
امریکہ اور ناٹو کی افواج نے جو فیصلہ لیبیا، افغانستان اور عراق کے لئے لیا تھا وہ فیصلہ ٹھیک ایک ہی جیسے حالات میں شام کے لئے نہیں کیا گیا اور چارسال سے زائد عرصے سے مسلمانوں کا کشت و خون جاری ہے اسی شام کے چر بے سے مسلکی جنگ کا آغاز کیا جارہاہے۔ اور اس جنگ کو اب شام سے لے کر یمن تک پہنچا دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ خطہ عرب دراصل تو یمن اور شام کے ہی درمیانی علاقوں کا نام ہے۔ چھوٹا سا ملک یمن تقریباً تباہ ہوچکا ہے اور ایران پر حملے کے تانے بانے بھی اسی نام پر بنے جارہے ہیں۔ گویا پورا کا پورا مغربی ایشیاءبارود کی بھٹی میں سلگ رہا ہے۔ اور جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا تجارت، معیشت ختم ہوچکی ہے۔ سیاسی عدم استحکام ہے۔ شہروں کو کھنڈروں میں تبدیل کیا جاچکا ہے۔ اور موت ک کا رقص ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
آخر کس کو فائدہ ہوگا مغربی ایشیاءکے ا س بحران کا ظاہر ہے کہ مبتلائے جنگ ممالک کو تو کسی فائدے کی توقع ہے نہیں۔
اس سوال کا جواب اس نقشے میں موجود ہے جو اسرائیل نے اسرائیلی عظمیٰ کے قیام کے لئے تجویز کیا ہے۔ اس نقشے کے مطابق اسرائیل عظمیٰکی سرحدیں موجود ہ اسرائیل کے سمندر سے شروع ہوکر ایک سیدھی لائن میں مدینہ تک پھیلی ہوئی ہے ہیں۔ جی ہاں وہی مدینہ جہاں سے آج سے چودہ سو سال قبل یہودیوں کو تا قیامت ملک بدر کردیا گیا۔ اس مدینہ کو بہ زور طاقت حاصل کرنے کی جدو جہد میں صیہونیت مبتلا ہے۔ صہیونیت کو اپنی یہودی ریاست ملے گی اور نصاریٰ کو سرزمین عرب کا تیل اور اسلام دشمن دوسری اقوام کو مسلمانوں سے نجات۔ یہی ہے مغربی ایشیاکے بحران کی 125سالہ حکمت عملی کا مجوزہ نتیجہ۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ تنکا تنکا ڈوبتی بکھرتی مسلم ریاستوں میں اس سازش کو روکنے کے لئے مغربی ایشیاءکی آخری سرحدوں اٹھتی ہوئی اسلامی صدائیں کتنی موثر ثابت ہوسکیں گی۔

تبصرے بند ہیں۔